New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 01:38 AM

Urdu Section ( 24 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Despite The Winds of Atheism الحاد، مادہ پرستی اور سماجی ڈارونزم کی آندھیوں کے باوجود دین اپنی بنیاد پر کھڑا رہا

 

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 

29 جون 2022

 

اسلام اور مسلمان بھی احیائے نو کے مختلف مراحل سے گزرے، لیکن اسلام کو انفرادی دائرے سے الگ نہیں کیا جا سکا۔

 

اہم نکات:

 

1. علی شریعتی عصر حاضر کے ایک اہم عالم ہیں جنہوں نے اسلام کی تشریح نوکرنے کی کوشش کی۔

 

2. مذہب اور شیعہ فقہ کے بارے میں شریعتی کے نظریات دلچسپ ہیں۔

 

3. شریعتی نے امامت کے تصور کے بارے میں نئی وضاحتیں پیش کی ہیں۔

 

----

 

Sociology of Religions: Perspectives of Ali Shariati

 

مصنف: میر محمد ابراہیم

 

ناشر: پرینٹائس ہال آف انڈیا، نئی دہلی، انڈیا

 

صفحات: 277 قیمت: 395 روپے

 

----

 

مذہب کسی بھی تہذیب کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، یہاں تک کہ مغربی تہذیب جس کی جڑیں الحاد میں ہیں، مذہب کی مکمل نفی نہیں کرسکی بلکہ اس کے دائرہ اثر کو عوامی سے نجی میں بدل دیا۔ الحاد، مادیت اور سماجی ڈارونزم کی آندھیوں کے باوجود دین اپنی بنیاد پر کھڑا رہا اور اب بھی لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں زندہ  و تابندہ ہے۔ اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو یورپی نشاۃ ثانیہ کے بعد اصلاح کے ایک عمل سے گزرنا پڑا کیونکہ یہ مذاہب تاریخ کے اس دھارے میں رکاوٹ بن رہے تھے جو کہ توہم پرستی سے سائنسی کی طرف منتقل ہو رہا تھا، حالانکہ اسلام اور مسلمان بھی احیاء پسندی کے مختلف مراحل سے گزرے ہیں، لیکن اسلام کو انفرادی حلقےتک ہی محدود  نہیں کیا جا سکا، اسلام اب بھی زندہ ہے اور مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نے کبھی سائنسی انقلاب، آزادانہ تحقیق اور صحت مندانہ تنقید کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ اسلام انہیں اصولوں پر کھڑا ہے، لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ علمائے کرام اور ملاؤں کا ایک مخصوص طبقہ جس کی اسلام کی تشریح اور عوام پر گرفت سائنسی ترقی سے کمزور پڑ رہی تھی ، انہوں نے مسلمانوں کو دھمکانے کی پوری کوشش کی کہ وہ نشاۃ ثانیہ کے ثمرات کو غیر اسلامی قرار دے کر اسے قبول کرنے سے باز رہیں، لیکن مزاحمت بالآخر دم توڑ گئی۔ ان ملاوں اور علمائے کرام کی مخالفت کو نشاۃ ثانیہ کے پرچم برداروں کی طرف سے مسلمانوں ممالک کی استعماری قوتوں سے تقویت ملی، لیکن یہ رویہ اسلامی کے بجائے سیاسی تھا۔

 

یورپی طاقتوں اور مغربی تہذیب کے حملے نے مقبوضہ مسلم سرزمین میں بہت سے احیاء پسندوں کو جنم دیا، جنہوں نے بعد میں اسلامی اور مسلم احیاء پسندی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یہاں تین شخصیات ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہیں: علامہ سر محمد اقبال، جنہوں نے جنوبی ایشیا میں احیائے نو کا جھنڈا اٹھایا، عرب دنیا میں سید قطب اور میسوپوٹیمیا تہذیب کے فرزند علی شریعتی۔ ان تینوں میں مماثلت یہ تھی کہ انہوں  نے مغرب میں تعلیم حاصل کی، اور اپنے قیام کے دوران وہ مغربی طرز زندگی سے بیزار ہو گئے، بغاوت پر اتر آئے اور اپنے آبائی وطن واپس آ گئے اور جس چیز کو انہوں نے اسلامی احیاء سمجھا اپنی پوری زندگی اس کے لیے کام کیا۔ اور بعد میں ان میں سے دو کو ان کی سرگرمی کی وجہ سے شہید کر دیا گیا جسے انہوں نے اسلامی احیاء پسندی سمجھا تھا۔

 

زیر نظر کتاب میں معروف مصنف میر محمد ابراہیم نے مذہب کے بارے میں علی شریعتی کے خیالات و نظریات پر بحث کی ہے۔ کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایک لمبا مقدمہ تجربہ کار ماہر تعلیم اور محقق ڈاکٹر حامد نسیم رفیع آبادی نے لکھا ہے، جو مذاہب کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات پر بحث کرتے ہیں، اور اسلام کو تمام مذاہب میں بہترین قرار دیتے ہیں۔

 

ابراہیم اپنے تعارف میں بتاتے ہیں کہ، "شریعتی کی دلچسپی فلسفیانہ، سائنسی، منطقی اور مذہبی نقطہ نظر سے کسی مذہب کی جانچ کرنے کے بجائے، مذہبی عقائد کے اثرات، استعمال اور نتائج میں ہے۔ وہ اپنے قارئین کو یہ دیکھنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں کہ آیا کوئی مذہب ذمہ داری کا احساس، بیداری، انسانی اقدار اور انسانیت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے یا نہیں۔

 

شریعتی کا مذہب انہیں زیادہ ذمہ دار بناتا ہے، انسانیت پر زور دیتا ہے، جو جمود کے خلاف مزاحمت ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مارکس نے کہا تھا کہ فلسفیوں نے دنیا کو دریافت کیا ہے، لیکن بات اسے بدلنے کی ہے اور مارکس کے برعکس شریعتی کا مذہب لوگوں کے لیے افیون نہیں ہے، اگرچہ وہ مذہب کی زیادتی کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ ابراہیم مزید بیان کرتے ہیں کہ شریعتی کے مطابق، "مذہب نے مثبت اور منفی دونوں کردار ادا کیے ہیں اور یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے جو انسانوں کی زندگی میں متضاد کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تباہ اور زندہ کرتا ہے، سلاتا ہے اور بیدار کرتا ہے، غلام بناتا ہے اور آزاد کرتا ہے، نرمی اور بغاوت سکھاتا ہے۔ شریعتی کا دعویٰ ہے کہ اسلام کی تاریخ خود مختلف سماجی طبقات کے درمیان مذہب کے ان متضاد کرداروں کی کہانی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف اسلام کی جنگ اور قرآن کے خلاف قرآن کی جنگ کی تاریخ ہے۔

 

پہلا باب جس کا عنوان ہے مذہب کا تصور: ایک تجزیہ، مختلف ذرائع سے مذہب کی تعریف کے ساتھ ساتھ مذہب کے بارے میں نظریات پر بحث کرتا ہے۔ مذہب کے تصور پر بھی تاریخی، نفسیاتی، فلسفیانہ، مارکسی، عقلی اور دیگر زاویوں سے بحث کی گئی ہے۔ آخر میں مذہب کے بارے میں علی شریعتی کے خیالات کی وضاحت، اس پر غور و فکر اور بحث کی گئی ہے۔

 

دوسرے باب میں مذہب کی صنفیات پر بحث کی گئی ہے، جو صرف غیر سامی مذاہب سے متعلق ہے حالانکہ یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ مذاہب میں سامی اور غیر سامی کی تفریق غلط ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر قوم کے لیے یقیناً ایک نبی بھیجا ہے، اور شاید جسے ہم غیر سامی مذہب قرار دیتے ہیں وہ درحقیقت سامی بھی ہو سکتے ہیں۔ تیسرے باب میں اسلام کی نظریاتی بنیادوں پر بحث کی گئی ہے اور اسلام ایک توحیدی  طرز زندگی رکھتا ہے، اس کے علاوہ اسلام اور سائنس کے درمیان تعلق کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے، جس میں دیگر مذاہب خصوصاً عیسائیت کی خامیوں کو سامنے لایا گیا ہے جن کے پادریوں نے صحیفے میں بگاڑ پیداکیا، مذہب کے نام پر عوام کا استحصال کیا اور مذہب کو اپنی مادی ہوس کی تسکین کے لیے محض ایک ہتھیار بنا دیا، اس طرح عیسائیت کو نشاۃ ثانیہ کے بعد بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جو کہ اسلام کے برعکس تھا۔

 

اسلام کی انقلابی جہتیں کتاب کا چوتھا باب ہے اور شریعتی  نے

 

امامت

 

اجتہاد

 

امر بالمعروف والنہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا)

 

حج

 

کو اسلام کے انقلابی ستونوں قرار دیا ہے اگرچہ ابراہیم شریعتی کے نظریہ امامت کو جزوی طور پر بیان کرتے ہیں، "شریعتی نے امامت کے تصور کو سماجی طور پر دیکھنے کی کوشش کی اور اس پیچیدہ موضوع پر کچھ انتہائی دلکش لیکن غیر حتمی بصیرتیں پیش کیں۔ اس موضوع کے بارے میں اپنے غیر روایتی خیالات کے باوجود، وہ امامت کے قائل نظریہ کی وکالت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، جیسا کہ مرتضی مطہری یا حتیٰ کہ آیت اللہ خمینی کی تحریروں میں بھی واضح ہے۔ پسے ہوئے عوام اور ان کے مسائل کے ازالے پر ان کا زور، انقلابی قیادت کے مارکسی نمونے کے ساتھ ان کے مستقل جنون کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ عام مسلمانوں میں خلافت کا تصور موجود ہے جو پیغمبر اسلام کے بعد امت مسلمہ کی ولایت کے دائرہ کار کو پورا کرتا ہے۔

 

شریعتی ایک بہت بڑے دانشور تھے ، لیکن انآرام طلب دانشوروں کے برعکس جنہوں نے اپنی پوری زندگی کتابیں لکھنے، سیمیناروں میں شرکت کرنےاور مقالے پیش کرنے میں گزار دی، بلکہ شریعتی ایک عوامی دانشور اور کارکن تھے جنہوں نے دانشوروں اور جاہل عوام کے درمیان خلیج کو کم کرنے کا کام کیا، جیسا کہ خود ان کا ماننا ہے،  اس وقت ایک طرف دانشور اپنے معاشرے کی سمجھ کے بغیر عیش و غفلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان پڑھ عوام انہی دانشوروں کی حکمت اور علم سے محروم ہیں جو ان کے پاس ہے اور جو دولت وہ (اگرچہ بالواسطہ طور پر)  انہیں دیتے ہیں اور جن کے پھلنے پھولنے کے لیے وہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی سب سے بڑی ذمہ داری جو اپنے معاشرے کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں اور غیر مربوط اور بعض اوقات سماج کے مخالف عناصر کو ایک ہم آہنگی میں جمع کرنا چاہتے ہیں ان دو قطبوں یعنی نظریہ کے قطب اور عمل کے قطب کے درمیان خلیج کو پاٹنا ہے۔ اور عوام اور دانشوروں کے درمیان بیگانگی کے اس عظیم گڑھے کو پر کرنا ہے۔" (P-217-218)۔

 

مجموعی طور پر کتاب اچھی ہے، اور شریعت کے علوم میں علمی اضافہ ہے۔ مصنف علمی مقالے کو قلم بند کرنے پر ہماری تعریف اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں، اور طباعت اعلیٰ معیار کی ہے، باوجود اس کے کہ چند گرامر اور املا کی غلطیوں سے ذائقہ خراب ہوتا ہے، لیکن کتاب کی قیمت ہر کسی کے لیے اپنے ذاتی مطالعہ کو تقویت دینے کے قابل بناتی ہے۔

 

-----

 

English Article:  Despite The Winds of Atheism, Materialism and Social Darwinism Religion Stood Its Ground

 

 

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/winds-atheism-/d/129630

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..