ظفر دارک قاسمی
13 دسمبر، 2014
آخر میں فارس کے بادشاہ ابوحنان کے دربار میں آئے ۔ اور اس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی ۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارفی غرائب الدیار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔
ابن رشد : جغرافیہ دان، فلسفی، ریاضی دان، ماہر علم فلکیات اور ماہر فن طب ابن رشد قرطبہ میں 1126ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کا پورا نام ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی ہے۔ ابن طفیل اور ابن اظہر جیسے مشہور عالموں سے دینیات ، فلسفہ ، قانون ، علم الحساب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل کی۔ یوں تو ابن رشد نے قانون ، منطق ، قواعد زبان عربی ، علم فلکیات ، جغرافیہ اور طب پر متعدد کتب لکھی ہیں ۔ مگر ان کی وہ تصانیف زیادہ مقبول ہوئی ہیں جو ارسطو کی ما بعد الطبیعات کی وضاحت اور تشریح کے سلسلے میں ہیں ۔ ابن رشد 1198 عیسوی کو مراکش میں انتقال کر گئے ۔ جماالدین العلوی نے ابن رشد کی 108 تصانیف شمار کی ہیں جن میں سے ہم تک عربی متن میں 58 تصانیف پہنچی ہیں، ابن رشد کی اس قدر تصانیف میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ارسطو کے سارے ورثے کی شرح لکھی ۔
ابن سیسنسا : ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبداللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب او رفلسفی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جغرافیہ کے میدان میں بھی کافی کام کیا ۔ ابن سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ‘‘ الشیخ الرئیس ’’ ان کا لقب ہے ۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا ۔ جلد ہی سلطان نوح بن منصور کا کتب خانہ چھان مارا اور ہمہ گیر معلومات اکٹھی کرلیں ۔ اکیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی ۔ ایک روایت کے مطابق بوعلی سینا نے اکیس بڑی اور چوبیس چھوٹی کتابیں لکھی تھیں ۔ بعض کے خیال میں اس نے ننانوے کتابیں تصنیف کیں ۔ جغرافیہ میں انہوں نے پہاڑوں کا بننا، موسموں کا اتار چڑھاؤ اور زمین میں آنے والی تبدیلیوں پر کافی تحقیق کی۔
ابوبن الھیثم : ان کا پورا نام ‘‘ ابو علی الحسن بن الہیثم ’’ ہے لیکن ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں ۔ ابن الہیثم ( پیدائش : 965 ء ، وفات 1039ء) عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے ۔ وہ طبیعات ، ریاضی، انجینئرنگ ، جغرافیہ ، فلکیات او رعلم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے ۔ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہیں ۔ ابن ابی اصیبعہ ‘‘ عیون الانباء فی طبقات الاطباء’’ میں کہتے ہیں ‘‘ ابن الہثیم فاضل النفس ، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے ، ریاضی میں ان کے زمانے کاکوئی بھی سائنس دان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا ، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے ’’۔ جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصانیف شمار کی گئی ہیں ۔
المسعودی : مشہور مسلم مؤرخ ، جغرافیہ دان اور سیاح المسعودی بغداد میں 896ء میں پیدا اور 956ء میں وفات پاگئے ۔ اس عظیم سیاح نے اپنے شہر سے پہلا سفر ایران کاکیا اور پھر وہاں سے ہندوستان ( موجودہ پاکستان) کے علاقوں کا سفر کیا ۔ انہوں نے یہاں سندھ اور ملتان کی سیر کی اور پھر ہندوستان کے مغربی ساحلوں کے ساتھ ساتھ کوکن اور مالا بار کے علاقوں سے ہوتے ہوئے لنکا پہنچے ۔ یہاں وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چین گئے ۔ چھین سے واپسی پر انہوں نے زنجبار کا رخ کیا اور مشرقی افریقہ کے ساحلوں کی سیر کرتے ہوئے مڈغا سکر تک پہنچے ۔ یہاں سے جنوب عرب اور عمان ہوتے ہوئے اپنے شہر بغداد واپس پہنچے ۔ اس عظیم سیاح و جغرافیہ دان نے 20 سے زائد کتابیں تصنیف کیں لیکن افسوس کہ ان کی صرف دو کتابیں اب باقی بچی ہیں جن کے نام مروج الذہب اور لتنبیہ والا شراف ہیں ۔ مسعودی کی کتابوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے مطالعے سے چوتھی صدی ہجری کی زندگی آئینے کی طرح سامنے آجاتی ہے اور اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔
آخر میں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارا معاشرہ خصوصاً مسلم قوم محدود علم کے حصول تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ جو ورثہ ہمیں اسلاف سے ملا تھا نہ ہی ہم نے اسے سیکھا او رنہ اس کی قدر کی بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ مغرب کے پاس جن علوم و فنون کا ذخیرہ ہے وہ سب ہمارے اکابر واسلاف کی دین ہے بڑی ہوشیاری سے مغرب نے ان پر اپنا تسلط جمالیا او رمسلم قوم جس نے ایک طویل عرصہ تک علم و فن ، سائنسی ایجادات کے ذریعہ عالم انسانیت کی خدمت کی تھی وہ اب دوسرے کے آگے سر بسجود ہے ماخذ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری گود میں پلنے والے ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اساطین علم موجود تھے مثلاً ماہر سرجری ابوالقاسم زہراوی، ماہر سیاسیات ارسطو ، ماہر فلاسفی افلاطون اور ابن ندیم وغیرہ یہ وہ علم کے چشم و چراغ ہیں جو ہماری ہی تہذیب و ثقافت کے علم برادر رہے ہیں ۔ اور مغرب نے ان کے فکر و فن اور تحقیق و تدقیق سےبھر پور فائدہ حاصل کیا ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے بزرگوں کی کھوئی ہوئی میراث کو واپس لانے کی از حد ضرورت ہے۔ اور اپنے معاشرے و سماج کو حصول تعلیم کی طرف بڑھانا ضروری ہے۔ تبھی جاکر ہم اپنی شاندار خوشگو ار تہذیب کے امین و محافظ کہلائے جائیں گے۔
13 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-participation-knowledge-science-–/d/100504