ظفر دارک قاسمی
30 مارچ، 2013
کوئی قوم بھی جنگ میں اس کو اپنے لیے واجب العمل نہیں سمجھتی ۔ الا یہ کہ اگر ہمارا حریف ان کا احترام کرے گا تو ہم بھی کریں گے اور اگر وہ جنگ کے وحشیانہ طریقوں پر اتر آئے گا تو ہم بھی بے دریغ وہی طریقے استعمال کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس چیز کا نام قانون نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جنگ میں ان نام نہاد بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے پرزے اڑائے گئے اور ہر مرتبہ ان پر نظرثانی اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہی ۔ اسلام نے اس کے بر عکس جنگ کی جو تہذیب قائم کی ہے، اس کی صحیح حیثیت قانون کی ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور رسول کے دیے ہوئے احکام ہیں ، جن کی پابندی ہم ہر حال میں کریں گے خواہ ہمارا دشمن کچھ ہی کرتا رہا ہے ۔ اب یہ دیکھنا ہر صاحب علم کا کم ہے کہ جو قانون میں پہلے مقر کیا گیا تھا، مغرب نے اس کی خوشہ چینی کی ہے یا نہیں ، اور خوشہ چینی کر کے بھی وہ تہذیب جنگ کے اس مقام تک پہنچ سکا ہے یا نہیں جس پر اسلام نے ہمیں پہنچا یا ۔
جنگ نہ کرنے والوں کا احترام:اسلام میں سب سے پہلے دشمن ملک کی مقاتل (Combatant) اور غیر مقاتل (Non-Combatant) آبادی کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ جہاں تک غیر مقاتل آبادی کا تعلق ہے (یعنی جو لڑنے والی نہیں ہے یا لڑنے کے قابل نہیں ہے مثلاً عورتیں، بچے ، بیمار، اندھے، اپاہج وغیرہ) اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہیں : لا تقنلو اشیخا فانیاو لا طفلا دو صغیر اً صغیرا و لا امراۃ (ابو داؤد ، کتاب الجہاد) ‘‘ کسی بوڑھے، کسی بچے اور کسی عورت کو قتل نہ کرو’’ ۔ لا تقنلو اصحاب الوالد ان ولا الصو امع( مسند احمد) ‘‘بچوں کو قتل نہ کرو عبادت گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو نہ مارو’’۔جنگ میں ایک موقع پر حضور نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو فرمایا ‘‘ یہ تو نہیں لڑرہی تھی ’’ ( صحیح البخاری ، کتاب الجہاد ، باب قتل النسا ء فی الحرب) اس سے فقہا ئے اسلام نے یہ اصول اخذ کیا کہ جو لوگ غیر مقاتل ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے ۔
مقاتلین کے حقوق: اس کے بعد دیکھئے کہ (مسلمانوں سے ) لڑنے والوں کو کیا حقوق اسلام نے دیے ہیں ۔ حدید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لا ینبغی ان بعذب بالنار الارب النار (یعنی) ‘‘آگ کا عذاب آگ کے رب کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا ’’اس سے یہ حکم نکلا کہ دشمن کو زندہ جلایا جائے ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد ) لا یحیزون علی جریح (سنن کبریٰ بیہقی باب اہل البغی ) (یعنی ) ‘‘ کسی زخمی پرحملہ نہ کرو’’ مراد ہے وہ زخمی جو لڑنے کے قابل نہ رہا ہو نہ (کہ وہ جو) عملاً لڑرہا ہو۔
لا یقتلن اسیر ( یعنی ) ‘‘کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے ’’ نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الصبر (ابوداؤد کتاب الجہاد)۔ ‘‘ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھ کر قتل کرنے یا قید کی حالت میں قتل کرنے سے منع فرمایا ’’ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جنہو ں نے یہ روایت حضور سےنقل کی ہے، فرماتے ہیں کہ ‘‘ جس خدا کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کسی مرغ کو بھی باندھ کر ذبح نہ کروں گا۔ ( ابوداؤد کتاب الجہاد )
لوٹ مار کی اجازت نہیں :یہ ہدایت بھی کی گئی کہ غنیم (یعنی مفتوحہ دشمن) کے ملک میں داخل ہوتو عام تباہی نہ پھیلا ؤ بستیوں کو ویران نہ کرو، سوائے ان لوگوں کے جو تم سے لڑتے ہیں اور کسی شخص کے مال پر ہاتھ نہ ڈالو ، حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نھبی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن النھبی (بخاری باب النھبی بغبر اذن صاصبہ) ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار سے منع فرمایا’’ اور آپ کا ارشاد ہے کہ ‘‘ ان النھبی لیسس بساحل من المیتۃ’’ ( سنن ابوداؤد باب النھبی عن النھبی اذاکان فی اطعام)‘‘ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلا ل نہیں ہے ’’ یعنی وہ بھی مردار کی طرح حرام ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت ہدایت فرماتے تھے کہ ‘‘ بستیوں کو ویران نہ کرنا کھیتوں اور باغوں کو برباد نہ کرنا، مویشیوں کو ہلاک نہ کرنا’’ (تاریخ طبری) مال غنیمت کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو غنیم کے لشکروں ، اس کے فوجی کیمپوں اور اس کی چھاونیوں میں ملے۔ اس کو ضرور اسلامی فوجیں اپنے قبضے میں لیں گی۔ لیکن عام لوٹ ماروہ نہیں کرسکتیں ۔ اس بات سے بھی منع کردیا گیا کہ عام آدمی کی کسی چیز سے معاوضہ اوا کیے بغیر فائدہ نہ اٹھایا جائے ۔ دوران جنگ میں اگر دشمن کے کسی علاقے پر قبضہ کر کے مسلمانوں کی فوج وہاں مقیم ہو تو اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ لوگوں کی چیزوں کا بے دریغ استعمال کرے۔‘‘ اگر اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو خرید کر لینا چاہیے یا مالکوں کی اجازت لے کر اس کو استعمال کرنا چاہیے’’ ۔ (ابو داؤد ، کتاب الجہاد) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت یہاں تک فرماتے تھے کہ دودھ وینے والے جانوروں کا دودھ بھی تم نہیں پی سکتے جب تک کہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لے لو۔ (طبری)
لاشوں کو مثلہ نہ کیا جائے : اسلام میں قطعی طور پر اس بات کو بھی منع کیا گیا ہے کہ لاشوں کی تذلیل کی جائے یا ان کا مثلہ کیا جائے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن المثلۃ۔ ( ابوداؤد ،کتاب الجہاد) ‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی لاش کامثلہ (یعنی ان کی قطع و برید) کرنے سے منع فرمایا ’’۔ یہ حکم جس موقعہ پر دیا گیا وہ بھی نہایت سبق آموز ہے۔ جنگ احد میں جو مسلمان شہید ہوئے تھے ، دشمنوں نے ان کی ناک کاٹ کر ان کے ہار بنائے اور گلوں میں پہنے ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چیر کر ان کا کلیجہ نکالا گیا اور اسے چبانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت مسلمانوں کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا مگر حضور نے فرمایا کہ تم غنیم کے مقتولوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرنا اسی سے انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دین فی الحقیقت خداوند عالم ہی کو بھیجا ہوا دین ہے۔ اس میں انسانی جذبات کااگر دخل ہوتا تو جنگ احد میں یہ منظر دیکھ کر حکم دیا جاتا کہ تم بھی غنیم کے مقتولوں کا اسی طرح مثلہ کرو۔ حتیٰ کہ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں اگر کوئی لاش دوران جنگ مسلمانوں کے قبضہ میں آجائے تو اس لاش کو غیر مسلموں کو واپس کرنا مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے۔ جنگ احزاب میں دشمن کا ایک بڑا مشہور شہسوار مرکر خندق میں گر گیا ۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دس ہزار دینار پیش کیے کہ اس کی لاش ہمیں دے دیجئے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں مردے بیچنے والا نہیں ہوں۔ تم لے جاؤ اپنی لاش۔
بد عہدی کی سخت ممانعت : اسلام میں بد عہدی کی بھی سختی سے ممانعت کردی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوجوں کو بھجتے وقت جو ہدایات دیتے تھے ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ لا تغدروا ( مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن عباس ) (یعنی ) ‘‘بد عہدی نہ کرنا’’ قرآن مجید اور احادیث میں اس حکم کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے کہ دشمن اگر عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرتاہے تو کرے۔ لیکن تم کو اپنے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کبھی نہ کرنا چاہیے ۔صلح حدیبیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ صلح نامہ طے ہوجانے کے بعد ایک مسلمان نوجوان ابو جندل رضی اللہ عنہ جن کا باپ صلح نامے کی شرائط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طے کررہا تھا بیڑیوں میں بھاگتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا ، مسلمانو! مجھے بچاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب معاہدہ ہوچکا ہے ۔ اب ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ تم واپس جاؤ۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راستہ کھولے گا۔ ( سیرت النبی ، ج:1،) ان کی حالت زار کو دیکھ کر مسلمانوں کی پوری فوج رو پڑی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمادیا کہ عہد کی خلاف ورزی ہم نہیں کرسکتے تو ان کو بچانے کے لیے ایک ہاتھ بھی آگے نہ بڑھا اور کفار ان کو زبرستی گھسیٹ کر لے گئے۔ یہ عہد و پیمان کی پابندی کی بے نظیر مثال ہے اور اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔
