سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
2 اپریل 2024
تحریر عربی زبان کا لفظ
ہے جس کا معنی آزاد کرنا ہے۔ عام طور سے تحرہر سے مراد الفاظ کو کاغذ یا تختی پر
لکھ کر ان کی مدد سے ذہن میں موجود خیالات کا اظہارکرنا ہے۔
تحریر لکھنے والے کے
خیالات ، جذبات ، حالات ، تجربات ، ذہنی کیفیات اور مشاہدات کے اظہار کا وسیلہ
ہوتی یے۔
ہر تحرہر کے دو پہلو ہوتے
ہیں۔ ایک خارجی اور دوسرا داخلی۔خارجی پہلو تحریر کے مقصد سے تعلق رکھتا ہے اور
عام قاری تحریر کے ظاہری پہلو سے ہی سروکار رکھتا ہے۔ اس کو تحریر میں پیش کئے گئے
خیالات اور معلومات میں ہی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ انہی سے اثر اور علم حاصل کرتا ہے۔
بلکہ زیادہ تر قاری تحریر کے داخلی پہلو کے وجود سے ہی ناواقف ہوتے ہیں۔
تحریر کا داخلی پہلو
لکھنے والے کی نفسیات ، اس کی ذہنی صحت ،ذہنی رویوں حتی کہ اس کے اعصابی امراض تک
کی طرف اشارہ کریتا ہے۔
تحریر کے داخلی پہلو سے
یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ ادیب صحت مند دماغ کا مالک ہے یا کسی ذہنی مرض یا دماغی
خلل کا شکار ہے۔ الفاظ کا انتخاب ، جملوں کی ساخت ، زبان کے اصولوں کی پاسداری ،
ذخیرہء الفاظ وغیرہ لکھنے والے کی ذہنی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ صحت مند دماغ رکھنے
والے ادیبوں کی تحریروں کی زبان چست اور مربوط ہوتی ہے۔ان کی تحریروں میں الفاظ کا
مناسب استعمال، قواعد کی پابندی اور زبان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔نیز ان کی
تحریروں میں منطقی استدلال سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ کمزور زہن رکھنے والے ادیبوں
کی تحریر کی زبان ڈھیلی ڈھالی ، غیر مربوط اور غیر منطقی ہوتی ہے۔
تحرہر میں الفاظ و تراکیب
کا غیر مناسب اور غیر موزوں استعمال، جملوں کی ساخت میں ڈھیلا پن ،زبان کی غلطیاں
اورمتن تحریر میں منطقی استدلال کا فقدان محض لکھنے والے کی کم علمی کا نتیجہ نہیں
ہیں بلکہ ادیب کی ذہنی واعصابی بیماریوں کے آئینہ دار بھی ہیں۔
تحریر کی یہ داخلی
خرابیاں دراصل کچھ ادیبوں میں ڈیمینشیا نام کی اعصابی بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی
ہیں جس سے بہت سے ادیب واقف ہی نہیں ہوتے۔کچھ میں یہ بیماری نمایاں ہوتی ہے جبکہ
کچھ میں بہت خفیف ہوتی ہے اور ادیب اس سے واقف ہی نہیں ہوتا۔ڈیمینشیا بذات خود ایک
بیماری نہیں ہے بلکہ کئی اعصابی بیماریوں کا مجموعہ ہے جو عام طور سے 65 برس سے
زیادہ عمر کے افراد میں نمایاں طور پر ہوتا ہے لیکن اس کی کچھ اقسام جوان لوگوں کو
بھی متاثر کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ادیب کے شعور کے چار شعبے جیسے سمعی و بصری
تفاعل، منطقی استدلال ، حافظہ اور قوت ارتکاز متاثر ہوتے ہیں۔ انسانی شعور کے یہ
چار شعبے تحریر وتقریر میں ادیب کی مدد کرتے ہیں۔ڈیمینشیا میں دماغ کے مختلف شعبے
ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرپاتے کیونکہ ان میں ربط باہم کا فقدان ہوتا ہے اور ادیب
کو معلومات کو پروسس کرنے اور منطقی استدلال کے ساتھ مربوط شکل میں تحریر میں پیش
کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔نتیجے میں ایک کمزور اور غیر صحت مند تحریر وجود میں آتی
ہے۔نیز اس میں غیر منطقی باتیں راہ پا جاتی ہیں۔ ایسے ادیب اچھی اور پراثر تحریر
خلق نہیں کرسکتے۔
مخفی یا خفیف ذہنی اور
اعصابی بیماریوں کا اثر صرف ان ادیبوں کی تحرہروں پر ہی نہیں ہوتا بلک غیر صحت مند
، غیر مدلل اور لسانی خامیوں سے پر یہ تحریریں ان کی ذہنی واعصابی بیماریوں کی محض
نشانیاں یا سمپٹم ہیں۔ یہ ادیب منطقی استدلال کے فقدان ، سمعی و بصری عمل ، حافظہ
اور ارتکاز میں عدم ارتباط کی وجہ سے عملی زندگی میں بھی غیر معقول فیصلے لیتے ہیں
اور صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کرپاتے۔ اسی ذہنی خرابی کی وجہ سے ان کا سماجی
رویہ مشکوک ہوجاتا ہے۔وہ کسی مسئلے یا معاملے میں صحیح مؤقف اختیار نہیں کرتے اور
اکثر سماج میں غلط روایتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ایسے لوگ اکثر حق وصداقت کی حمایت نہ
کرکے باطل اور جھوٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس خرابی کا مایوس کن پہلو یہ ہے کہ سائنس
اس کا دائمی علاج دریافت نہیں کرسکی ہے۔ کچھ دواؤں اور وٹامن کے استعمال سے اس کے
اثرات کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ مشق اور کثرت مطالعہ سے تحریر کے اس داخلی پہلو
کو کچھ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism