New Age Islam
Mon Jul 14 2025, 11:21 PM

Urdu Section ( 27 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

This Has Been the Year of the Journalistic Books صحافتی کتب کا سال رہا سالِ رواں

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

25 دسمبر،2022

اردو صحافت کا صدی سال ختم ہوا چاہتا ہے۔ سال رواں میں محبان اردو نے ملک بھر میں صحافت کا جشن منایا ۔ اس کے درخشاں پہلوؤں پر گفتگو ہوئی او رنئے گوشے سامنے آئے۔ اس سلسلہ میں ، بنگال اردو اکیڈمی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد نے قابل ذکر کام کیا۔ اکیڈمی نے ریاست میں ضلعی سطح کے سیمینار ، مشاعرہ اور کانفرنس کے ذریعہ عام لوگوں کو جشن میں شامل کیا۔ اس کی اختتامی تقریب کلکتہ میں منعقد کی گئی۔ جی ہاں اسی کلکتہ میں جسے اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما، کے اجراء کا شرف حاصل ہے۔اردو صحافت کے دوسو سالہ جشن کی اس کانفرنس میں ملک بھر سے اردو کے معمر و نوجوان صحافیوں سے بنے سیاستدانوں ، صحافت پڑھانے والے اساتذہ اور صحافت میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

جب بات کتابوں کی آہی گئی تو یہ بھی جان لیجئے کہ صحافت پر اس سال سب سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ مشہور صحافی، کالم نگار اور وائس آف امریکہ کے بھارت میں نمائندے سہیل انجم کی تین اہم کتابیں جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، مقالات ابن احمد نقوی اور دینی مدارس کی صحافتی خدمات شائع ہوئی ہیں۔ ویسے سہیل انجم کی صحافت پر دو درجن سے زیادہ کتابیں اہل علم سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ ویسے سہیل انجم نے ‘ جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز’ کتاب میں لکھنؤ سے جاری ہونے والے اخبار روز نامہ قومی آواز کی تاریخ مرتب کی ہے۔ قومی آواز جواہر لال نہرو نے دسمبر 1945 ء میں کانگریس پارٹی کے ترجمان کے طور پر جاری کیا تھا۔ حیات اللہ انصاری اس کے بانی ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے۔ بعد میں دہلی ، پٹنہ، ممبئی اور سرینگر سے بھی اس کے ایڈیشن شائع ہوئے۔ مصنف نے اس کتاب میں سبھی کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ چونکہ وہ دہلی ایڈیشن کے شعبۂ ادارت سے تیرہ سال وابستہ رہے ہیں لہٰذا انہوں نے پہلے باب کے تحت قومی آواز دہلی ایڈیشن کی یادوں کی تفصیل سے تحریر کیا ہے۔ دوسرا باب لکھنؤ ایڈیشن پر مشتمل ہے۔ تیسرے میں ممبئی ،پٹنہ اور سرینگر کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھا باب قومی آواز کے مدیر و صحافیوں کے لئے وقف ہے۔ کتاب ایسے دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی ہے کہ ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد بیچ میں چھوڑ نے کو دل نہیں چاہتا ۔ اسے پڑھ کر نصف صدی کے دوران صحافت میں ہوئے تجربات اور زبان میں آئی تبدیلیوں کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ ساتھ ہی روز نامہ قومی آواز کی تاریخ سے آشنائی ہوتی ہے۔

سہیل انجم کی دوسری کتاب مقالات ابن احمد نقوی اپنے عہد کے ایک ممتاز قلمکار ، مصنف اور شاعر ابن احمد نقوی کے مضامین کا انتخاب ہے۔ یہ 80 اور 90 کی دہائی میں مرکز ابوالکلام آزاد اسلامک اویکٹنگ سینٹر جوگابائی نئی دہلی سے شائع ہونے والے موقر رسالے ‘التوعیہ’ میں او رکچھ مضامین دوسرے رسائل میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سہیل انجم نے ماہنامہ آجکل سائز کے تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل مضامین میں سے ایسے مضامین کا انتخاب کیا ہے جو آج بھی اہم ہیں۔ ان مضامین سے آزادی کے بعد سے آج تک کے بھارتی مسلمانوں ملکی سیاست اور غیر ملکی حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے۔ تیسری کتاب دینی رسائل کی صحافتی خدمات کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ اس میں موصوف نے ہندوستان کے دینی مدارس او رمسلم تنظیموں سے شائع ہونے والے مسلکی و مذہبی رسائل کی صحافت کا جائزہ لیا ہے۔ اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور اکیلی کتاب ہے۔ اس میں ملک بھر سے شائع ہونے والے اردو کے مذہبی رسائل و جرائد کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے او ریہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو صحافت کے فروغ میں ان رسائل کی خدمات کیا ہیں۔ اس میں ملک کے چاروں بڑے مسالک دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی اور شیعہ کے مجلّات کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا گیا ہے۔ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ ان کے محاسن او رمعائب بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مذہبی صحافت کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی مذہبی و مسلکی صحافت کے آغاز او راس کے اسباب کابھی جائزہ لیا گیا ہے۔

اس سال کی ایک او راہم کتاب ‘مغربی بنگال اور اردو صحافت’ ہے۔ جسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اختر نے کئی سال کی تحقیق و جستجو او رکئی سال کی محنت کے بعد تیار کیا ہے۔ یہ کتاب بنگال اردو اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔ اخبار و رسائل کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ کچھ ا س طرح ہیں سیاسی اخبارات ، ادبی رسائل ،مذہبی رسائل و اخبارات ،بچوں کے رسائل، طبی رسائل ، سماجی اصلاحی ترقیاتی رسائل، صنعتی وکاروباری رسائل، اسپورٹ اور فلمی رسائل۔بیس صفحات پر مشتمل مقدمہ میں بنگال کی اردو صحافت کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر شکیل اختر نے ہر اخبار اور رسالہ تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب میں یہ بھی درج کردیا ہے کہ اس اخبار یا رسالے کی فائل کہاں دستیاب ہے۔ اگر کوئی اخبار یا رسالہ ان کی دسترس سے دور رہا تو اس کی تفصیلات کہاں سے لی گئی ہیں اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یقینا بنگال کی صحافت پر یہ ایک لاجواب کام ہے۔

روزنامہ انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر محمد یامین انصاری نے بھی اپنی صدائے دل اسی سال سنائی ہے۔ ان کی صدائے دل سننے والے کا دل فرحت و انبساط سے معمور ہوجاتاہے۔ مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین کے انتخاب پر مشتمل کتاب کا نام ہے‘ صدائے دل ہے’ ۔ جس کے مضامین کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے صرف صحافت پر اظہار خیال نہیں کیا بلکہ میڈیا کی موجودہ روش کو بھی اپنی تحریر کے دائرے میں رکھا ۔ اگر آپ ان کے مضامین پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کے امتیازی پہلو، میڈیا کی غیر جانبداری اور اس کی معتبریت ، چینلوں نے تو صحافت کی کنٹرول لائن ہی اڑا دی ، سوشل میڈیا پر ہم کتنے سوشل ہیں او رجمہوریت کے چوتھے ستون میں دراڑ کامطالعہ کریں تو دو باتیں واضح طور پر نظر آئیں گی ایک یہ کہ مصنف کی نظر جتنی پرنٹ میڈیا پر ہے اتنی ہی گہری الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی ہے۔

ماس میڈیا اور صحافت‘ کتاب روز نامہ انقلاب نارتھ انڈیا کے سابق ایڈیٹر شکیل حسن شمسی نے لکھی ہے۔ اس میں پرنٹ ،نیوز ریل ، ریڈیو ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ہونے والی صحافت کی تاریخ اورتعریف بیان کی گئی ہے۔ کتاب میں یہ بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ مختلف ذرائع ابلاغ کے درمیان کیا کیا فرق ہے۔ اخباروں اورچینلوں پر کون کون سے شعبے ہوتے ہیں۔ جو نوجوان کسی میڈیا سے جڑنا چاہتے ہیں ان کو کس کس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ صحافت کامستقبل کیا ہے اور کس قسم کی صحافت میں ترقی کے زیادہ مواقع ہیں اس پر بھی بات کی گئی ہے۔اس سلسلے کی آخری کتاب نام کتاب ‘ کارپوریٹ میڈیا۔ ایک جائزہ’ ہے۔ یہ اشرف علی بستوی کے ذریعہ سہ روزہ دعوت میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب پچھلے ایک دہائی کا قومی و بین الاقوامی میڈیا کے غیر دیانت دارانہ رویہ کا دستاویز ہے۔ اس میں اطلاعاتی حسرت اور ابلاغی غربت کا شکار ملت اسلامیہ ہند کو میڈیا کی اہمیت و افادیت کا حقیقی ادراک کرانے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں میڈیا کی زیادتیوں پر معاشرے کا رویہ کیا رہا خصوصاًمسلم معاشرے کا کتاب میں اس پہلو کو بھی سامنے لا دیا گیا ہے۔ کارپورٹ میڈیا کے مضراثرات انسانی معاشرے پر کس کس طرح پڑرہے ہیں اسے بھی بتایا گیا ہے۔ میڈیا کی اسی طاقت کو بتاتے ہوئے جم موریسن ، کہتا ہے کہ ‘ جو میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے ذہنوں پر اسی کا راج ہوتا ہے’۔

25دسمبر،2022 ،بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/year-journalistic-books/d/128722

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..