جنگ سے پہلے اعلان جنگ کا حکم: قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانۃ فَانبِذْ إِلَيھمْ عَلَی سَوَاءٍ ( انفال ۔ 58)‘‘ اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت (یعنی عہد شکنی ) کا خطرہ ہوتو اس کا عہد اعلانیہ اس کے منہ پر مار دو’’ افسوس کہ اس صریح منصفانہ او رمعقول کردہ ہے، ہم پامال ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تفتیش کے نام پر ایک شخص کی جگہ دوسرے کو سزا دینے کا ارتکاب نہ صرف ہماری پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں بلکہ یہی ظلم ہمارے قبائلی اور جاگیر دارانہ نظام میں صدیوں سےجاری ہے۔ ایک شخص کے جرم کے بدلے میں اس کی بیٹی یا بہن کو دشمن کے نکاح میں زبردستی دے دینا ظلم کے علاوہ اور کیا ہے۔ ایک شخص کے مفروضہ جرم کے بدلے اس کی بہن کی عصمت دری کرنے کو کون اسلام اور انسانیت کے مطابق قرار دے سکتا ہے۔
ہزار ہا افسوس کہ معاشرے میں موجود ایسے ظلم کےخلاف ‘‘نہی عن المنکر’’ کافریضہ انجام دینے والے وہی لوگ ہیں جو عرف عام میں ‘‘سیکولر’’ کہلاتے ہیں ۔ اس ظلم کے خلاف ‘‘مذہبی’’ آوازیں بہت ہی کم ہیں۔ یہی مذہبی اور اخلاقی انحطاط کی نشانی نہیں ہے؟ انسانیت کے جو مجاہدین ایسے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ، انہیں یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ اپنے معاشرے کی اخلاقی با ختگی کے جواز میں مغربی معاشروں کے ظلم اور اخلاقی با ختگی کو پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ہم اپنے دین پر عمل کے مکلّف ہیں نہ کہ اہل مغرب کی پیروی کے ۔ ہمیں دوسروں کو کچھ کہنے سے پہلے اپنے گریباں میں دیکھنا ہوگا ورنہ ہم اللہ کی بارگاہ میں ‘‘مجاہد’’ نہیں ‘‘مجرم’’ کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔
قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق: اسلام اپنی مملکت کے تمام شہریوں کو قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق دیتا ہے ۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو قرآن اور حدیث میں یہ صاف و ضاحت ہے کہ اپنے حقوق و واجبات میں وہ سب برابر ہیں۔إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةً (الحجرات:49:10) ‘‘مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں’’ ۔ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةً وَآتَوُا الزَّكَاةً فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّين (التوبہ:11) اگر (غیر مسلم) کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المسلمون تتکافاء دماؤ ھم (سنن ابی داؤد باب فی السریہ)‘‘ مسلمانوں کے خون برابر کی قدر وقیمت رکھتے ہیں ۔ ‘‘ دوسری حدیث میں ہے ذمۃ المسلمین واحدۃ مسعی بھااد ناھم ( ابی داؤد ) ‘‘ سب مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، ان کا ایک ادنیٰ شخص بھی کسی کو پناہ ، یا امان دے سکتا ہے ۔ حقوق و فرائض کی یکسانی اسلامی معاشرے میں مساوات کی بنیاد ہے اور اس میں کسی کے حقوق و فرائض کسی دوسرے کے حقوق و فرائض سے کسی معنی میں بھی کم یا زیادہ نہیں ہیں۔ رہے اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری ، تو ان کے بارے میں اسلامی شریعت کا قاعدہ خلیفہ بر حق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ‘‘ انہوں نے ہمار ا ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے خون ہمارےخون کی طرح او رہمارے جان و مال کی طرح ہوجائیں لتکون اموالھم کا موالٰنا و دماء ھم کدماء نا بالفاظ دیگر ان کے جان و مال کی حرمت بھی اسلامی مملکت میں ویسی ہی ہے جیسی مسلمان کی جان و مال کی حرمت ہے۔ قرآن مجید باشندوں کو الگ الگ طبقوں میں بانٹ دیا تھا اور یستضعف طائفہ منھم ‘‘ وہ ان میں سے ایک گروہ کو دبا کر رکھتا تھا ’’ ۔ہمارے ہاں بعض امتیازی قوانین اور نظریات موجودہ ہیں اگر چہ انہیں امت مسلمہ میں عام پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مصلحین اور اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ حد تک ان امتیاز کے خاتمے کی جد وجہد کریں اور قانونی اور معاشرتی سطح پر انسان کی مساوات اور برابری کی روایت کو فروغ دیں۔
30 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/security-non-muslims-islamic-state-4/d/11061