عقیل احمد
20جون،2024
پچھلے سال یعنی
7اکتوبر،2023 سے اسرائیل نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ان کے قتل عام میں مصروف
ہے۔ ساری دنیا میں اس کرہ ارضی کی ناجائز مملکت اسرائیل کے خلاف عوام بالخصوص
طلباء وطالبات احتجاج کررہے ہیں اور اسرائیل کی بیجا تائید و حمایت اور اس کی ہر
طرح سے مدد کرنے والے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس و دیگر ممالک سے مطالبہ کیا
جارہا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو پر لگام کسے اس پرپابندی عائد کرے،
آپ کو بتادیں کہ 7 اکتوبر،2023 ء سے لیکر اب تک فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق
اسرائیل کے فضائی وزمینی حملوں بلکہ دہشت گردی میں کم از کم 36300 فلسطینی شہید
اور 81500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید او رزخمیوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت
ہے۔ اسرائیلی زندگی اس کی حیوانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس نے ایک
دن کے نومولود کوبھی نہیں چھوڑا۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی نومولود مجاہد ہوگا جس
دن برتھ سرٹیفیکٹس (صد افتتامہ موت) جاری کیا گیا ہو۔
اسرائیل صرف فلسطینی بچوں
اور خواتین کو ہی نشانہ نہیں بنارہاہے ان کا قتل عام نہیں کردیاہے بلکہ اسرائیل کے
درندہ صفت سپاہی فلسطینی خواتین کی ان کے بچوں ان کے شوہروں او ران کے بھائیوں کے
سامنے عصمتیں تار تار کررہے ہیں۔ فلسطینی خواتین کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا
شیطانیت نہیں ہے؟ فلسطینیوں پر اسرائیل کے اس قدر وحشیانہ بلکہ شیطانی مظالم کے
باوجود دنیا کو انسانی حقوق اور انسانیت کا درس دینے والے امریکہ اور اس کے حلیف
ممالک حقیقت میں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتاہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان
کے قتل عام کونسل کشی اور قتل عام ماننے سے انکا ر کرتے ہیں اوہ اسی پر اکتفادہ
نہیں کرتے بلکہ بڑی بے حسی،بے بسی او ربے شرمی، کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ
اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیو ں پر مظالم کے معاملہ میں امریکہ کی ریڈ لائن (خطہ
سرخ) پار نہیں کی اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اسرائیل نے جو 80 فیصد غزہ کو ملبے کے
ڈھیر میں تبدیل کردیا(اس ملبے میں 7تا10 ہزار فلسطین شہید دبے ہوئے ہیں)اسکولوں،
کالجوں اور یونیورسٹیز اور اسپتالوں وپناہ گزین کیمپوں پر بموں و
میزائل کی بارش کرتے ہوئے انہیں زمین کے برابر کردیا۔ اسپتالوں پر بمباری کے ذریعہ
زیر علاج مریضوں کو علاج کے قابل نہیں رکھا۔
فلسطینیوں پر پانی تک بند
کردیا، غذائی اشیاء وامدادی سامان تک ان کی رسائی کے تمام راستے بند کردیئے،بھوک
کے باعث 150 سے زائد نومولود فلسطینیوں نے دم توڑ دی۔ پانی،بجلی، غذا سے محروم
کرکے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دیا۔ فلسطینی بستیوں پر شلباری، بمباری او
رمیزائل داغ کر بسے بسائے گھروں کو زمین دوز کردیا جس میں ایک ایک خاندان کے سو سو
ارکان شہید ہوئے یہاں تک کہ کئی اسپتالوں کے احاطہ میں ایسی اجتماعی قبروں کاپتہ
چلا جس میں 200، تین سو اور چار سو فلسطینیوں کی نعشیں پائی گئیں ایسی نعشیں بھی
ملی جن کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دیئے گئے تھے اور پھر انہیں اسرائیلی درندوں نے
گولیاں مار دیں یہاں تک کہ رفح ان فلسطینیوں کوبھی ان کے خیموں پر بمباری کرتے
ہوئے زندہ جلادیا گیا جنہوں نے اسرائیلی درندگی سے بچنے، وہاں پناہ لی تھی او
راقوام متحدہ نے اسے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا اب آخر امریکی صدر کو او رکیا تباہی
وبربادی چاہئے کہ وہ اسے فلسطینیوں کا قتل عام اور فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیں۔
اگر کوئی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم سے پہلو تہی کرتاہے اسے نظر انداز
کرتاہے،بچوں اور خواتین کے قتل کو نسل کشی اور قتل عام ماننے سے انکا رکرتا ہے تو
اس کامطلب یہ ہوا کہ اس کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے وہ بظاہر انسان ہے لیکن اس کا
سارا وجود انسانیت سے عاری ہے۔
ساری دنیا اسرائیل پر رفح
میں زمینی و فضائی کارروائی روکنے پر زور دے رہی ہے لیکن اسرائیل اقوام متحدہ سے
ملکر تمام عالمی اداروں کو اپیلوں کو بڑی حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے حقوق
انسانی کو بری طرح پامال کررہا ہے ان حالات میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی
بجائے اس کی تائید وحمایت کا مطلب یہی ہے کہ یہ طاقتیں فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل
عام کی تائید کررہی ہیں ان کی بربادی کا جشن منارہی ہیں۔ واضح رہے کہ رفح میں صرف
2.5 لاکھ لوگوں کے رہنے بسنے کی گنجائش ہے لیکن اسرائیل کی درندگی سے بچنے کی خاطر
وہاں 14-15 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی تھی لیکن اب 9لاکھ سے زائد فلسطینی
وہاں سے تخلیہ پر مجبور ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے 7ماہ میں زائد از 1.5 لاکھ ٹن دھماکو
مادہ کی غزہ پر بارش کی ہے کیا دنیا کو اسرائیل کی یہ درندگی دکھائی نہیں
دیتی؟۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر نام نہا د بڑی طاقتیں اسرائیل کے مظالم اور
فلسطینیوں کی مظلومیت پر کب تک اپنی آنکھیں، کان او رزبان بند رکھیں گی؟ اسرائیل
پر روز فلسطینیوں پر بم برساتے ہوئے فلسطینیوں کو شہید و زخمی کرتاجارہا ہے جس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ فی الوقت فلسطین میں ان ویڈیو گیمس کے مناظر
کی طرح کے منظر دیکھے جارہے ہیں جن میں دشمن کا بڑی بے دردی سے صفایا کیا جاتاہے۔
اسرائیل نے مصر سے متصل غزہ کی سرحدی پٹی پر پوری طرح کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ
کیاہے۔
اسرائیل کے مشیر قومی
سلامتی Izachi Hanegbe اب بڑی بے شرمی کے ساتھ کہنے لگتے ہیں کہ زائد از 7ماہ سے جاری یہ
جنگ مزید سات ماہ تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس
کا صفایا نہیں ہوجاتا، افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا خاص کر اسلام دشمن میڈیا
اسرائیل کے خلاف نبرد آزما حماس جنگجووں او رفلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے
جب کہ نومولود فلسطینیوں سے لیکر خواتین کے قتل عام میں مصروف اسرائیل کو دہشت گرد
قرار دینے میں عار محسوس کررہاہے۔اسرائیل کی درندگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جاسکتاہے کہ وہ ایک ایک دن میں غزہ رپر 50پچاس فضائی حملہ کررہاہے اس کا مطلب یہی
ہے کہ غزہ کو تہس نہس کرنے کے باوجود بھی اسے سکون نہیں ملا ہے۔ اسرائیل رفح میں
حملے روکنے سے متعلق عالمی عدالت، انصاف کے حکم کو بھی نظر انداز کرچکاہے وہ F15 لڑاکا طیارہ کے
ذریعہ غزہ پر حملے کررہاہے اس طرح اب رفح کاکوئی ایسا علاقہ نہیں جو اسرائیل چوری
او ر اس پرسینہ زوری کے مصداق اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کو بھی نشانہ بنارہا
ہے مثال کے طورپر اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینیوں کیلئے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی
انروا کو دہشت گرد قرار دینے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے او راسے اندرون 30یوم
مقبوضہ بیت المقدس کے علاقہ سے نکل جانے کا حکم دیاہے۔
اسرائیل کی شیطانیت پر جس
طرح عالم اسلام کا رد عمل رہا ہے اس پر بھی دل خون کے آنسو روتاہے۔ ہر کوئی ایسا
لگتا ہے کہ گفتار کاغازی بناہواہے کردار کانہیں۔ مثال کے طورپر اسلامی ممالک پر
زور انداز میں اسرائیل کی مذمت کررہے ہیں۔ دو مملکتی حل پرزور دے رہے ہیں اور ایسے
زور دار بیانات جاری کررہے ہیں کہ ان کی تعریف و ستائش کرنے کو دل چاہتاہے لیکن آج
فلسطینیوں کومسلم مملکوں و حکمرانوں او رحکومتوں کے زور دار بیانات کی نہیں بلکہ
فلسطین کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت میں سخت ترین عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان کاایک خطاب سامنے آیا، انقرہ میں پارٹی
اجلاس سے خطاب میں ان کا کہناتھا کہ اسرائیلی دہشت گرد فلسطینیوں کی حرمت پامال
کررہے ہیں بچوں کو ذبح کیاجارہا ہے، فلسطینیوں کو خیموں میں زندہ جلایاجارہاہے،
فلسطینیوں کی نعشیں بکھری پڑی ہیں۔ آخر مسلم دنیا کب متحد ہوگی؟ اور او آئی سی
اسرائیلی مظالم کے خلاف آخر کب موثر پالیسی اپنائے گی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مٹھی
بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی پر کچھ نہ کرنے او رمجرمانہ خاموشی
اختیار کرنے پر اللہ عزوجل ہم سب کا احتساب کرے گا؟
اردون نے باتیں تو بہت بڑی
کی ہیں لیکن عملی اقدامات کیا کئے ہیں؟ اس کے برعکس میکسکو ایک غیر مسلم و غیر
اسلامی ملک ہے وہاں مظاہرین نے رفح پر اسرائیلی فوجی کارروائی کے خلاف زبردست
احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سفارتخانہ کے حدود میں پٹرول بم پھینکے، میکسکو کے
دارالحکومت میکسکو سٹی میں اسرائیلی سفارتخانہ کے سامنے Urgent
Action For GAZA
کے زیر عنوان احتجاج مظاہرہ کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں مظاہرین نے شرکت کی۔
مظاہرین نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو فوری روکنے کامطالبہ کیا۔ جہاں تک
عالمی سطح پر اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کاسوال ہے امریکہ، برطانیہ،
آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی غرض دنیا بھر کی باوقار یونیورسٹیز میں طلبا او
راساتذہ احتجاج کررہے ہیں۔ صرف امریکہ میں ہی 3000 ہزار سے زائد احتجاجی طلباء او
راساتذہ کو گرفتار کیاگیا۔ حالانکہ مغربی دنیا میں اظہار خیال کی آزادی کو بہت
زیادہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن اگر کوئی فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف آواز
اٹھاتاہے تو اس کے خلاف کارروائی یقینی ہوتی جارہی ہے لیکن ہاروڈ یونیورسٹی کی ایک
ہندوستانی نژاد امریکی طالبہ شروتی کما رنے گریجویشن کی تقریب تقسیم اسناد ات کے
موقع پر اپنی ولولہ انگیز تقریر کے ذریعہ ظالموں او ران کی بیجا تائید وحمایت کرنے
والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
شروتی نے اپنی تقریر میں
میں رنگ کی بنیاد پر امریکی یونیور سٹیز میں بھی امتیاز برتے جانے کی شکایت کرتے
ہوئے ہاروڈ یونیورسٹی کے حکام پر کھلے عام تنقید کی کہ اس نے غزہ احتجاج میں حصہ
لینے اور فلسطینیوں کی تائید میں آواز اٹھانے والے اپنے ساتھی 13طلبہ کو گریجویشن
تقریب سے دور کیا۔شروتی کمار نے ”ناجاننے کی طاقت“ کے زیر عنوان اپنے خطاب میں
حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار او رآزادی اظہار خیال کے خود ساختہ حامیوں کو
دہلا کر رکھ دیا جس پر خود ہمارے ملک ہندوستان میں فرقہ پرست انہیں سوشل میڈیا میں
پر نشانہ بنارہے ہیں لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حق کی آواز کونسل پرستی یافرقہ
پرستی کے ذریعہ دبا یا نہیں جاسکتا وہ وقت ضرور آئے گا جب اسرائیل کو ہر شہید
فلسطینی کے خون کاحساب دیناہوگا۔
20جون،2024،بشکریہ: روز نامہ آگ، لکھنؤ
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism