ظفر آغا
9 اکتوبر، 2014
یہ تو رہا ہندو سماج کا حال کہ جس میں ایک ہندو فرد اور اس کے بھگوان کے درمیان ایک ‘‘مڈل مین’’ لازمی تھا ۔ یہی حال مسیحی مذہب کا تھا اور آج بھی پوری طرح چرچ کے قبضے میں ہے۔ ہر بات چرچ اور ‘‘فادر’’ یعنی مسیحی راہب طے کرے گا۔ یہی صورت حال بدھ مذہب کی تھی جس میں اس کے بانی گوتم بدھ نے تو کسی بھی قسم کے رب سے انکا ر کرکے ہر قسم کے پنڈت اور مذہبی ‘‘ مڈل مین’’ کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی ۔گوتم بدھ کے بعد جب اس کا نظریہ ایک مذہب کی شکل اختیار کر گیا تو اس میں بھی بدھ مذہب کے ماننے والوں کے تمام مذہبی اختیارات بدھ راہب کے ہاتھوں میں چلے گئے جو آج بھی اسی طرح برقرار ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی جو طرح طرح کے عقائد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل پائے جاتے تھے ان میں بھی کم و بیش یہی صورت حال تھی ۔
لب لباب یہ کہ جب عرب کے میدانوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی صدا بلند کی تو اس وقت انسانیت کو روحانی یا مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں تھی ۔ بندے کے عقیدے کے درمیان ایک درمیانی شخص (Middle Man) تھا جو بندے کے روحانی اور عقائد کے معاملات پر قادر تھا۔ اس کےبرخلاف رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے رب کا تصور پیش کیا جو نہ صرف رب العالمین ہے بلکہ قادر مطلق بھی ۔ اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ اپنے ماننے والوں کے لئے حق و باطل اور اچھے برے معاملات طے کردیئے اور بندے کو یہ آزادی و اختیار دے دیا کہ وہ اپنے اعمال خود طے کرے جس کی بنا پر کسی کی مداخلت یا سفارش کے بغیر روز قیامت بندے کی جزاو سزا اس کا رب طے کرے گا جو اس کے رب کا ابدی فیصلہ ہوگا۔
یعنی عقیدے کے اعتبار سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا اسلام وہ پہلا نظام تھا، جس نے انسانیت کو روحانی اور عقائد کے معاملات میں پوری طرح ہر قسم کے درمیانی شخص (Middle Man) نے آزادی دلا کر اس کو پوری طرح آزادی عطا کردی۔ مذہبی اور روحانی اعتبار سے یہ ایسی آزادی تھی جس کا تصور بھی انسان نے اسلام سے قبل نہیں کیا تھا ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کا پیغام پیش کیا تو جس جس نے بھی یہ پیغام قبول کیا وہ پوری طرح ہر قسم کے برہمن ، چرچ یا راہب کے چنگل سے آزاد ہوگیا ۔ یہی سبب ہے کہ سو سال کے اندر اسلام کا پرچم عرب کے ریگزاروں سے لے کر یورپ ، ایشیاء اور افریقہ کی وادیوں تک لہرا گیا ، ذاتی سطح پر اسلام نے انسان کو وہ آزادی عطا کردی تھی جو اس سے قبل انسان کے تصور میں بھی نہ تھی۔ وہ بنیادی اسلام آج کے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں قید ‘‘ اسلام’’ سے ہر معنی میں اس لئے مختلف ہے کہ اس اسلام میں مسلمان ایک ایسے خلیفہ کا غلام ہو جاتاہے جو خود کو آدمی اور اللہ کے مابین مڈل مین بنا لیتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ حالات میں اسلام کی وہ تصور پیش کی جائے جو انسان کو عقائد کے اعتبار سے روحانی معاملات میں وہی آزادی عطا کرے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں عطا کی تھی تاکہ مغرب داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی غلطیوں کے سبب اسلام کو دہشت گرد کا جو جامہ پہنا رہا ہے وہ اس میں ناکام ہو لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلامی معاشرہ خود اپنے سماج شریعت کے نام پر پیدا ہونے والے اس درمیانے طبقے کو ختم کرے جو خود کو عالم کہہ کر اسلام پر ویسے ہی قابض ہوگیا ہے، جیسے ہندو برہمن ہندو عقیدے پر قابض ہے۔
9 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ وقت ، پاکستان
https://newageislam.com/urdu-section/the-right-message-islam-part-2/d/99447