زینت کوثر لاکھانی ۔ یو۔اے۔ای
یہ پہلا سبق ہے کتاب ھدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
اللہ خالق کُّل شئی ہے اور اپنی تمام مخلوق سے محبت کرنے والا ہے ۔ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ( 90۔11) بے شک میرا رب مہربان اور دوست دار ہے۔اللہ کی ربوبیت بے طلب تمام مخلوقات عالم کے لئے اپنا دامن رحمت پھیلائے رکھتی ہے ۔ اللہ اپنی تمام مخلوق کی بقا ء ، سلامتی اور فلاح کے سامان مہیا کرتا رہتا ہے۔
وہ اللہ صمد ہے ، بے نیاز ہے ۔ اپنی مخلوق سے کوئی طلب اور غرض نہیں رکھتا وہ کسی کے عقیدہ اور عبادت کے بدلے میں اپنی نعمتوں کی بارش نہیں کرتا بلکہ اس کی رحمتیں تو اغیار کے کاشانوں پر بھی برستی رہتی ہے ۔ البتہ وہ لوگ جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرکے، اس کے ضابطۂ حیات کو اپنا کر اسلمت برب العالمین کہتے ہیں ،ان مسلمین کو ربوبیت عامّہ میں شریک کرلیا جاتا ہے اور جب یہ اپنے کو مسلم کہلانے والے لوگ اللہ کی دوسری مخلوق کی ضرورتوں اور سلامتی کا خیال رکھتے ہیں تو انہیں ‘‘ مومن’’ یعنی ‘ امن کا پیامبر ’ کہا جاتا ہے ۔ مومن قرآن کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جس کا وجود اس دنیا میں سب کے لئے خیر و سکون اور امن و آشتی کا باعث بنتا ہے ۔ اس خطہ أرض پر فساد، نا اتفاقی ، نفرتیں اور خون خرابہ کرنے والوں کو قرآن ‘‘ مفسد’’ کہتا ہے ۔
المختصر یہ کہ ‘‘ مومن ’’ کے دل کو اللہ کی رحمت اور محبت گداز کردیتی ہے جس کی وجہ سے مومن کے دل میں ہر ایک کے لئے خیر محبت اور امر بالمعروف کے لئے کوششیں و جد و جہد کی چاہ پیدا ہوجاتی ہے اور مومن کا وجود امن عامّہ کا ضامن بن جاتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والے اپنی ہی نوعِ انساں کے دشمن بن جائیں؟ جب کہ اپنی ہی نوع سے محبت تو جانوروں اور حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ سمندر وں کی مچھلیوں سے لے کر وحشی درندوں تک سب جماعت بندی کرتے ہیں اور اس جماعت کے بے لفظ و صوت قوانین کی پابندی بھی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھتے ہوں گے ۔ ایک ننھی سے چیونٹی اپنے سے زیادہ وزنی اناج ڈھوکر اپنی نوع کے لئے خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔ بقول حالی
جب اک چیونٹا جس میں دانش نہ حکمت بنی نوع کی اپنے بر لائے حاجت
معیشت سے ایک اک کو بخشے فراغت کرے وقف اُن پہ اپنی ساری غنیمت
تو اس سے ہے زیادہ بے غیرتی کیا کہ ہو آدمی کو نہ پاس آدمی کا
آج پوری دنیا عموماً اور تمام مسلم ممالک خصوصاً تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ۔ لوگ رنگ ، نسل ، مذہب، علاقے، ملک اور قوموں میں تقسیم در تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں ۔ نفرت اور انسان دشمنی نے مہلک ہتھیاروں کی مارکیٹ گرم کردی ہے ۔ ایٹمی دھماکے، ڈرون حملے اور کیمیائی تباہ کن مواد کی موجودگی میں پوری دنیا کا انجام کیا ہوگا؟
ہر ایک سمت سے شب خون کی تیاری ہے
محفل زیست پہ فرمانِ قضا جاری ہے
تباہی کے اس منظر نامے میں ‘‘ مومن جانباز’’ کا کردار کہیں نظر نہیں آتا ۔ مسلمانوں کی میز پر کوئی خصوصی ایجنڈا نہیں جو عالمی نفرت اور ہلاکت انگیزی کے اس طوفان بلا خیز کو روک سکے ۔ حیرت انگیز اور قابل افسو س امر تو یہ ہے کہ ‘‘ امن عامہ’’ سے مومن کو سروکار ہی نہیں رہا ۔ مسلم ممالک تو دنیا کی قیادت و سیاوت یعنی سپر پاور بننے کے عظیم الشان کردار سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں میں قلعہ بند ہوکر اپنے آپ کو محفوظ مامون سمجھتے ہیں اور ستم بالا ئے ستم یہ بھی کہ لٹیروں کو اپنا پاسبان بنا بیٹھے ہیں ۔
کریں گے کسی کی وہ کیا رہنمائی
لُٹا کر جو خود کا رواں چھوڑ آئے
دیگر ممالک سے صرف نظر کرکے صرف پاکستان کی صورت حال دیکھئے تو یہاں حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں ۔ ‘‘ اسلام’’ کے نظریہ پر قائم ہونے والا یہ ایک ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کی آماجگاہ بن گیا ہے ۔ وہ دین جس نے غیروں کو اپنا بنایا وہاں لوگ اپنوں کو دن دھاڑے قتل کردیتے ہیں ۔ قوت برداشت اور رواداری سے معاشرہ محروم ہورہا ہے ۔ قرآن آج بھی زندہ کتاب ہے جو ہر مسلم کے ہاتھوں میں ہے ۔ جس کا واضح پیغام ہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ ، بے گناہوں کا خون مت بہاؤ ۔ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (32۔5) جس کسی نے خون کے بدلے اور زمین پر فساد پھیلانے والے کے علاوہ کسی اور کو قتل کیا اس نے گویا تمام انسانیت کو قتل کیا اور اگر کسی کی جان بچائی تو اس نے گویا پوری انسانیت کو زندگی بخش دی ۔ ملاحظہ فرمایا اللہ کے ہاں انسانی جان کتنی عزیز ہے؟ ۔ انسان کو اللہ نے زندگی دی ہے لینے کا حق بھی اسی جل جلالہ کو ہے ۔ جب کوئی کسی انسان کی جان لیتا ہے وہ خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لیتا ہے ۔ یہ کفر ہے ۔
قرآن نے اپنے ماننے والوں کو ہدایت کی ہے کہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعظیم کرو کیونکہ وہاں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ گرِجا ، کلیسا، چرچ، صومعے، مندر ، ٹیمپل ، گرودوارے او رمسجدیں سب عبادت گاہیں ہیں ۔ ہر عبادت گاہ عزت و تکریم کے لائق اور ایک محفوظ مقام ہوتا ہے، جہاں زمانے کے ستائے ہوئے لوگ اپنے معبود کی پناہ میں آتے ہیں، جہیں بھٹکے ہوئے راہ طلبی کی تمنا لئے آتے ہیں، جہاں گناہ گار توبہ کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، جہاں لوگ اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے دعائیں کرتے ہیں، روتے ہیں،اپنے مالک کے حضور گڑگڑ اتے ہیں ، جہاں لوگ شکر کے سجدے بجا لاتے ہیں ۔ لوگ عبادت گاہوں میں جنگ و جدل کے لئے ہر گز نہیں آتے اور نہ ہی ان مقدس جگہوں کو اسلحہ خانے اور مورچے بناتےہیں لیکن افسوس آج پاکستان میں کوئی عبادت خانہ محفوظ نہیں ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے ۔وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40۔22) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے نہ ہٹاتا رہتا تو یہ خانقاہیں ، چرچ، اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے ڈھادی جاتیں ۔ مسجدوں کے ساتھ ساتھ چرچ کا تذکرہ اور پھر یہ کہنا کہ ان میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے یہ اس کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کو اہل کتاب کےمعاہد کو بنظر احترام دیکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
منزل و مقصودِ قرآنِ دیگر است
رسم و آئینِ مسلمان دیگر است
امت مسلمہ کے افکار اور اعمال میں اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے ؟ ہم سب جانتے ہیں اس سوال کا جواب ، ایں ہمہ راز معلوم است، اس قتل و غارتگری سے کیا آج ہم ترقی کی منازل طے کررہے ہیں؟ یقیناً نہیں ! بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اکثر مسلم ممالک دنیا کے غیر محفوظ علاقے قرار دیئے گئے ہیں ۔ کیا آج تمام مسلمانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ کیوں ہم اوج ترقی پہ بڑھتے بڑھتے اچانک ترقی معکوس کی طرف مائل ہوگئے ہیں ؟
فرقہ بندی اور فسادفی الارض
زمیں کیا ، آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کردیا تو نے !
زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل ! بنایا ہے بُت پندار کو اپنا خدا تو نے
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دنیا میں جس بت کی سب سے زیادہ پرستش کی جاتی ہے، وہ اپنی اپنی خواہشات کا بت ہے ۔خواہشات کے اس بت کی پر ستش کی بدولت ہم خود پرستی میں مبتلا ہوکر ہٹ دھرم، تنگ دل اور حد درجہ خود پسند ہوگئے ہیں ۔ اپنی ذات سےوابستہ ہر شے ہمیں پیاری ہے ۔ ہمیں اپنے اپنے سخت اور محدود نظریات ،ناقابل فہم او رکھوکھلے عقائد اور بعید از امکاں و ہم و گماں تک عزیز ہوتے ہیں ۔خود ستائشی اور اپنے آپ کو صحیح سمجھنے کا غرور ہمیں اپنی ذات میں اس قدر مقید کردیتا ہے کہ ہمیں دوسروں کو اور ان کے خیالات کو سمجھنے کا نہ حوصلہ رہتا ہے او رنہ اپنی اصلاح کا خیال، ہم صرف اپنے کو صحیح سمجھ کر دوسروں کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں ۔ بعض اوقات کچھ نظریات و عقائد سے ہمارا یقین اُٹھ بھی جاتاہے لیکن اگر کوئی دوسرا ہمارے ان بے یقین نظریات و عقائد کے خلاف ایک لفظ بھی کہہ دے تو ہمیں یہ فرسودہ نظریات و عقائد اپنی جان سے زیادہ عزیز محسوس ہوتے ہیں اور ہم اُن کے دفاع میں جی جان کی بازی لگا نے کے لئے تیار ہوجاتےہیں ۔
کیا واقعی ہمیں اپنے فرسودہ خیالات اور نظریات اتنےعزیز ہوتےہیں؟ یا ہماری خود پسندی اور خود آرائی کسی قسم کی مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی ؟ یقیناً یہ ہمارا جذبہ خود پسندی اورطبیعت کا تکبر ہے جو کسی دوسرے شخص کی رائے ، خیال ، نظریہ اور عقیدہ کو اہمیت دینا نہیں چاہتا ۔ ہم اپنے مقابل کی بات چاہے وہ سو فی صد دُرست بھی ہو ، اسے مان لینے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں ۔
یہی خود پسندی جب مذہبی یا قومی رنگ اختیار کرلے تو ‘ عصبیت ’ کہلاتی ہے۔ یہی عصبیت انسانوں کی ایک جہتی کے لئے رسم قاتل ہے۔ انسان گروہ اور فرقوں میں بٹ جاتے ہیں اور ہر فرقہ جذبہ خود پسندی کے زغم میں خود کو درست اور دیگر تمام فرقوں کا اپنا دُشمن سمجھ کر مارنے مرنے پر تُل جاتا ہے ۔
شجر ہے فرقہ آرائی ، تعصب ہے ثمر اُس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
اسی عصبیت اور دھڑے بندی نے اُمت مسلمہ کو مختلف گروہوں ، فرقوں اختلافات کی نذر کردیا ہے ۔ ہر فرقہ اور جماعت اپنے آپ کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھتی ہے ۔ اللہ کی وحدانیت پر یقین محکم سے تو انسانی ذات میں یکسوئی ، یکجہتی ، مرکزیت اور عبودیت پیدا ہونی چاہئے تھی ۔ مسلمان کو تمام اقتدارِ اعلیٰ اللہ کے سپرد کرکے خود اپنی، مرضی اور خواہش کو اُس کے حکم کے تابع کرنے کی کوشش کرنی تھی لیکن حقیقت حال اس سے مختلف ہے ۔ یک سوئی اور یکجہتی کجا، کیونکہ اُمت مسلمہ تو کئی سو سال سے بیمار ہے اور مرض فرقہ پرستی، گروہ بندی اور تعصب کا شکار ہے۔ اس مرض کے علاج کے لئے کبھی حالی نے توجہ دلائی اور تنبیہ کی کہ عرب جاہلیت کے اس معاشرہ کے مرض سے دامن چھڑاؤ ورنہ نکبت اور تنزل تمہارا مقدر ہوگا ۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتی ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
سرسید احمد خاں کا مقالہ ‘‘ تعصب ’’ پڑھئے ۔ آپ کو ایسا محسوس ہوگاکہ حالات حاضرہ پر کسی آج کے صاحبِ نظر کی تحریر ہے ۔ سرسید کہتے ہیں۔
‘‘ ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ پڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو اور وہ تمام لوگوں کو جو اُس کے مذہب کے نہیں ہیں انہیں حقارت سے دیکھے اور برُا سمجھے، ایسے متعصب شخص کو نہایت قابل تعریف اور پکا مذہبی سمجھتے ہیں ۔ مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے جس نے مسلمانوں کو برباد کردیا ہے ۔
جب کہ مذہب کا تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ انسان کو برباد کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا داؤ تعصب کو مذہبی رنگ دے کر دل میں ڈالنا ہے اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ بنا کر دکھلا نا ہے ۔
پس میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہمارا خدا نہایت مہربان اور بہت بڑا منصف اور سچائی کاپسند کرنے والا ہے ۔ پس ہم اپنے مذہب میں سچائی سے پابند رہنا چاہئے لیکن تعصب کو جو ایک برُی خصلت ہے، چھوڑ ناچاہئے ۔
تمام بنی نوع انساں ہمارے بھائی ہیں، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا ہے اور سچی دوستی اور سب کی خیر خواہی کرنا ہمارا قدرتی فرض ہے، بس ہم کو اُس کی پیروی کرنا چاہئے ’’
( مقالاتِ سرسید ، جلد پنجم)
میری بھی یہی گزارش ہے میرے ہم وطنو! کہ سب کا احترام کریں، دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں ، زور زبردستی سے اپنے عقائد اور خیالات دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں یادرکھیں ‘‘ دین کے معاملات میں کوئی زور زبردستی نہیں ۔ ’’
ہاں لوگوں سے محبت کریں، ان کی خدمت کریں ، محبت کرنے سے دل کو سعادت نصیب ہوگی، دل کی کشاد ہوگی ، ہم تمام انسانوں اور خصوصاً اپنے فکر و خیال ، ایمان اور عقیدے کے مخالفوں سے بھی محبت کریں گے کیونکہ محبت تقاضا ہے حُبّ الہٰی کا۔ محبت کرنے والے دل اطمینان اور سکون کی دولت سے بہر ہ یاب ہوتے ہیں ۔
شرابِ روح پر ور ہے محبت نوع انساں کی سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و بہو رہنا
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
دسمبر، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/love,-tolerance-peace-/d/97820