یاسر پیر زادہ
14، مئی، 2014
افریقہ کا ایک ملک ہے ،نام ہے نائیجیریا ،آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جس کی آبادی سترہ کروڑ ہے جن میں سے تقریباً آدھے مسلمان اور باقی مسیحی ہیں، 1960میں انگریزوں سے آزادی کے بعد اس ملک میں خانہ جنگی رہی ،اس دوران مختلف مواقع پر فوجی مداخلت ہوئی اور زیادہ تر عرصے میں فوج نے ہی اقتدار پر قبضہ کئے رکھا،تاہم 1999کے بعد سے یہاں ٹوٹی پھوٹی جمہوریت قائم ہے،انتخابات کے نتیجے میں عوامی نمائندوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے مگر ان انتخابات کو کلی طور پر صاف اور شفاف نہیں مانا گیا ۔نائیجیریا، افریقہ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے جس کی وجہ سے اس کا جی ڈی پی لگ بھگ پانچ سو ارب ڈالر ہے ،امید کی جاتی ہے کہ 2050تک نائیجیریا کی معیشت کا شمار دنیا کے پہلے بیس ممالک میں ہوگا ‘نائیجیرین اسٹاک ایکسچینج افریقہ کا دوسرا بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے جبکہ نائیجیریا کی ٹیلی کمیو نی کیشن مارکیٹ دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹس میں سے ایک ہے ۔نائیجیریا میں میڈیا کا پھیلائو خاصا وسیع ہے ،ملک میں سینکڑوں ٹی وی اور ریڈیو چینلز ہیں تاہم غیرملکی ریڈیو کی نشریات پر پابندی ہے ، شہروں میں زیادہ تر نجی ٹی وی چینلز ہی دیکھے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ ملک میں سو سے زائد قومی اور علاقائی اخبارات اور جرائد ہیں۔ نائیجیریا دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
2002ء میں نائیجیریا میں ’’بوکو حرام‘‘ نامی تنظیم وجود میں آئی ،اس کی بنیاد محمد یوسف نامی شخص نے ایک مسجد اوراس سے متصل مدرسے میں رکھی، اندرون و بیرون ملک سے بیشمار غریب خاندانوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسے میں مذہبی تعلیم کی غرض سے بھیجا تاہم بہت جلد اس تنظیم کے سیاسی عزائم واضح ہو گئے ، اس تنظیم نے ہر قسم کی مغربی تعلیم کو حرام قرار دیا ،اس کے نزدیک پینٹ شرٹ پہننا یا انتخابات میں ووٹ ڈالنا حرام بھی ہے، یہ تنظیم نائیجیریا میں ’’شریعت ‘‘ کا نفاذ چاہتی ہے، اس کے نزدیک ملک میں کافرانہ حکومت قائم ہے ۔2009ء میں اس تنظیم نے پُرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا اور مختلف ملکی اور غیر ملکی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کو قتل کیا جس نے ان پر تنقید کی، ان میں پولیس اہلکاروں سے لے کر سیاست دانوں تک اور مخالف مسلک کے علما سے لے کر مسیحی مبلغ تک سب شامل ہیں ،اس کے علاوہ یہ تنظیم گرجا گھروں ،بسوں ،شراب خانوں، فوجی تنصیبات اور پولیس اور اقوام متحدہ کے صدر دفاتر پر بھی بم دھماکے کر چکی ہے، اس مسلح بغاوت کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔2009ء میں نائیجیرین پولیس نے محمد یوسف کو ہلاک کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ بوکو حرام کوختم کر دیا گیا ہے مگریہ بات سچ ثابت نہ ہوئی ،بہت جلد تنظیم کی باگ ڈورابوبکر شیکائو نامی شخص نے سنبھال کی اور تب سے اس تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ حا ل ہی میں اس تنظیم نے ایک اسکول پر دھاوا بول کر دو سوسے زائد لڑکیوں کو اغوا کرلیا، ان کے نزدیک یہ لڑکیاں ’’مال غنیمت‘‘ میں ہاتھ آئیں۔
پاکستان اور نائیجیریا میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ پاکستان کی آبادی بھی اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے،آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں، ہمارے ہاں بھی فوجی حکومتیں تیس برس سے زائد عرصے تک قائم رہیں ،ہماری معیشت بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی ہے،ہماری ٹیلی کمیونی کیشن مارکیٹ بھی دنیا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی مارکیٹس میں سے ایک ہے ،ہم بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہیں ،ہمارا میڈیا جنوبی ایشیا کا سب سے دبنگ میڈیا ہے اور ہم بھی پولیو پھیلانے میں نائیجیریا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ تاہم ان تمام باتوں کے علاوہ سب سے اہم بات جو نائیجیریا اور پاکستان میں مشترک ہے وہ ریاست کے وجود کو درپیش خطرہ ہے جس سے دونوں ممالک نمٹنے کی نیم دلانہ کوششیں کر رہے ہیں ،چرچ پر حملہ ہو یا مسجد پر ،فوجی کو نشانہ بنایا جائے یا سیاست دان کو،مخالف فقہ کے عالم کا قتل ہو یا غیر مسلم کا،دونوں ممالک میں یہ خبریں معمول کا حصہ ہیں ۔ملک کے شمالی خطے سے تشدد کی جو خبر دیگر حصوں تک پہنچتی ہے ا سے یوں سمجھا جاتا ہے جیسے وہ کسی دور افتادہ جگہ سے آئی ہو جس کا اسلام آباد یا ابوجا (نائیجیریا کا دارالحکومت) کے شہریوں کی پر آسائش زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ،دونوں ملکوں کے عوام تشدد کے ہر نئے واقعے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کئے جا رہے ہیں اور حکومتیں business as usualکی منہ بولتی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔ نائیجیریا کے جن شمالی حصوں میں بوکو حرام کا اثر و رسوخ ہے، ا ن میں وفاق مخالف حکومت قائم ہے جس کی وجہ سے دونوں حکومتوں میں اعتماد کا شدید فقدان ہے، بالکل اسی طرح جیسے اپنے یہاں کے پی کے اور فاٹا میں طالبان کا اثر ہے اور وفاق اور کے پی کے میں ایک دوسرے کے مخالف حکومتیں قائم ہیں ۔شروع شروع میں نائیجیریا میں اغوا ہونے والی لڑکیوں کو بھی روز مرہ کی دہشت گرد کارروائی سمجھ کر ’’نظر انداز‘‘ کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں جب بین الاقوامی میڈیا میں یہ خبرپہنچی تو تہلکہ مچ گیا بالکل اسی طرح جیسے ملالہ یوسفزئی کو گولی لگنے والی خبر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
نائیجیریا اور پاکستان میں جاری مسلح بغاوت کے تقابل سے تین دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں ۔پہلی ،کسی بھی عسکری تنظیم کو دہشت گردی کا جواز فراہم کرنا اسے طاقتور کرنے کے مترادف ہے ۔نائیجیریا میں کوئی امریکی ڈرون حملے ہوئے اور نہ ہی نائیجیریا نے کسی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر مسلمان ملک کے خلاف مدد فراہم کی، اس کے باوجود وہاں بوکو حرام جیسی تنظیم وجود میں آگئی۔ اپنے یہاں ہم نے دہشت گرد تنظیموں کو ان کا وجود قائم رکھنے کے لئے ڈرون حملوں اور امریکہ کی جنگ جیسے جواز تراش رکھے ہیں جو ان تنظیموں کے بازو مضبوط کرنے کے برابر ہے۔دوسری ،ہمارے ہاں جو دانشور ہمہ وقت مذہب کا جھنڈابلند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں انہیں کبھی یہ توفیق نہیں ہوتی ۔
ایسے کسی معاملے میں بوکو حرام جیسی تنظیموں کی مذمت ہی کر ڈالیں جو پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں ،ان نام نہاد دانشوروں کے نزدیک پاکستانی اور مغربی میڈیا دونوں ہی بکائو ہیں، حالانکہ پاکستانی میڈیا نے اس معاملے کو کوریج ہی نہیں دی جبکہ مغربی میڈیا کی وجہ سے ہی یہ معاملہ عالمی سطح پر اجاگر ہوا، اب کسے الزام دیں !یہ وہی دانشور ہیں جو ملالہ کو گولی لگنے پر بغلیں بجانے لگتے ہیں،راشد رحمان کے قتل پر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور بوکو حرام کے ہاتھوں معصوم لڑکیوں کے اغوا پر ان کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔تیسری اور سب سے خطرناک بات یہ کہ پاکستان اور نائیجیریا کے عوام اور خواص کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ انہیں کس قسم کے خطرے کا سامنا ہے ،ان کے تئیں یہ بغاوت ویسی ہی ہے جیسے کوئی علیحدگی پسند تحریک جسے مذاکرات کے ذریعے سے رام کیا جا سکتا ہے ،دنیا میں پاکستان اور نائیجیریا کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ملک ہو جہاں ایسی مسلح تحریک برپا ہو جو بزور بندوق اپنا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتی ہو اور اس ملک کا ایک طبقہ اس کے دفاع پر کمر بستہ ہو ۔پوری دنیا یک زبان ہو کر بوکو حرام کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے ،اور ہم ہیں کہ شدت پسندوں کو جواز فراہم کرنے میں لگے ہیں ،ان حالات میں امن کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔
14 مئی، 2014 بشکریہ: روز نامہ جنگ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/boko-haram-rest-halal-/d/77033