وسعت اللہ خان
10 جنوری، 2015
کوئی بھی عقیدہ ہو اس کا اپنا الو ہی و مادی نظام حقائق و دلائل ہوتا ہے اور یہ نظام غیر مشروط قبولیت کا مطالبہ کرتاہے ۔ جب کہ سائنس کا علم خالصتاً مادی بنیاد پر حقائق کی جستجو کا نام ہے ۔ اسی لیے اپنی جگہ پر قائم عقائد کے برعکس سائنس ہمیشہ رد و قبول کی گردشی کسوٹی پر چڑھی رہتی ہے۔ عقیدے میں سوال کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے جب کہ سائنس کی تو غذا ہی ہر آن سوال اٹھانا ہے ۔ لہٰذا جب کوئی الو ہی عقیدے کو مادی سائنس سے خلط ملط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنم لینے والے کنفیوژن کا حتمی نقصان بالآخر عقیدے اور سائنس کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں مجھ جیسے نا سمجھوں کے لیے یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہے کہ انسان تو ہندو، یہودی، عیسائی اور مسلمان ہوسکتاہے ۔ سائنس ہندو، یہودی، عیسائی او رمسلمان کیسے ہوسکتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سائنسدان کے لیے لامذہب ہونا ضروری ہے۔ جابر بن حیان ، عمر خیام، ابن ال حیثم ، البیرونی ، ادریسی، نظام الملک طوسی اور ابن سینا جدید سائنس کے عظیم ستون بھی تھے اور نماز روزے اور دیگر عبادات کابھی اہتمام کرتے تھے۔ آریا بھٹ ، لگادھا ، بھاسکر، بدھیانہ ، اچاریہ چند استرا وغیرہ پر اچین ہندوستان میں علم فلکیات ، ریاضی ، لسانیات ، علم الابدان ، طب اور دھات سازی کی تحقیق میں جھنڈے بھی گاڑ رہے تھے اور مندر میں دیوتاؤں کے چرن بھی چھوتے تھے ۔ نیوٹن کشش ثقل پر بھی کام کررہا تھا مگر چرچ جانابھی نہیں بھولتا تھا ۔ آئن اسٹائن نے کبھی نہیں کہا کہ اس کا نظریہ اضافت تورات کی عظمت کا ثبوت ہے۔ ان سب عظیم سائنسدانوں نے عقیدے اور لیبارٹری کو دل میں ساتھ ساتھ اور دماغ میں الگ الگ رکھا۔
مگر جو کام کل تک نہیں ہوا وہ آج ہورہا ہے۔ جو بھارت مریخ پر خلائی جہاز بھیج رہا ہے اسی بھارت کا وزیر اعظم یہ بھی کہہ رہاہے کہ گنیش جی کے جسم پر ہاتھی کا سرثابت کرتا ہےکہ یہ کام ہزاروں برس پہلے کسی پلاسٹک سرجن نے کیا ہوگا۔ ریاست گجرات میں ماہر تعلیم جگدیش بتراجی کی جو کتابیں اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہیں ان میں بتایا جارہا ہے کہ مہا بھارت کے زمانے میں موٹر کار کیسے ایجاد ہوئی؟
گزشتہ ہفتے ہی ممبئی یونیورسٹی میں پانچ روزہ عالمی سائنس کانفرنس میں بھارت اور بیرونی دنیا کے لگ بھگ بارہ ہزار محقق اور سائنسدان شریک ہوئے۔ افتتاحی اجلاس میں مرکزی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہر ش وردھن نے شرکا کو اپنے گیا ن سے سمانت کرتےہوئے کہا کہ الجبرا کے ابتدائی اصول بھارت ورش میں مرتب ہوئے لیکن عربوں نے جب الجبرا پر دعویٰ بولا تو ہم چپ بیٹھے رہے۔ ریاضی کا فیثا غورث تھیوریم ہزاروں سال سے بھارت میں استعمال ہورہا ہے مگر اسے یونانیوں نےجانے کیوں اپنے نام سے مشہور کردیا۔
اسی کانفرنس میں ایک سیشن قدیم سنسکرتی سائنسی نظریات کےعنوان سے منعقد ہوا۔ پراچین ہندوستان میں ہوا بازی میں پائلٹ ٹریننگ اسکول کے سابق پرنسپل کیپٹن آنند بوڈرس نے اپنے مقالےمیں بتایا کہ مہارشی بھردواج نے سات ہزار سال پہلے لکھا ہے کہ بھارت میں 60 فٹ سے 200 فٹ تک چوڑے طیارے اڑتے تھے ۔ بڑے جہازوں میں 40 چھوٹے انجن نصب تھے ۔ یہ طیارے دوسرے دیشوں تک بھی اڑان بھرتے تھے اور ریڈار کے لیے قدیم سنسکرت میں رو پرکن رہسیا کا شبدھ تک موجود ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں امریکا کے بعد سب سے زیادہ سائنسدان بتائے جاتے ہیں۔ جہاں سائنسدانوں کی ایسوسی ایشن 102 برس سے قائم ہے اور لگ بھگ 30 ہزار سائنسی ماہر اس کے رکن ہیں اور جہاں 1912سے سالانہ قومی سائنس کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ یہ بات اب اس سے پہلے کیوں بھارتی سائنس فورم پر دھڑلے سےنہیں ہوئی کہ سات ہزار سال پہلے بھارت میں پلاسٹک سرجن بھی تھے ، موٹر کار بھی تھی ، جہاز بھی اڑ رہے تھے ۔ یہ سب نریندر مودی سرکار میں ہی کیوں سامنے آرہا ہے؟
چونکہ مودی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس اور آر ایس کی طفیلی تنظیمیں ہر شے ہندوئیت کےآئینے میں دیکھنے کی عادی ہیں لہٰذا وہ ہر شعبے کواپنے نظریے سےجوڑ کے دکھانے کے جنون میں مبتلا ہیں ۔ جہاں عقلی مباحثہ اس سطح پر آ جائے کہ بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان یوگی ادتیا ناتھ انکشاف کریں کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہندو ہوتاہے بعد میں اس کا دھرم زبردستی بدلوا دیا جاتاہے اور اس کے جواب میں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی یہ دعویٰ کریں کہ دراصل ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے ۔ ایک رکن پارلیمان یہ انکشاف کریں کہ راون دراصل دلی کے نزدیک غازی آباد میں پیدا ہوا اور ایک صاحب اٹھ کے کہیں کہ تاج محل ایک مندر کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور انڈین ہسٹری کمیشن کے موجودہ چئیر مین یہ فرمائیں کہ جو بھی ویدوں میں ہے وہ کوئی علامتی قصے نہیں بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی حقیقت میں ہوا بھی ہے۔ لہٰذا را مائن کے ہوتے ہمیں کسی اور کھوج اور تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ ایسے ماحول میں اگر 7 ہزار سال پہلے جہاز اڑایا جارہاہے تو حیرت کیوں؟ بھارت پر تو یہ وقت آج پڑا ہے۔ پاکستان تو اس مرحلے سے 36۔34 برس پہلے ہی گزر چکا ۔ پاکستان میں سائنس کانفرنسیں 1948 سے ہورہی ہیں۔ لیکن جس طرح کی تحقیق ضیا دور میں ہوئی نہ پہلے ہوئی نہ بعد میں ۔ اس دورِ تحقیق کو ماہر فزکس پرویز ہود بھائی سمیت بہت سے اصحاب سائنس نے سمیٹنے کی کوشش کی۔
مثلاً پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر بشیر الدین محمود نے 1980 میں یہ نظر یہ پیش کیا کہ چونکہ جنات آگ سےبنے ہیں لہٰذا انہیں قابو میں لاکر ان سے توانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔
جنرل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ان دی اسلامک ورلڈ میں ڈاکٹر صفدر جنگ راجپوت نے اپنے تحقیقی مقالے میں بتایا کہ جنات دراصل میتھین گیس سے بنتے ہیں ۔ میتھین نہ صرف بے ذائقہ و بے بو ہے بلکہ اس کے جلنے کے عمل میں دھواں بھی نہیں اٹھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ جنات و جود رکھتے ہوئےبھی عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنات سفید فارم ہوتے ہیں۔ ( اگرچہ دکھائی نہیں دیتے)۔
پاکستان ایسو سی ایشن آف سائنس اینڈ سائنٹفک پروفیشنلز نے جون 1986 میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر جو بین الا قوامی سیمینار کروایا میں پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ( پی سی ایس آئی آر) کے ایک سرکردہ ماہر ڈاکٹر ارشد علی بیگ نے اپنے تحقیقی مقالے میں معاشرے میں منافقت کی مقدار ناپنے کا فار مولا پیش کیا۔ آپ نے بتایا کہ ان کے تیار کردہ اسکیل کے مطابق مغربی معاشروں میں منافقت بائیس کے اسکیل پر ہے اور اگر انفرادی مطالعہ کیا جائے تو اسپین اور پر تگال وغیرہ میں سماجی منافقت چودہ اسکیل پر ہے۔ ڈاکٹر صاحب شائد وقت کی کمی کے سبب پاکستانی سماج کا منافقت اسکیل نہ بتاپائے۔
خلائی ریسرچ کے ادارے سپار کو کے چیئر مین ڈاکٹر سلیم محمود کے مقالے کاموضوع تھا ۔ آئین اسٹائن کانظریہ اضافت اور واقعہ معراج۔
اکتوبر 1987 میں جو اسلامک سائنس کانفرنس منعقد ہوئی اس میں 70 کے لگ بھگ مقالے پڑھے گئے۔ 66 لاکھ روپیے کا صرفہ حکومت سعودی عرب نے برداشت کیا۔ اس کانفرنس میں جرمنی سے تشریف لائے ایک ماہر ریاضی نے فرشتوں کی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم کرنے کا فارمولا پیش کیا ۔ جب کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے سابق چیئر مین ڈاکٹر ایم ایم قریشی نے وہ طریقہ بتایا جس کے ذریعے ایک نماز کا ثواب کیسے کیلکولیٹ کیا جاسکتا ہے۔
ضیا دور میں ہی طب یونانی طب اسلامی ہوئی اور اب یہی طب اسلامی ہے۔
ضیا کے بعد کی حکومتوں نے اس نوعیت کی تحقیق کی کما حقہ حوصلہ افزائی نہیں کی۔ چنانچہ اس کا فائدہ پڑوسی ملک نے یو ں اٹھایا کہ جو گران قدر کام پاکستان میں سائنس کمیونٹی نے 1988 میں چھوڑا تھا ۔ اسی کو 26 برس کے وقفے سے مودی حکومت کی سائنسی سوچ نے چند ہی ماہ میں اس قدر آگے بڑھا دیا کہ کون جانےمودی حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے تک وید اور رامائن کے بارے میں پتہ چلے کہ یہ تو دراصل دنیا کے اولین سائنس جرنلز ہیں۔
10 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ ایکسپریس ، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/science-reached-strange-heights-/d/100977