New Age Islam
Thu May 15 2025, 06:31 PM

Urdu Section ( 29 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Cost of Hatred: 26 Lives, a Wounded Nation, and a Betrayed Brotherhood ...بتاو تمہیں کیا ملا؟

 ودود ساجد

27 اپریل 2025

انسانوں کو مارنے والےدہشت گردوں کو مخاطب کرکے کیا بات کی جائے؟وہ بظاہرتو انسان لگتے ہیں لیکن ان کے اندر انسانوں جیسے اوصاف نہیںہیں۔گزشتہ 22اپریل کو کشمیر کے علاقہ پہلگام میں ملک کی مختلف ریاستوں کے 25سیاحوںاور خود پہلگام کے ایک غریب کشمیری کوچار دہشت گردوں نے جس طرح گولیاں برساکرہلاک کیا اس نے پورے ملک کو تڑپاکر رکھ دیا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے درست کہاکہ’دہشت گردوں نے یہ حملہ ان سیاحوں پر نہیں کیا ہے بلکہ ہندوستان کی روح پر کیا ہے‘۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہر سیاسی جماعت‘ہرادارے ‘ہر تنظیم ‘ہر فرقے اور ہر طبقے نے بیک آواز اس حملہ کے خلاف اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار کیا ہے۔کشمیر کی مسجدوں سے اماموں اور موذنوں نے اس قتل وغارت گری کے خلاف جن الفاظ اور جس انداز میںشدید مذمت کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا ہے اس کی کوئی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔کشمیری پنڈتوں کی زبوں حالی پربھی مسجدوں سے اسی طرح کی آواز اٹھی تھی لیکن تازہ واقعہ کے خلاف جو ردعمل آیا ہے وہ عدیم المثال ہے۔سری نگر کی جامع مسجد کے خطیب میرواعظ عمر فاروق نے بھی جمعہ کے خطبہ میں اس واقعہ کے خلاف سخت غم وغصہ کا اظہار کیا۔کشمیر سمیت ملک بھر کی مسجدوں کے باہر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے‘نمازیوں نے کالی پٹیاں بھی باندھیں۔دہشت گردی کے خلاف پورے ملک کی اس تاریخی اجتماعیت کو دیکھ کراطمینان تو ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ  26بے قصورلوگوں کی ہلاکت اس اجتماعیت کا سبب بنی ہے۔

ہندوستان کی تمام مسلم تنظیموں‘ان کے قائدین اور کبار علماء نے کھل کرمذکورہ واقعہ پر اپنے شدید کرب کا اظہار کیا ہے۔دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری اورفتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد کے علاوہ ملک بھر کی مساجد میں جمعہ کے خطبات میں ائمہ نے بھی اسی پرگفتگو کی۔ دارالعلوم دیوبند‘مظاہرعلوم سہارنپوراورندوۃ العلماء لکھنئوکے علاوہ سینکڑوں بڑے دینی مدارس نے اس کی شدید مذمت کی۔جمعیت علماء کے صدر مولانا ارشد مدنی نے انسانوں کے قاتلوں کو درندے قرار دیا۔سب نے دہشت گردی کے اس واقعہ کواسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر اور مقتولین ومتاثرین کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرکے نہ صرف عام مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی بلکہ اسلام کا بھی دفاع کیا۔شرپسندوں کے سب سے بڑے معتوب سیاسی قائداسدالدین اویسی نے بھی اس واقعہ پر جس طرح رنج وغم کا پیغام عام کیا اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے عام مسلمانوں سے جمعہ کی نماز کے لئے جاتے وقت کالی پٹی باندھنے کی اپیل جاری کی۔ اس سے قبل آل پارٹی میٹنگ میں شرکت کیلئے خودوزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں فون کیااور میٹنگ میں شریک ہونے کیلئے کہا۔ آل پارٹی میٹنگ میں انہیںکسی تکنیکی بنیادپر مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن عین وقت پر انہیں خود وزیر داخلہ نے فون کیا۔اس وقت وہ حیدرآباد میں تھے لیکن وزیر داخلہ نے ان سے کہا کہ بھلے ہی دیر ہوجائے لیکن آپ ضرور آجائیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں سیاسی اور سرکاری محاذ پر ایک دوسرے کے شدیدنظریاتی مخالف لیڈراور جماعتیں بھی ملک کی سالمیت کیلئے کس طرح ایک ہی پلیٹ فارم پر آگئیں۔

نظریاتی اختلافات اورسیاسی پیش رفتوں سے قطع نظر اس وقت وادی میں حالات نسبتاً اچھے تھے۔کتنے عرصہ سے وہاں کے لوگ مشکل حالات میں گزر بسر کر رہے تھے۔وہاں کئی برسوں کے خلاء کے بعد جمہوری طورپر ایک حکومت بھی قائم ہوئی ہے۔ جموں وکشمیر اور خاص طورپر وادی کی اقتصادیات وہاں کی سیاحت انڈسٹری کی مرہون منت ہے۔اس کے بعد سیب کی پیداوار سے اتنی بڑی آمدنی ہوتی ہے۔مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میںسیب کی پیداوار سے سالانہ نو سے دس ہزار کروڑ روپیہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس انڈسٹری سے ساڑھے تین لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔زیادہ تر سیب ’ایکسپورٹ‘ہوجاتا ہے۔اسی طرح سیاحت انڈسٹری 12ہزارکروڑسالانہ کماکر دیتی ہے۔اس انڈسٹری سےکشمیر کےڈھائی لاکھ لوگ وابستہ ہیں جوایک جھٹکے میںبے روزگار ہوگئے ہیں۔رپورٹس کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں سیاحت کے سبب کشمیر کی اقتصادیات کی شرح نمو سات اعشاریہ ۸۱فیصدہوگئی تھی جبکہ باقی ملک کی شرح نمومحض سات اعشاریہ سات فیصد ہے۔ 16دسمبر 2024ک و’برائٹرکاشمیر‘ میں مشتاق وانی نے لکھا تھا کہ ’’حالیہ برسوں میں، کشمیر کو سیاسی عدم استحکام، سیکورٹی خدشات، اور اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس صورتحال نے کشمیر کی سیاحت انڈسٹری کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ تاہم، سال 2024 نے امید کا نیا احساس پیدا کیا ہے۔ سیکیورٹی میں بہتری، سیاحت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی کوششوں اور ایڈونچر اور فطرت پر مبنی سیاحت کی بڑھتی ہوئی خواہش کی وجہ سے اس خطے میں سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘

یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جموں وکشمیر کی سیاحت کو فروغ دینے میں مرکز اور ریاست کی دونوں حکومتوںنے اپنے اپنے طورپر اقدامات کئے۔گزشتہ تین برسوں میں سیاحوںکی تعدادمیں قابل لحاظ اضافہ ہوا لیکن 2024میںدوکروڑ35لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا سفر کیا۔اندازہ لگائیے کہ اگرکشمیر جاکرمختلف دوکانوں‘ہوٹلوں‘مقامی تفریح کاروںپرفی سیاح نے محض 100روپیہ بھی خرچ کئے تو اسی سے ریاست کو دوسوکروڑ سے زیادہ کی آمدنی ہوئی۔ کشمیرڈویزن میں96فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔اور سب سے زیادہ سیاحتی مقامات کشمیر ڈویزن میں ہی ہیں۔آخر اس دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوگا؟اس واقعہ کے بعد ان لوگوں نے اپنے پروگرام کینسل کردئے ہیں جنہوں نے پیشگی ٹکٹ تک کرالئے تھے۔’نیو انڈین ایکسپریس‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ریاست کرناٹک میں ہی پانچ ہزار سیاحوں نے اپنے ٹکٹ اور ہوٹلوں کی بکنگ کینسل کرادی ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پورے ملک سے 62فیصد سیاحوں نے اپنے ٹکٹ کینسل کرادئے ہیں۔جموں وکشمیر کے بنک اور ہوٹلوں کے شیئرز میں نوفیصد تک کی گراوٹ آگئی ہے۔آخر اس کا نقصان کس کو ہوگا؟

پہلگام کی وادی بیسارن میں 22اپریل کو جوکچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔سرکاری ذرائع اور ٹی وی چینلوں نے زندہ بچ جانے والے بعض متاثرین کے حوالہ سے بتایا ہے کہ چار دہشت گردوں نے نام پوچھ کر قتل وغارت گری کی۔یہ موقع ان اطلاعات پر سوال اٹھانے کا نہیں ہے۔اس ضمن میںکئی متاثرین/عینی شاہدین کے بیانات کی ویڈیوز بھی چل رہی ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ ویڈیوز دوسرے بہت سے سیاحوں اور عینی شاہدین کی چل رہی ہیںجو اس سے مختلف بات کہہ رہے ہیں۔ان ویڈیوزمیں کہا جارہا ہے کہ دہشت گردوںکو انہوں نے دور سے گولیاں چلاتے ہوئے دیکھاتھا۔یعنی دہشت گرد متاثرین کے اتنے قریب نہیں تھے کہ ان سے کچھ سوال کرکے اس کا جواب سن سکتے۔اس سلسلہ میں سب سے واضح گجرات کے ان چار سیاحوں کا بیان ہے جن سے ایک چینل والے نے دہلی ایرپورٹ پران کی واپسی پرہی گفتگو کی تھی۔ایک ہی گھر کے یہ چار افراد میاں ‘بیوی اوربہو بیٹے تھے۔انہوں نے بتایا کہ جس وقت گولی باری ہوئی تو وہ لوگ بھی وہیں کچھ فاصلے پر تھے۔پہلے تو وہ یہ سمجھے کہ دہشت گردوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔لیکن بعد میں اندازہ ہوگیا کہ جن لوگوں نے سیکیورٹی اہلکاروں کی وردی پہن رکھی ہے وہی دہشت گرد ہیں۔ان چاروںسیاحوں نے عام کشمیریوں کے حسن سلوک کی بہت تعریف کی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عام کشمیریوں نے لوگوں کو اپنے گھروں‘دوکانوں‘ہوٹلوںیہاں تک کہ ’واش روم‘ تک میں چھپاکر ان کی جان بچائی۔اس گھوڑے والے کشمیری مسلمان عادل حسین نےتو سیاحوں کو بچانے کی خاطر دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دیدی۔گجرات کےان چاروںسیاحوں نے بیک زبان کہا کہ اگر کشمیری ہماری مددنہ کرتے تو ہم بھی زندہ بچ کر نہیں آسکتے تھے۔ ان کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر دہشت گرد متاثرین کے اتنے قریب ہوتے تو پھر تو خود گجرات کے یہ چاروں سیاح بھی ان کی زد میں آجاتے۔

ملک بھر کے مسلمانوں‘ان کی تنظیموںاور ان کے قائدین کے کھل کر اس واقعہ کی مذمت کرنے کے باوجوداورمتاثرین سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کے خلاف سرتاپا احتجاج بن جانے کے باوجودپورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار بھی گرم ہورہا ہے۔اس طرح کے واقعات سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ہماچل‘پنجاب‘ہریانہ اور راجستھان وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کشمیری اسٹوڈینٹس کے خلاف بھی نفرت انگیز واقعات رونما ہورہے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے مسلمانوں کو بھگایا جارہا ہے۔آگرہ میں مبینہ طورپر ایک نوجوان مسلمان کونام پوچھ کر قتل کردیا گیا۔جب اس کا ساتھی بچانے آیا تو شرپسندوں نے اسے بھی قتل کردیا۔گوکہ پولیس نے اس امر کی تردید کی ہے کہ قتل کا یہ واقعہ پہلگام واقعہ کے ردعمل میں رونما ہوا ہے تاہم ویڈیوز گردش کر رہی ہیں۔صورتحال کی خرابی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹی وی چینل پر آگ لگانے والی ایک خاتون اینکرانجنا اوم کیشیپ کہہ رہی ہے کہ ’انتقام دشمنوں سے لینا ہے اپنوں سے نہیں‘۔آر ایس ایس کے تربیت یافتہ بی جے پی لیڈر رام مادھونے انڈین ایکسپریس میںمضمون لکھ کر اس بات پر زور دیا ہے کہ’’ اس وقت جہاں پورے ملک کا اتحاد ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کشمیریوں کی وطن پرستی کا’ٹیسٹ‘نہ لیا جائے۔‘‘کشمیری عوام نے بھی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کی ایک تاریخ رقم کردی ہے۔کشمیری جس طرح سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اور جس طرح ہندو سیاحوں کیلئے شدت جذبات کا اظہار کر رہے ہیں وہ شرپسندوںکیلئے کسی سوہان روح سے کم نہیں ہے۔

یہ وقت برسراقتدار طبقہ کیلئے بھی ایک غنیمت لمحہ ہے۔اگر وزیر داخلہ امت شاہ کو مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی پہلگام واقعہ پراپنے برملاموقف کے سبب ’بھاگئے‘ تو انہیں یقین کرنا چاہئے کہ بعینہ یہی موقف ہر ہندوستانی مسلمان اور ہر مسلم تنظیم کا بھی ہے۔قیادت کے بالاخانہ پر بیٹھے ہوئے لوگوںسے لے کر تلاش معاش میں سرگرداں ناخواندہ مسلم مزدوروں تک‘ سب کا موقف وہی ہے۔سب نے بیک آواز پہلگام کے متاثراپنے ہندوبھائیوںکیلئے انہی جذبات کا اظہار کیا ہے جو جذبات متاثرین کے اہل خانہ یا خود وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امت شاہ کے ہیں۔جو بات انجنا اوم کیشیپ اور رام مادھو نے کہی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بات وزیر داخلہ اور وزیر اعظم اپنے منہ سے کہتے۔وہ ان شرپسندوں سے ‘جو پچھلی ایک دہائی میں نفرت کا زہر پی پی کرایک خطرناک ٹولے میں بدل گئے ہیں‘کہتے کہ اپنے ملک کے مسلمانوںپر نشانہ لگانے کی بجائے اپنی توانائی دہشت گردی سے لڑنے کیلئے صرف کرو‘سرحدوںپر جائو  تمہاری ضرورت وہاں ہے۔اس ملک کے مسلمان پہلے ہی بہ آواز بلند کہہ چکے ہیں کہ اپنے وطن کی حفاظت اور سربلندی کیلئے وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔    

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/wounded-nation-betrayed-brotherhood-hatred/d/135361

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..