خرم مراد
(آخری حصہ)
11 نومبر 2022
نبی کریم ؐ کی پوری دعوت میں
شروع سے آخر تک برابر خدمت ِ خلق کا ذکر ہے۔ ایک صحابی عمرو بن عبسہؓ روایت کرتے ہیں
کہ میرا شروع سے بتوں پر ایمان نہ تھا۔ میراخیال تھاکہ یہ غلط کام ہے۔ پھر میں نے سنا
کہ ایک آدمی مکّہ میں ایک اور چیز کی دعوت دے رہا ہے، میں نے سواری کا کجاوہ کسا ،
اس پر بیٹھا اور مکّہ پہنچ گیا۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ حضورؐ کا پتا چلنا ہی مشکل تھا۔میں
نے آپ ؐ کا پتا لیا اورآپ ؐ سے ملا اور پوچھا: آپ ؐ کون ہیں؟
آپ ؐ نے کہا: میں نبی ہوں۔
میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا
ہے؟
آپ ؐ نے کہا: مجھے اللہ نے
بھیجا ہے۔
میں نے پوچھا: اللہ نے آپ
ؐ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟
اس پر حضورؐ نے فرمایا: صلۃ
الارحام یعنی قرابت داری کے رشتے قائم کرنے کے لئے، اور بتوں سے بچنے کے لئے، اور ایک
اللہ کی بندگی کرنے کے لئے۔
یہاں بھی ترتیب پر غور کیا
جائے تو یہ بات سامنے آگئی کہ حضورؐ نے اس وقت بھی جو دعوت پیش کی، اللہ کے احکام
اور پیغام پیش کیا، اس میں سب سے پہلے صلۃ الارحام کہا۔ یہ صلہ رحمی (قرابت داری کے
رشتے قائم کرنا) بھی خدمت خلق ہے۔
حضرت جعفر طیارؓ سے جب نجاشی
نے دربار میں پوچھا کہ تم کو کیا تعلیم دی گئی ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہم پہلے بتوں
کی پرستش کرتے تھے ، مردار کھاتے تھے اور ظلم ڈھاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے
اور آپؐ نے ہمیں دعوت دی۔ اب ہم بیوائوں کی خبرگیری کرتے ہیں، یتیموں کی خدمت کرتے
ہیں اور اللہ کی بندگی بھی کرتے ہیں۔
دیکھئے، بین الاقوامی پیمانے
پر اسلام کا تعارف ہو رہا ہے لیکن یہاں بھی اللہ کی بندگی اور انسانوں کی خدمت دونوں
باتیں ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔جب نبی کریم ؐ ایک نیا دین، ایک نئی ریاست، ایک نئی
تہذیب قائم کرنے کے لئے مدینہ تشریف لائے اور آپؐ نے پہلا خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا:
افشو السلام، واطعموا الطعام،
وصلو الناس القیام وادخلوا الجنۃ بالسلام۔
یہاں چار باتیں فرمائی گئی
ہیں: پہلی یہ کہ سلام پھیلاو، یعنی سلامتی پھیلاو
، اپنی زبان اور اپنے رویے سے۔ دونوں کو سلامتی کا نمونہ بنائو۔ یہ بھی خدمت خلق کی
ایک صورت ہے۔ دوسری یہ کہ کھانا کھلاو، یعنی جو ضرورت مند ہیں، بھوکے ہیں، ان کو کھانا
کھلائو۔تیسری یہ کہ جب لوگ سوتے ہوں تو نماز پڑھو، اور چوتھی یہ کہ جنت میں سیدھے سیدھے
داخل ہو جائو۔گویا جو نئی تہذیب، نئی ریاست اور نیا معاشرہ بننے والا تھا، اس کو آپ
ؐ نے پہلی ہدایت کے طور پر یہ تین باتیں کہیں، اور جنت کے داخلے کی بشارت بھی ان ہی
تین چیزوں کے ساتھ وابستہ کی۔اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں
کی خدمت کا کتنا اہم کام ہے جس کو قرآن مجید
نے اور اللہ کے نبیؐ نے یہ مقام عطا فرمایا۔
خدمت خلق: مقصد دین
اگر میں یہ کہوں کہ ایک پہلو
سے سارے دین کا مقصد ہی خدمت خلق ہے تو میری یہ بات غلط نہیں ہوگی۔دین کا مقصد یہ ہے
کہ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے بچایا جائے۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا
جائے تو یہ خدمت خلق ہے، اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا
جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے؟ یقیناً یہ خدمت خلق ہی ہے!دعوت کی تعریف بھی یہی
ہے ۔ لیکن بات اتنی نہیں ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول اس لئے بھیجے اور
کتابیں اس لئے اُتاریں، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ گویا یہ بھی خدمت خلق ہے۔
لوگوں کو انصاف پر قائم کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا، فی الواقع اس سے
بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہی رسولوں کا مقصد ٹھہرا، یہی کتابوں کے اُتارنے کا
مقصد قرار پایا، اور یہی مومنین کی جماعت کا مقصد قرار پائے گا کہ لوگ انصاف پر قائم
ہو جائیں:’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ، اور ان
کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘ (الحدید : ۲۵) اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
دین کا پورا مقصد ہی خدمت خلق ہے۔ اس کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ بعض
جگہ اس کا ایمان سے پہلے ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ مدثر میں ہے۔ بعض آیات
جو بالکل ابتدائی دَور کی ہیں ان میں بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے، مثلاً: ’’ جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی
سے) پرہیز کیا ، اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیںگے۔‘‘
(الیل : ۵-۱۰) یعنی جو راہِ خدا میں
مال دینے والا ہو، لینے والا نہ ہو، اللہ نے جو کچھ اور جتنا دیا ہو اس میں سے خرچ
کرنے والا ہو، سائل اور مستحق کی مدد کرنے والا ہو، خدا کی نافرمانی سے بچنے والا،
تقویٰ اختیار کرنے والا ہو اور بھلی بات کی تصدیق کرنے والا یعنی ایمان لانے والا ہو،
اس کے لئے اللہ جنت کے راستے کو، اس پر چلنے کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں۔
بعض آیات ایسی ہیں جن سے
معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کی تو تعبیر ہی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے بندوں کی خدمت
کرے۔ سورہ الماعون جو نماز میں اکثر پڑھی جاتی ہے،اس کی بہت اچھی مثال ہے:’’تم نے دیکھا
اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے
لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں،اور معمولی ضرورت کی چیزیں
(لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘(سورہ الماعون : ۱-۷)قیامت کا جھٹلانا کیا ہے؟
یتیموں کو دھکے دینا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا، یہ قیامت کا جھٹلانا
ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ میں قیامت کو نہیں مانتا۔ کوئی زبان
سے اقرار کرتا ہو، لیکن عمل یہ ہو تو یہ عملاً جھٹلانا ہے۔ اس طرح پورے ایمان کی تعبیر
خدمت خلق بن گئی۔ عبادت کی تعبیر بھی یہی ہے۔ نماز سے غفلت یہ ہے کہ دکھاوے کیلئے پڑھے،
اس میں بندگی کی روح نہ ہو۔ اور روز مرہ استعمال کی معمولی چیزیں آدمی مارے بخل کے
دینے سے روک لے۔ایک دوسری جگہ جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے والوں کا
تذکرہ یوں کیا گیا:
’’اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی
سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مکین کو کھانا کھلانا ۔ پھر
(اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے
کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔‘‘ (البلد :
۱۲-۱۸)
خدمت خلق کا مقام
اس کے بعداب اس بات میں کیا
شک رہ جاتا ہے کہ خدمت خلق کا دین میں کیا مقام ہے! یہ کام تواتنا اہم ہے کہ انسان
کی پوری زندگی، سوچ، ذہن، دل و دماغ، غرض ہر چیز سے اس کی عکاسی ہونی چاہئے نہ یہ کہ
آدمی ایک شعبہ قائم کر کے یا کھالیں جمع کر کے مطمئن ہو جائے یا چند درخواستیں لے
کر اور نمٹا کر سمجھے کہ ہم نے خدمت خلق کا کام کر دیا ہے۔ دین کی تعلیم سے تو یہ معلوم
نہیں ہوتا کہ خدمت خلق کوئی ایسی چھوٹی چیز ہے بلکہ یہ کام اپنے اندر بڑی جامعیت اور
وسعت رکھتا ہے۔
یہ اہمیت کیوں ہے؟ اگر ہم
غور کریں تو ہماری پوری زندگی مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ خالق کو تو ہم نے نہیں
دیکھا اور خالق سے ہم اپنا تعلق سوچ سمجھ کے، جان بوجھ کے، اور بڑی مشکل اور کوشش کر
کے قائم کرتے ہیں لیکن مخلوق سے تو ہمارا رشتہ پیدا ہونے سے پہلے قائم ہو جاتا ہے۔
ایک مرد اور عورت مل کر ، اپنا آرام اور اپنی لذت اور اپنا سب کچھ بھول کے، اگر چاہتے
ہیں تو انسان وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد بچپن میں اگر والدین بچے کو نہ پوچھیں تو
وہ زندہ نہیں رہ سکتا، اسی وقت مر جائے بلکہ سانس بھی نہ لے پائے۔ اسی طرح انسانی زندگی
کا ہر لمحہ دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، انسان کے ساتھ، جانوروں کے ساتھ، اور اللہ کی
مخلوق کے ساتھ۔ اگردین پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں دینے کا نام ہے تو زندگی کا
۹۰ سے
۹۵ فی
صد حصہ خلق کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔
اس تعلق کی جڑ دل میں ہے، ایمان
میں ہے۔ جیسے بیج زمین سے پھوٹتا ہے اسی طرح جب ایمان پھوٹے گا ، درخت بن کے نکلے گا
تواس کی ساری شاخوں کو کہیں نہ کہیں اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہوگا۔ آدمی
گھر میں ہو، بازار میں ہو، کھیت میں ہو، حکومت کر رہا ہو، ملازمت کر رہا ہو، غرض کوئی
بھی کام کر رہا ہو، اس کا واسطہ انسانوں سے پڑتا ہے۔ گھر میں جاتا ہے بیوی بچے ہوتے
ہیں، مسجد میں جاتا ہے نمازی ہوتے ہیں، دکان پر جاتا ہے گاہک آتے ہیں… کوئی کام ایسا
نہیں ہے جہاں اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ مخلوق کے ساتھ اسی تعلق سے اس کی زندگی
کا ایک ایک تار، ایک ایک حصہ، اور ایک ایک لمحہ بندھا ہوا ہے۔ اسی لئے مخلوق کی خدمت
کا یہ مقام اللہ کی تعلیم میں اور رسولؐ اللہ کی تعلیم میں ہے۔
اللہ کی بندگی کا اصل راستہ
’’خدمت خلق‘‘ کا لفظ قرآن
مجیدیا احادیث میں کہیں نہیں آیا بلکہ اس کے لئے صدقہ، خیر، بِّر یا نیکی اور مختلف
نام آئے ہیں۔ اس ضمن میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ سب وہی ہے جو خدمت خلق کے تحت آتی
ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدمت خلق کا جو تصور ہم نے اپنے ذہنوں میں قائم
کر رکھا ہے وہ بڑا محدود اور ناقص ہے۔ اس کو
وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام پر جو اجر و ثواب ہے ، اس کا تصور کیجئے، کتنا
عظیم الشان ہے… اس کے حصول کی فکر کرنی چاہئے۔
11 نومبر 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Urdu
Article Part: 1 - A General
Awareness of Serving Others and Accommodating both Individual and Societal
Needs Part-1 خدمت خلق: جامع تصور، انفرادی اور اجتماعی
تقاضے
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism