سمت پال، نیو ایج اسلام
6 ستمبر 2022
جنت میں شراب پینا؛
’عقلمند‘ کہتا ہے جرم نہیں
پھر مجھے اس دنیا میں پینے
دو
بعد میں میں خدا کے حکم پر
غور کر لونگا
عمر خیام
"تمام صحیفائی
'حقائق' نسبتی اور وقتی ہیں۔ وہ پتھر کی لکیر نہیں ہیں۔ جب وہ اپنی افادیت کھو
دیتے ہیں تو ان کو رد کر دینا چاہیے۔ تمام انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ 'الہی
کلام' کو انسانی تہذیب کے پتھر کی لکیر مانتے ہیں۔ انہیں مٹا دیا
جائے........"
Nietzsche، 'Tus Spok
Zarathustra'،
کا جرمن سے ترجمہ ڈینیئلز نے کیا۔
" خود کو آزاد کریں
فرمان کی پرواہ نہ
کریں"
سلمان رشدی، امریکی شاعر
ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ دیتے ہوئے۔
"جب صحیفے معیاری
اصول کی کتاب بن جاتے ہیں، تو انسانیت کے قافلے کا سفر رک جاتا ہے۔ تمام نام نہاد
'الٰہی' کتابیں آپ کی آزادی اور خود شناسی کے راستے کی روکاوٹ ہیں۔"
- اینون
ایک صحرائی ملک میں
درختوں کی کمی تھی اور پھل آنا مشکل تھا۔ خدا اس بات کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ
پھل ہر ایک کے لئے دستیاب ہو، لہذا وہ ایک نبی کے پاس حاضر ہوا اور کہا، "یہ
میرا حکم ہے تمام لوگوں کے لئے کہ موجودہ اور آنے والی تمام نسلوں کے لئے: کوئی
بھی دن میں ایک سے زیادہ پھل نہ کھائے۔ اسے مقدس کتاب میں درج کر دو۔ جو بھی اس
قانون کی خلاف ورزی کرے گا اسے خدا اور انسانیت کا مجرم سمجھا جائے گا۔"
اس قانون پر صدیوں تک
وفاداری کے ساتھ عمل کیا گیا جب تک کہ سائنسدانوں نے صحرا کو سرسبز و شاداب زمین
میں تبدیل کرنے کا کوئی ذریعہ دریافت نہیں کر لیا۔ ملک اناج اور مویشیوں سے مالا
مال ہو گیا۔ اور درخت پھلوں کے وزن سے جھک گئے۔ لیکن ملک کے شہری اور مذہبی حکام
نے پھلوں پر نافذ اس قانون کو جاری رکھا۔
جس نے بھی پھلوں کو زمین
پر سڑتے رہنے دینے کو انسانیت کے خلاف گناہ کہا اسے گستاخ اور اخلاقیات کا دشمن
قرار دیا گیا۔ یہ لوگ، جنہوں نے خدا کے مقدس کلام کی حکمت پر سوال اٹھائے تھے، ان
کی رہنمائی عقل کر رہی تھی، اور کہا جاتا ہے کہ ان میں ایمان اور تسلیم و رضا کے
جذبے کی کمی تھی جس کے ذریعے ہی سچائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
قانون کو بدلنے کے لیے کچھ
نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ جس نبی نے 'دعویٰ' کیا تھا کہ اسے یہ حکم خدا سے ملا
ہے، وہ بہت پہلے سے مر چکا ہے۔ حالات کے بدلتے ہی اس کے پاس قانون کو بدلنے کی ہمت
ہو سکتی تھی کیونکہ اس نے خدا کے کلام کو احترام کی چیز کے طور پر نہیں بلکہ لوگوں
کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونے والی چیز کے طور پر لیا تھا۔
نتیجے کے طور پر، کچھ لوگوں
نے کھلے عام قانون اور خدا اور مذہب کا مذاق اڑایا۔ کچھ لوگوں نے اسے خفیہ طور پر
اور ہمیشہ غلط کاری کے احساس کے ساتھ توڑا۔ اکثریت نے اس پر سختی سے عمل کیا اور
اپنے آپ کو صرف اس لیے فضیلت وال سمجھنے لگے کیونکہ وہ ایک ایسے بے ہودہ اور
فرسودہ رسم کو اپنائے ہوئے ہیں، جسے ترک کرنے کے نام سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔
رینے ڈیکارٹس نے لکھا،
"لوگ معاشرے کے قوانین کو توڑ سکتے ہیں، لیکن نام نہاد الہی قوانین کو
نہیں"۔ ہم دائمی طور پر ایک موہوم غضب الٰہی کے ساتھ بندھے رہتے ہیں اور خدا
کے طریقوں پر سوال اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ جو کوئی سوال کرتا ہے، اسے بزرگوں اور
خاص طور پر نام نہاد 'متقی مردوں اور عورتوں' سے یہ جواب ملتا ہے کہ خدا کے طریقے
ہم جیسے انسانوں کے لیے ناقابل فہم ہیں۔ یہ مکمل طور پر حوصلہ شکنی ہے اور اجتماعی
سطح پر شکست خوردہ ذہنیت کی طرف لے جاتا ہے۔
کوئی انسان کیوں کسی مذہب
کی طرف سے منظور شدہ ایک قدیم رسم یا قانون کی افادیت پر سوال نہیں اٹھا سکتا؟ اب
بھی 'الہی قانون' پر قائم رہنے کا کیا فائدہ صرف اس لیے کہ یہ پرانا ہے؟ پورن
میتیو نا سادھو سروم (پرانا ہمیشہ اصلی اور بے خطا نہیں ہو سکتا)۔ ہم کب تک اکثریت
کی خطا اور زمانے کی خطا کو عقلیت پسندی پر حاکم بننے کی اجازت دیتے رہیں گے؟
انسان روحانی طور پر اس
وقت عروج حاصل کرنا بند کر دیتا ہے اور مذہبی معاملات میں پھنس کر رہ جاتا ہے جب
وہ آنکھیں بند کر کے ان چیزوں کی پیروی کرنا شروع کر دیتا ہے جس پر اس کے اسلاف
قدیم زمانے میں عمل کر چکے ہیں۔ ایک انسان جس کی روح باغی نہیں ہے وہ خدا کے ذہن
کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے، اگر وہ موجود ہو تب بھی۔ کسی نے نہایت اختصار کے
ساتھ کہا ہے، "خدا سجدہ کرنے والے، رکوع کرنے والے اور اندھے پیروکاروں سے
تنگ آ چکا ہے۔ وہ بھی باغی چاہتا ہے، جو اس کی الوہیت کو چیلنج کر سکے اور اسے اس
کے ہی کھیل میں شکست دے سکے۔" یاد رکھیں، ہر قانون میں ایک خامی ہوتی ہے،
چاہے وہ خدائی قانون ہی کیوں نہ ہو۔
کوئی سچائی اتنی عظیم نہیں
ہے کہ وہ تمام زمانوں پر حاوی ہو سکے اور آنے والے تمام زمانوں کے لیے موزوں ہو۔
اسی لیے، حقیقی مذہبی لوگوں (خدائی) قانون پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن اس سے کبھی
خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کا احترام کرتے ہیں۔ یہ نہ تو مطلق ہے، نہ ہی سب سے
بڑا ہے، اور نہ ہی کسی کے خود غرضی کے لیے اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔
'الٰہی حقائق' پر سوال
اٹھانا توہین آمیز فعل نہیں ہے۔ ایک روایت شکنی کا انحراف بے شمار روحانی راستے
کھول سکتا ہے۔ لیکن بنی نوع انسان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ لاعلمی میں بھی
روایت شکنی سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
اگرچہ جرمن فلسفی عمانویل
کانٹ نے "کریٹک آف پیور ریزن" لکھی ہے، اس نے بھی اعتراف کیا کہ کسی بھی
عقیدے کی عاجزانہ قبولیت کسی عقلمند انسان سے متوقع نہیں ہے اور یہ اس کی مرضی کے
ساتھ ساتھ اس کی عقلمندی کی بھی توہین ہے۔ "خوف نیزے کی نوک کو کند کر دیتا
ہے۔" یہ کہاوت ہر بنی نوع انسان پر منطبق ہوتی ہے۔ ہمارا خدا سے خوف یا تمام
منظم مذاہب سے جبلی خوف ہماری سوال کرنے کی صلاحیت پر اس حد تک قدغن لگاتا ہے کہ
ہم آخرکار اس سے محروم ہو جاتے ہیں اور ریوڑ میں بھیڑ کی طرح کام کرنا شروع کر
دیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہم کسی بھی ایسی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے
تیار رہتے ہیں جو ہمارے لیے مبہم ہے۔
ہم ہمیشہ مافوق الفطرت
مظاہر سے متحیر و مرعوب رہتے ہیں اور ان کے اسرار کا شکار ہونے کو بیقرار ہوتے
ہیں۔ یہ رویہ کبھی بھی آزاد ذہن کو پنپنے نہیں دیگا اور ہم اپنی فرسودہ ذہنیت کے
جال میں پھنسے رہیں گے۔ ایک اردو کا شعر پیش خدمت ہے، "اتنے مانوس صیّاد سے
ہو گئے ہیں/ملی رہائی بھی تو مر جائیں گے"۔ زیادہ تر انسان اسٹاک ہوم سنڈروم
میں مبتلا ہیں۔ دیوتاؤں، صحیفوں اور مذاہب کی قید سے آزاد ہونے سے گریزاں ہیں۔
English
Article: Drinking Wine In Paradise; Not A Crime, Says The Man
'Wise' !
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism