ظفر آغا
6 اکتوبر، 2014
ساری دنیا میں ان دنوں محض ایک ہی مسئلہ زیر بحث ہے اور وہ ہے داعش کے بڑھتے ہوئے قدم ۔ مغرب کو اب یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ امریکہ پر القاعدہ کے حملے کی طرح داعش بھی کہیں مغرب کے کسی حصے پر حملہ نہ کردے۔ اس خوف کے سبب مغرب میں اسلام اور مسلمان دونوں میں زبردست دلچسپی پیدا ہوگئی ۔ آخر اصل اسلام کیا ہے؟ کیا اسلامی عقیدہ واقعی دہشت گردی پر مبنی ہے؟ جہاد کیا ہے؟ مسلمان جہاد کے نام پر خود اپنی جان دینے کو کیوں تیار ہوجاتے ہیں؟ اسی طرح کے درجنوں سوالات مغرب میں ان دنوں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے زیر بحث ہیں ۔ اس تناظر میں یہ لازمی ہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ ساری دنیا کے سامنے ایک بار پھر سے اسلام کا اصل چہرہ پیش کیا جائے تاکہ دنیا کو اسلام کے تعلق سے جو طرح طرح کے شکوک و شبہات ہیں وہ ختم ہوجائیں اور اسلام کا صحیح پیغام ایک بار پھر سے دنیا تک پہنچ سکے ۔
راقم الحروف اس مختصر مضمون میں اصل اسلام کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی جرأت کررہا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ ایک ادنیٰ سا قدم ہے۔ یوں تو میں کوئی عالم دین نہیں لیکن اب تک کے مطالعہ سے میری سمجھ میں اسلام اور اسلامی پیغام جس حد تک آیا ہے اس سے اسلام کے دو بنیادی پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ اسلام خود اپنے کو ایک جامع ابدی پیغام ہی نہیں بلکہ ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کرتاہے ۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی نظام کے دو پہلو ہونے چاہئیں ۔ اولاً کسی بھی ۔نظام کا ایک ذاتی پہلو ہوتا ہے جو اس فرد سے تعلق رکھتا ہوتا ہے جو اس نظام میں یقین رکھتا ہو اور اس کا دوسرا پہلو سماجی پہلو ہوتا ہے جو اس کو سماجی حیثیت دے کر اس نظام کو ایک مجموعی شکل دیتا ہے ۔ اسلام کے ذاتی پہلو کا جہاں تک تعلق ہے وہ اللہ اور اسلام میں یقین رکھنے والے فرد کا درمیانی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو پر نگاہ ڈالی جائے تو اسلام قبول کرنے والے کو ایک ایسے معبود کو قبول کرنا ہوگا جو لا شریک ہے اور ہر شے پر قادر ہے۔ جب کوئی فرد اس عقیدے کو قبول کرلے گا تو اب وہ مسلمان ہے۔ اب اللہ نے ایمان لانے والے کے لئے قرآن حکیم اور اپنے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمام اعمال طے کردیئے ۔ یہ بتادیا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل؟ اب مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ حق و جائز اعمال بجا لائے۔ وہ کیا اعمال بجا لاتا ہے یہ مکمل طور پر اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کامعاملہ ہے کیونکہ اللہ اور صرف اللہ ہی روز قیامت بندے کے اعمال کی جزاء اور سزاء کا فیصلہ کرے گا۔ بروز قیامت محض پروردگار بندے کے اعمال کی بنا پر اس کی ابدی حیات طے کرے گا۔
یہ ہے اسلام کے ذاتی پہلو کا نچوڑ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج تھا ۔ اگر عالمی سطح پر اس دور کی انسانیت اور سماج پر نگاہ ڈالئے کہ جس دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام اسلام کی اشاعت کی تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اسلام کے آغاز میں دنیا میں جو بھی عقائد تھے کم و بیش وہ تمام عقائد درمیانی شخص یعنی ‘‘ مڈل مین’’کے فیصلے میں تھے ۔ وہ دور کیا آج کے بھی ہندو سماج پر نگاہ ڈالیں تو ہندو عقیدہ پوری طرح ایک برہمن کے قبضے میں ہے جو ہندو فرد کے ہر مذہبی عمل پر پوری طرح قادر تھا ۔ وہ پوجا پاٹھ ہو یا کوئی اور دوسرا سماجی عمل ایک ہندو شخص برہمن کے بغیر اپنے مذہب کا تصور ہی نہیں کر سکتا تھا ۔ یعنی ہندو بھگوان اور ہندو فرد کے درمیان کوئی سیدھا رشتہ ہو نہیں سکتا تھا ۔ حد یہ ہے کہ وہ برہمن مذہبی معاملات میں اس حد تک خود مختار اور طاقتور ہوتا تھا کہ وہ یہ بھی طے کرتا تھا کہ کون شخص مندر میں جاسکتا ہے اور کون نہیں ۔ مثلاً اچھوت (دلت) یا زیادہ تر پچھڑی ذاتوں کے ہندوؤں کو مندر میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی جو رسم آج بھی رائج ہے۔ (جاری ہے)
6 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ وقت، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-right-message-islam-part-1/d/99431