ظفر دارک قاسمی
27 جون ، 2012
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے
جو تمام اقوام کی فلاح و صلاح کا ضامن ہے۔
اسلامی تاریخ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی
ہے کہ جس قوم وملت کا رشتہ اسلام سے استوا ر رہا ہے تو قدر منزلت ، عزت و توقیر اور
فتح وظفر نے اس کی قدم بوسی کی ہے۔ اگر سیرت طیبہ
کا بغور مطالعہ کیا جائے توپتہ چلتا
ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت صرف روحانی پیشوا ، مذہبی رہنمائی اور معلم
اخلاق ہی کی نظر نہیں آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت ،دور اندیشی ،
معاملہ فہمی، فہم و شعور اور حکمت و مصلحت
پر پوری تاریخ خصوصاً صلح حدیبیہ میثاق مدینہ اور فتح مکہ بین ثبوت ہیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ، جدید
ترین سہولیات ہونے اور آسمان پر کمنڈ ڈالنے
کے باوجود انسانیت ذہنی انتشار اور روحانی کرب کی شکار ہے۔ اس کی ذاتی اور اجتماعی زندگی تضادات اور تصادمات
سے دوچار ہے۔ اس کی اصل وجہ حرص وحسد، مادہ ومفاد پرستی اور خود غرضی ہے۔
اسلام کے آخری داعی کی حیثیت
سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً سوا چودہ سوسال قبل عالم انسانیت کو اسلام کا پیغام آفاقیت
دیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ
ونسل ، اونچ نیچ ،امیرو غریب کی تفریق ختم کرکے مالک حقیقی سے قربت کو ہی طرۂ امتیاز
قرار دیا اور اپنے قول وعمل سے ثابت کیا کہ اسلام کا پیغام قابل عمل اور اس کی پیروی
میں انسانیت کی بقا کا راز مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی
زندگی میں اسوۂ رسول کی بڑی اہمیت وافادیت ہے ۔ یہ اسوہ ٔ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ
بھی ہے او رمعیار ہدایت بھی ہے۔ عالم انسانیت کے لئے مکی اور مدنی اسوہ میں اپنی مشکلات
کا حل ڈھونڈ نا چاہئے ۔ سطور ذیل میں مدنی زندگی کے ایک اہم اور خاص پہلو پر گفتگو
ہوگی۔ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی معنویت اس وقت مزید وچند ہو جاتی ہے جب آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمانے کے بعد مختلف اقوام و ملل سے ایک معاہدہ کیا جو آپ
صلی اللہ علیہ و سلم کی عظیم الشان سیاست کا شاہکار ہے۔ معاہدہ میں شریک مندرجہ ذیل
طبقات تھے:
(1) محمد صلی
اللہ علیہ وسلم (2) مسلمان قریش مکہ از ساکنین مدینہ (3) مدینہ کے مسلمان
(4) مدینہ کے یہود (خصوصاً بنوقریظہ ،بنو نضیر ،بنو قینقاع (5) مدینہ کے غیر مسلم
(6) مدینہ کے نصاریٰ۔
یقیناً نزول مدینہ کے بعد
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کی تاسیس میں جو اہم اقدامات کئے ان میں میثاق
مدینہ کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ دنیا کا اولین
تحریری معاہدہ جو 55 دفعات پرمشتمل ہے جس میں ایک ساتھ رہنے والی اقلیات کے حقوق و
فرائض کا تفصیلی ذکر ہے اور انسانی تاریخ میں پہلی بار اقلیات کے لئے نہ صرف برابری کی شکل میں ان کے حقوق مرتب کئے گئے بلکہ انہیں
عملاً عطا بھی کئے گئے ۔ریاست مدینہ نے جہا ں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت
اور تبلیغی مساعی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا وہیں ہمیشہ کے لئے عالمی سطح پر اسلام کو ایک نمایاں
او ربے مثال مقام سے نوازا کیونکہ ریاست مدینہ
کی بنیاد عدل و انصاف ، باہمی میل جول، مساوات ،اتحاد و اتفا ق ،بقائے باہم، امن وامان
، اخوت ومحبت ،قومی یکجہتی ، رحم ، ہمدردی و غمگساری اور انسانی حقوق پر رکھی گئی ہے۔ نیز
ریاست مدینہ ،صلح حدیبیہ مکہ دنیا کے لئے منیارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، اسی طرح
معاہدہ حلف الفضول میں بنو ہاشم ،بنو مطلب ، بنوز ہرہ اور بنو تمیم شامل تھے، اس کے ممبران نےبھی اس بات کا اقرار کیا کہ ہم ملک سے
بدامنی دور کریں گے ۔ مسافر وں کی حفاظت کریں گے، غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے، زبردست
کو زیر دست پر ظلم کرنے سے روکا کریں گے۔ ریاست مدینہ میں جو دفعات مرتب ہوئیں ان کا
خلاصہ یہ ہے:
(1) تمام مسلمان ایک دوسرے
کو رضا کار سمجھیں گے۔
(2) مدینہ میں رہتے ہوئے غیر
مسلمین کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی ۔
(3) مدینہ کا دفاع جس طرح
مسلمان اپنا حق سمجھتے ہیں اسی طرح غیر مسلمین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوئی ہے ۔
(4) خارجی حملے کے وقت تمام
افراد مد ینہ کادفاع کریں گے۔
(5) ہر قاتل مستحق سزا ہوگا۔
(6) تمدن اور ثقافتی معاملات
میں غیر مسلمین کو مساوی حقوق دیئے جائیں گے۔
(7) غیر مسلمین او رمسلمان
ایک دوسرے ایک کے حلیف ہیں، وقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
(8) اگر دونوں قوموں پرکوئی
حملہ کرتا ہے تو ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
(9) غیر مسلمین او رمسلمانوں
میں اختلاف کی نوبت آجاتی ہے تو معاملہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کیا
جائے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری او رقطعی فیصلہ منظور ہوگا۔
(10) غیر مسلمین کے
ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔
(11) تمام طبقات کو
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت وقیادت تسلیم نہیں کی جائے گی۔
ان حقوق سے اندازہ ہوتا ہے
کہ یقیناً ریاست مدینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کی اعلیٰ ترین مثال ہے، کیو نکہ صحرائے عرب کے امی نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس وقت دنیا کو سب سے پہلے جامع تحریری دستور سے متعارف کرایا جب ابھی
دنیا کسی سیاست آئین یادستور سے ناآشنا تھی۔مغربی دنیا کا آئین دستوری سفر 1212ء
میں شروع ہوا جب شاہ انگلستان (King Jahn) نے محضر کبیر (Magnacarta) پر دستخط کئے جبکہ اس
سے 593سال قبل جامع ترین تحریری دستور دنیا کو دیا جاچکا ہے ۔ اس کے بعد 16دسمبر 1686 میں Bill
of Right 1700-1میں the
act of settlementاور 1911میں The
Parliament Act کو اختیار کیا گیا او رامریکہ کا Convention
Constitution 1787میں
اور فرانس میں قومی اسمبلی نے آئین
کو منظوری 1791میں دی۔مغرب کا یہ دستور ی سفر 1215میں شروع ہوچکا تھا، مگر عام آدمی
تک اس کے اثرات پہنچنے میں صدیاں گزرگئیں جبکہ
ایک 1ہجری میں ریاست مدینہ سے شروع ہونے والا اسلام کا سیاسی و آئینی سفر 10 سال کے کم عرصے میں اپنے منتہائے کمال کو
پہنچ گیا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی
یافتہ ممالک کے دساتیر میں امریکہ کے دستور
کو 7000الفاظ کا مختصر ترین مثالی دستور قرار دیا جاتا ہے ،مگر سو ا چودہ سو سال قبل
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا 730الفاظ پر مشتمل میثاق مدینہ اس سے کہیں زیادہ جامع ، مؤثر او رمکمل دستور ہے جس میں تمام
طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے مختلف ریاستی وظائف کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کردیا
گیا ہے۔
ریاست مدینہ کے ضمن میں یہ
بات عرض کی جاسکتی ہے کہ ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں
رہتی او ربستی ہیں اور ایک مذہب کے
بجائے کئی مذاہب او رایک قومیت کے بجائے کئی قوموں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں تو ایسے ممالک میں اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت
اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے ریاست مدینہ کو اسوۂ کاملہ سمجھے ، کیونکہ اغیار واعداء
کے درمیان میں رہ کر جن مشکلات و مصائب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیا اور
جس طرح صبر و استقامت اور حکمت و مصلحت کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچایا اس سے بڑھ کر
او رکوئی قابل تقلید عمل نہیں ہوسکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی میں ایک مرحلہ جو تقریباً نظر
انداز کیا جاتاہے، وہ ریاست مدینہ کا جو عالم انسانیت کی عظمت رفتہ کی بازیابی کا اہم
سبب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی مساعیٔ جمیلہ ،حکمت و مصلحت کے ذریعہ کس طرح اعداء اسلام کو سرنگوں کرلیا اور
فتوحات کا دروازہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
بڑے درد اور کرب کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ آج ہندوستان میں اقلیتوں بالخصو
ص مسلم اقلیت کے اندر معاملہ فہمی ، دور اندیشی ، دانش بینش ،حکمت و مصلحت اور سیاسی بصیرت کا فقدان ہے جس کی بنا پر مسلم اقلیت کا ابھی
تک کوئی مطالبہ پور ا نہیں کیا گیا۔ حکومتیں
آتی جاتی رہیں مگر آج تک ان کی بنیادی مسائل پر عمل در آمد کسی نے نہیں کیا۔
ہاں اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کے
لئے ایسوسی ایشن ، کمیشن، کمیٹیاں تشکیل تو
کی گئیں مگر ان کو عملی جامع نہیں پہنایا گیا۔
حسرت ہوتی ہے ارباب اقتدار
کی دغا بازیوں ،چالباز یوں مکاریوں ،عیاریوں
او رمکرو فریب پرکہ وہ ہمیں سبز باغ دکھا کر آج تک ہمارے حقوق کا استحصال کرتے رہے۔ اس لئے مرکزی اور ریاستی کرتے رہے ۔ اس لئے مرکزی
اور ریاستی حکومتوں کے لئے ریاست مدینہ تازیانہ عبرت ہے کہ سیکولر ملک میں کس طرح اقلیت
اور اکثریت کے حقوق و فرائض کا اہتمام کیا
جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردو ں کہ آج ہمارے اداروں ،مدارس ، خانقا ہوں اور جامعات
میں افراد سازی ،کردار سازی اور تربیت پر کم توجہ دی جارہی ہے جبکہ آج عالم انسانیت
کو مہذب ،شائستہ ،سنجیدہ ، لائق ،دور بیں ، درر رس اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے کہ جو امت کے مرض کی صحیح تشخیص کرسکیں۔ریاست مدینہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم جذبات سے کم حکمت ومصلحت سے
زیادہ کام لیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین سیاسی بصیرت کا شاہکار ہے
کہ چند برسوں میں اعداء اسلام کی سازشیں ،منصوبے ، کوششیں اور اوہام و خیالات خاکستر ہوگئے اور انہیں خود
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اور مسلمانوں کا ایک وجود تسلیم کرنا پڑا۔ اگرہم
موجودہ دورمیں ان درخشاں آئین وقوانین کو
نظرانداز کرکے اپنے حقوق کی بقا و تحفظ کی جنگ لڑتے رہے تو ہماری پسپائی ، نامرادی
مایوسی یقینی ہے، کیونکہ اسلام نے عبادت سے زیادہ زور سیاست ،
معاملات ، اخلاقیات ، سنجیدگی ، فہم وشعور اور سیاسی سوجھ بوجھ پردیا ہے او رباطل پرستوں
کو محو حیرت اور ششد ر بنادیا اور یہ ثابت کردیا کہ تنگ وتاریک دور میں بقا صرف ملت
اسلامیہ کی ہوسکتی ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم یہ منظّم لائحۂ عمل تیار نہ کرتے تو جزیرۃ العرب تک ہی یہ اصول و ضوابطہ
محدود رہتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے اصول پورے عالم کے لئے لائحۂ
عمل اور مشعل راہ ہیں۔ آج کے وہ ممالک جہا
ں حکومت اور اکثریت دوسرے مذاہب کے حاملین کی ہے اور مسلمان وہاں اقلیت کی حیثیت سے جی رہے ہیں
تو وہ ریاست مدینہ اور سیرت طیبہ کے تناظر میں رہنمائی حاصل کریں او رپر امن
زندگی گزارنے کا مقصد تیار کرکے ،ملک کے آئین
اور عدالت سے حق حاصل کرسکتے ہیں او راپنے حقوق و فرائض کو یقینی بنا سکتے ہیں
مختصر یہ کہ اللہ نے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمت و مصلحت اور سیاسی
بصیرت کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم انتہائی مثبت انداز سے حالات کا جائزہ لیتے تھے لہٰذا موجودہ دور میں معاملہ شنا س افراد کی وافر مقدار میں ضرورت ہے۔ یہ چیز سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گہرے مطالعہ سے آسکتی
ہے ۔ لہٰذا ہمارے قائدین، علماء، دانشوروں اور رہنماؤں کو چاہئے کہ سیرت کا مطالعہ مذہبی نقطہ نظر سے کرنے کے ساتھ
ساتھ سیاسی اعتبار سے بھی کریں۔
27 جون، 2012 بشکریہ : روزنامہ صحافت ، نئی دہلی
URL: