غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
29 ستمبر 2021
1. طالبان کو جمہوریت اور
صنفی مساوات قائم کرنا ہوگا اگر وہ واقعی بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں
2. طالبان ظاہر شاہ کے
1964 کے آئین کے کچھ دفعات کو صرف ایک محدود وقت کے لیے اپنائیں گے
3. 1964 کے آئین نے افغان
خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا ، جس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی شراکت داری کی
راہ ہموار ہوئی
4. ایک سینئر طالبان لیڈر
نے دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھ کاٹنے اور پھانسی دینے کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا لیکن
ایسی سزائیں سرعام نہیں کی جائیں گی
5. جب طالبان نے اس مہینے
کے شروع میں اپنی نگران حکومت کا اعلان کیا تو تمام اعلیٰ عہدے سخت گیر افراد کے لیے
مختص کر دئے گئے تھے، جن سے خواتین کو دور ہی رکھا گیا تھا
6. طالبان شدت پسند اپنا
سخت رویہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور مشکل بنا رہے
ہیں
7. اگر طالبان بین الاقوامی
مدد چاہتے ہیں تو انہیں اپنے نظام کو جمہوری بنانا ہوگا اور اس بات کو بھی یقینی بنانا
ہوگا کہ صنفی اور اقلیتی مساوات کا مکمل احترام کیا جائے
-------
جب یہ اطلاع ملی کہ طالبان
عارضی طور پر محمد ظاہر شاہ کے دور کا آئین اپنائیں گے تو کچھ سوشل میڈیا صارفین نے
دلیل دی کہ طالبان انتہا پسندی سے دور ہورہے ہیں اور اعتدال پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں
لہٰذا عالمی برادری کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔ مجھے یہ جان کر قدرے حیرت ہوئی کہ طالبان
پر صرف اس بات پر اعتدال پسندی کا لیبل لگایا
جا سکتا ہے کہ وہ ظاہر شاہ کے منظور کردہ 1964 کے آئین کے کچھ حصوں کو نافذ کرنے کا
ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس آئین کا جو بھی حصہ طالبانی نظریہ کی مخالفت کرے گا اسے مٹا
دیا جائے گا۔ ذیل میں دی گئی رپورٹس اور شواہد کی مزید باریک بینی سے جانچ کی جانی
چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ طالبان کو اعتدال پسند کہنا کہیں جلد بازی تو
نہیں ہے۔
طالبان کے موجودہ وزیر انصاف
مولوی عبدالحکیم شاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام پسندوں کا مقصد سابق بادشاہ
محمد ظاہر شاہ کے 1964 کے آئین کو دوبارہ صرف ایک محدود وقت کے لیے متعدد ترامیم کے
ساتھ پیش کرنا ہے جو کہ "جمہوریت کے سنہرے دور" میں بنایا کیا گیا تھا۔ اس
آئین کے تحت خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عبدالحکیم نے یہ
بھی کہا کہ آئین کی وہ شقیں جو شریعت اور امارت اسلامیہ کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتیں
منسوخ کر دی جائیں گی۔
1964 کا آئین کیا ہے کہ طالبان
نئے قوانین بنانے کے بجائے ان پر عمل درآمد کر رہے ہیں، اور اس دور کو طالبان نے
"سنہرا دور" کیوں کہا ہے؟ تقریبا چھ دہائیاں قبل جب دنیا کی سپر پاورز نے
افغانستان میں مداخلت نہیں کی تھی اس وقت ملک میں شاہ محمد ظاہر شاہ کی قیادت میں ایک
قلیل المدت آئینی بادشاہت تھی۔
ظاہر شاہ [2007-1914] نے
1963 میں اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد یہ آئین تیار کیا اور اسے 1973 تک اپنے دور
کے اختتام تک نافذ رکھا، جس کی بدولت افغانستان کو ایک دہائی تک پارلیمانی جمہوریت
حاصل رہی۔ یہ افغانستان کی تاریخ کا سب سے پرامن دور سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر شاہ نے خواتین
کے لیے ’پردہ‘ منسوخ کرنے کی وکالت کی اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے
غیر ملکی فنڈز استعمال کیے۔ وہ متصادم سوویت اور مغربی مفادات کو متوازن رکھنے میں
کامیاب رہے۔ ظاہر شاہ کے بھتیجے اور بہنوئی شہزادہ داؤد نے 1973 میں اٹلی میں چھٹیاں
گزارنے کے دوران بغاوت کروا کر ان کا تختہ الٹ دیا۔
1964 کے آئین نے افغان خواتین کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا
جس سے زیادہ سے زیادہ سیاسی شراکت داری کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم یہ طالبان کے انتہاپسند
نظریے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
1996 سے 2001 کے درمیان طالبان کا، جنہوں نے اگست کے وسط میں افغانستان
پر دوبارہ تسلط قائم کر لیا ہے، ایک "وحشیانہ دور" تھا جس میں خواتین کو
عملی طور پر کام اور تعلیم سمیت عوامی زندگی سے روک دیا گیا تھا۔ 1980 کی دہائی میں
سابق سوویت یونین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک ایک سخت گیر طالبان حکومت کے قیام
کے ساتھ خانہ جنگی کا شکار ہو گیا، جس کے بعد 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں
ایک اور حملہ ہوا، اور اب ان سب کے بعد طالبان نے اسی آئین کو اپنانے کا فیصلہ کیا
ہے۔
دوسری طرف طالبان نے پرانی
بادشاہت کو مکمل طور پر دوبارہ قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بجائے 2004 میں
صدر حامد کرزئی کی عبوری حکومت کی توثیق شدہ قانون اختیار کیا ہے جس میں ایک صدارت
کا تصور تھا اور خواتین کی مساوات کی بھی بات کی گئی تھی۔ طالبان حکام نے یہ بھی کہا
ہے کہ عوامی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش میں لڑکیوں کے اسکول بہت جلد دوبارہ کھولے
جائیں گے۔ انہیں "مناسب اور محفوظ" ماحول میں رکھا جائے گا اور ان کی تعلیم
کا انتظام کیا جائے گا۔
پچھلے ہفتے ایسوسی ایٹڈ پریس
کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سینئر طالبان رہنما اور اس گروپ کے بانیوں میں سے ایک ملا
ترابی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہاتھ کاٹنے اور پھانسی دینے کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے
گا لیکن یہ سزائیں عومی طور پر نہیں دی جائیں گی۔ ملا ترابی نے کہا کہ "کسی کو
حق نہیں کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہمارے قوانین کیسے لکھے جائیں، ہم اسلام کی پیروی کریں
گے اور قرآن کے مطابق اپنی پالیسیاں بنائیں گے۔"
طالبان کے ارادوں پر آج یقین
کرنا مشکل ہے۔ دوسری طرف کچھ افراد یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ طالبان اس بار نرم
اور زیادہ جامع پالیسی بنائیں گے، جیسا کہ طالبان رہنما اکثر خبروں میں بیان کر چکے
ہیں۔
تاہم، جب طالبان نے اس مہینے
کے شروع میں اپنی حکومت کا اعلان کیا تھا تو
انہون نے تمام اعلیٰ عہدے سخت گیر افراد کو مختص کر دئے تھے اور خواتین کو ان سے دور
ہی رکھا گیا تھا۔ تاہم، چونکہ طالبان اب بھی اپنی حکومت و امارت کا نظام تشکیل دے رہے
ہیں اور بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کر رہے ہیں، اسی لئے وہ عارضی طور پر خواتین
کے لئے ووٹ ڈالنے کے کا اعلان کر رہے ہیں تاکہ کچھ مخالفین کو خاموش کیا جا سکے۔ اگر
آپ طالبان کا نظریہ مطالعہ کرتے ہیں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ خواتین کے حقوق ان کے دور
میں اتنے پر امید نہیں ہیں جتنے کہ کچھ لوگوں کو لگتا ہے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ بین الاقوامی
برادری نے طالبان انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ اس کی قیادت کو ان کے طرز عمل کی بنیاد
پر آزمایا جائے گا۔ خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے بارے میں طالبان حکومت کا موقف
اس بات کا تعین کرے گا کہ عالمی برادری کو ان کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ کام
کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا بین الاقوامی برادری کا طالبان پر دباؤ کسی بھی صورت دکھائی
دے رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے طالبان کے موجودہ اقدامات اور کردار پر غور کرنا
ضروری ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے باوجود
طالبان نے اپنی کابینہ کے نائب وزراء کے نام شائع کرتے وقت اپنے نائب وزراء کی فہرست
میں خصوصی طور پر مردوں کا نام لیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ طالبان شدت پسند اپنا سخت رویہ
برقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ وہ خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور مشکل بنا رہے ہیں۔
طالبان نے نائب وزراء کے ناموں کا اعلان کر کے مردوں کی اجارہ داری کو دوگنا کر دیا
ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی دباؤ
کے اثرات اس حقیقت میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ جب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
سے پوچھا گیا کہ اقلیتوں اور خواتین کو کابینہ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا تو انہوں
نے طالبان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کابینہ میں اقلیتی نمائندے بھی شامل ہیں
جیسا کہ ہزارہ اقلیتی گروپ کے ارکان۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق خواتین کو حکومت میں
بعد میں شامل کیا جائے گا۔ یقینا طالبان ترجمان بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اس طرح
کے بیانات دے رہے ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
طالبانی حکومت کے ترجمان ایسے
ریمارکس دے کر بین الاقوامی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ وہ طالبان انتظامیہ کو تسلیم
کرے، طالبان بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ "اقوام
متحدہ، یورپی ممالک، ایشیائی اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کو ہماری حکومت کو تسلیم
کرنا چاہیے اور ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا چاہیے۔ اس فیصلے کو روکنے کی ضرورت
نہیں ہے۔ "
تاہم، عالمی دباؤ کے اثرات
ابھی تک طالبان کی کارروائیوں میں ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ یہ بات اس طرح بھی سمجھ سکتے
ہیں کہ، طالبان نے ابھی تک عالمی برادری کا مکمل اعتماد حاصل نہیں کیا ہے۔ اگر طالبان
بین الاقوامی مدد چاہتے ہیں تو انہیں اپنے نظام کو جمہوری بنانا ہوگا اور اس بات کو
یقینی بنانا ہوگا کہ صنفی اور اقلیتی مساوات کو مکمل طور پر عزت دی جائے اور تمام شہریوں
کو اپنے مذہبی، ثقافتی، لسانی، صنفی اور نسلی حقوق استعمال کرتے ہوئے امن اور سلامتی
کے ساتھ رہنے کا مساوی مواقع حاصل ہوں۔ تاہم، طالبان کے فلسفے کا جائزہ لینے سے پتہ
چلتا ہے کہ ان سے اس طرح کی توقعات بے سود ہیں۔
English
Article: Adopting Zahir Shah's 1964 Constitution Isn't Enough;
To Gain International Support, the Taliban Must Fully Establish Democracy and
Gender Equality
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism