مولاناعبد الحمید نعمانی
21 مئی، 2013
امت مسلمہ کے عالمی او رملک کی سطح پر جو حالات ہیں، ان کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کرکے اپنے اپنے طور پر تنائج نکالےجارہےہیں، اس سلسلے کا اہم سوال یہ ہے کہ ان حالات کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ مسلمان، ان کی دشمن طاقتیں ، حکومتیں یا ان کی مشنر یز۔ منصفانہ اور حق بات تو یہ ہے کہ سب کا اپنی اپنی حیثیت سے عمل دخل ہے، سوفیصد کسی ایک کو موجودہ حالات کے لیے قصور وار قرار دینا انصاف و دیانت کی بات نہیں ہوگی، ہمارے دوست پروفیسر عارف الاسلام ( مسلم یونیور سٹی علی گڑھ) جیسے لوگ حالات کی ساری ذمہ داری مسلمانوں ، ان کی حکومتوں ، خصوصاً علماء پر ڈالتے ہیں، اس تجزیے سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے مسائل کی نوعیت کے اعتبار سے ذمہ داری کا تعین ہی منصفانہ اور نتیجہ خیز ہوگا، البتہ تمام تر ذمہ داریاں ، اسلام دشمن ، صیہونی ، فرقہ طاقتوں اور مغربی و یوروپی ممالک کی ایجنسیوں پر ڈال کر خود کو دودھ کا دُھلا ثابت کرنے کاعمل یقینی طور پر تباہ کن اور احتساب ِ خویش کی راہ مسدود کرنے والاہے، خاص طور سے مسلکی معاملات اور پر تشدد اختلافات کے سلسلے میں ۔
پر تشدد مسلکی اختلافات کے نیتجے میں جو حالات پیداہوئے اور ہورہے ہیں ،اور جن کی وجہ سے امت خیر کی شبیہ ، شر پسند اور فسادی امت کی بن رہی ہے، ان کے لیے 95 فیصد ذمہ دار وہی مسلمان ہیں ، جو اپنے طرز عمل کو مثالی اور دوسرے کے فکر وعمل کو کفر ارتداد قرار دے کر ان کو اسلام کے دائرہ سے باہر تصورکرتے کراتے ہیں۔ صیہونی طاقتوں اور اسلام ومسلمان مخالف عناصر کا زیادہ سے زیادہ 5 فیصد عمل دخل ہوسکتا ہے ، اگر مسلمان اور خاص طور سے ان کا اہل علم طبقہ ،اپنے کردار و گفتار سےموقع نہ دیں تو غیر وں کا یہ 5 فیصد دخل بھی ختم ہوجائے گا۔ گزشتہ دنوں روز نامہ ‘ہندو’ اور دیگر اخبارات میں مسلکی پر تشدد اختلافات سے پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں بہت کچھ سامنے آگیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جتنا کچھ مسلم سماج میں ہورہا ہے، اس کا بہت کم حصہ میڈیا میں آتا ہے، لیکن اس کا مسلم سماج پر سماجی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سےبہت ہی زیادہ اثر پڑ رہاہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ بریلوی، دیوبندی کو عنوان بنا کر تین درجن سے زائد نکاح توڑ وایے گئے۔ اشتعال انگیز ہندی میں پمفلٹ شائع کیے جارہے ہیں اور دونوں طرف کے لوگ مختلف واقعات کے تحت مقد مات کی زد میں ہیں ، اور خاص دہشت و سراسیمگی پیدا ہوئی ہے۔
مدارس خصوصاً مساجد پر قبضے کو لے کر ملک کے مختلف حصوں میں فریقین میں باہمی تصادم ہورہا ہے، کچھ لوگ کھلے عام مسلمان ہی ایک دوسرے فرقے پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں ، دیکھا جائے توموجودہ حالات میں ، جب کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کی بات جمعیۃ علماء ہند جیسی مختلف تنظیموں او رمنچوں کی طرف سے چل رہی ہے۔کس قدر سنگین او رملت کےلیے تباہ کن ہے۔ بار ہاجب ہمیں اس طرح کی اطلاعات ملیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ موجودہ سنگین صورتِ حال میں کوئی ذرا بھی عقل والا آدمی مسلمانوں میں سے کسی مکتب فکر کو کھلے الفاظ میں دہشت گرد قرار دے گا، لیکن گزشتہ دنوں بھاگلپور میں یو پی کے ایک مشہور خانوادے کے مذکورہ صاحب کی موبائل پر ٹیپ شدہ تقریر سنائی تو یقین کرنا پڑا کہ لوگ مسلکی اختلافات کےنیتجے میں کس حد تک پستی تک آگئے ہیں، بعد میں پتا چلا کہ کئی ویب سائٹوں پر بھی مذکورہ قسم کے خطابات دستیاب ہیں۔ راقم سطور نے بذاتِ خود دیکھا سنا تو حیرت زدہ رہ گیا، ہم یہ جانتے ہیں کہ بہت سے پگڑی برداروں کا روزی روز گار بھیانک مسلکی پر تشدد اختلافات سے جڑا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب تونہیں ہےکہ ملت کے بڑے حصے کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔
حد میں رہ کر اختلافات کیے جاسکتے ہیں ، آدمی کے لیے اپنے موروثی عقائد و افکار کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور سے ایسے لوگوں کے لیے جو اپنے حلقے میں ایک ایسی مخصوص حیثیت وشناخت بنا چکے ہوتے ہیں، جس سے اقتصادی، سماجی برتری اور غلبہ وابستہ ہوجائے۔ یہ معاملہ صرف ہندوستان کا ہی نہیں ہے، بلکہ عالمی مسئلہ ہے، جہا ں جہاں بھی مختلف مکاتب فکر کے مسلمان رہتے ہیں، اگر اختلافات کتابوں اور اہل علم تک محدود رہیں اور تفہیم مسائل کے لیے ہوں تو ان کو گوارا بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر مسلم اختلافات حدود سے تجاوز کرجائیں تو ان کی کسی بھی درجے میں تائید و حمایت دین و ملت کی بد خواہی ہوگی، خصو صاً آج کے حالات میں تو ملت اسلامیہ ہر طرف سے گھر چکی ہے ۔ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور احناف کے مابین ایک طویل عرصہ سے مختلف فیہا مسائل کی تسلسل کے ساتھ جگالی کر کے ماحول کو خراب کرنے حتیٰ کہ از دواجی رشتہ ختم کر لینے اور تجدید نکاح کی رُسوا کن مہم کاکوئی جواز نہیں ہے، جب کہ مشہور و معروف متنازعہ مسائل، خاص طور سےبریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث و احناف کے اختلافی مسائل حق و باطل یا کفر و اسلام کا پہلو نہیں رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ میں جب اختلاف کی وہ شدت نہیں پائی جاتی ہے، تو بات کو وہاں تک پہنچا دیناکہ ملک کی مکروہ شبیہ غیروں کے سامنے آجائے، کہاں کی دانش مندی ہے۔
نماز قائم کرنا سب کے نزدیک فرض ہے، تودیگر امور میں وہ روش کیوں اختیار کی جائے کہ امت انتشار و افتراق اور باہمی نفرت و عداوت میں پڑ جائے ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نورو بشریا علم غیب جیسے مسائل ہیں ایک دوسرے کی بیک وقت تائید و تردید کرتے نظرآتے ہیں ۔ راقم سطور نے اس طرح کے اختلافی مسائل کا اصل کتابوں و تحریروں کی روشنی میں خاصا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ان میں بیان کردہ مسائل کے بجائے اختلافات کی جڑیں کہیں اور نظر آتی ہیں۔ علما ءبریلی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سےمطلقاً انکار نہیں کرسکتے ہیں، نہ علماء دیوبند ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت نورانیت کے منکر ہوسکتے ہیں، علم نبی اور علم غیب کے معاملے میں بھی بات ایسی نہیں ہے کہ جنگ و جدال کی شکل اختیار کرلے، نبی علیہ السلام کےلیے جتنے علوم کی ضرورت ہے، اس کاکوئی سنجیدہ دیوبندی عالم انکار نہیں کرسکتا ہے، جیسا کہ مولاناشبیر احمد عثمانی نے تحریر کیا ہے، اور کوئی بریلوی عالم سنجیدہ اور خدا ترس رہتےہوئے خدا کا سا علم اور لامتناہی علم نبی کے لیے ثابت کرسکتا ہے، جیسا کہ مولانا احمد رضا نے بار ہا لکھا ہے ۔ جھگڑا صرف دوسرے کےمنہ میں اپنی زبان ڈالنے کے سبب ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دوسرا، دوسرے کی بات کا معنی مطلب بنا کر اس پر اختلافات کیوں پیدا کرے۔ یہ تو اصول کے بھی منافی ہے کہ مصنف جو معنی و مطلب بتائے ،اس کا انکار کر کے خواہ مخواہ شوقِ تکفیر پورا کیا جائے۔ اگر اپنی بر تری کی سیاست کرکے خود کی جگہ بنائے رکھنے کا ذہن ختم کر دیا جائے تو ٓاختلافات کا وہ رنگ یقیناً ختم ہوجائے، جو عام طور پر نظر آتا ہے اور جس کا بھونڈا نظارہ پڑوسی ملک کے حوالے سےمختلف ویب سائٹوں پر دکھائی دیتا ہے ، اس میں بہت حد تک روزی روزگار کا مسئلہ ہے، دیوبندی مکتب فکر کےمشہور مناظر مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تجربات کے مد نظر تحریر کیا ہے کہ تقریباً چھ سات سال کے تجربہ کےبعد احساس ہوا کہ مناظرہ کا مروّجہ طریقہ بہت ہی غلط ہے۔ مناظرہ کرنے والے بالعموم پیشہ ور ہیں، انہوں نے اس کو اپنا پیشہ او رمعاشی ذریعہ بنا لیا ہے، حق و ناحق سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو شرک و بدعت کی تاریکی سے نکالنے اور ان کی اعتقادی اور عملی اصلاح کے لیے انبیاء علیہم السلام اور ان کے سچے نائبین کی طرح اخلاص اور دل سوزی کے ساتھ براہِ راست عوام پر ہی محنت ہونی چاہیے اور تحریر و تقریر میں ان ہی کو مخاطب کرنا چاہیے۔ ( حیات نعمانی، ص 592 تا 593 ، مطبوعہ الفرقان لکھنؤ)
مسلم سماج میں مناظرہ کا جو طریقہ رائج ہوگیا ہے کے دس بیس منٹ ہر فریق تقریر کرے، آریہ سماجیوں اور قادیا نیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے ، جس میں ان کو اپنی کمزوری چھپانے کاموقع مل جاتا ہے ، یہ بھی مولانا نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی لکھاہے ۔ یہ تو اچھا ہواکہ گزشتہ ڈھائی دہائی سے مروّجہ مناظر ے کا زور کم ہوا ہے، لیکن جدید ذرائع ابلاغ کی سہولت کی وجہ سے پھر یہ بیماری دوسرے رنگ ، آہنگ میں سامنے آرہی ہے۔امت کو اس سے بچانے کےلیے ہر مکتب فکر کے سنجیدہ او رملت کے بہی خواہ اہل علم وبصیرت کو آگے آنا چاہیے ، اگر کسی مسئلے میں اظہار ِ خیال و اختلاف ناگزیر ہوجائے تو اس میں عوام کو شامل نہ کیا جائے ، اور اس کی نوبت نہ آئے کہ معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ جائے، کیا عوام ایسی فہم رکھتے ہیں کہ امکان نظیر، امتناع نظیر اور خلف و عید باری تعالیٰ جیسے دقیق مسائل سمجھ لیں ، اور اللہ ، رسول کی مطلوبہ عظمت و تقدس بھی باقی رہے، وقت کا تقاضا ہےکہ تمام مکاتب فکر والے ہوش کا ناخن لیں، اور پر تشدد مسلکی اختلافات کے زہر سے عوام کو بچانے کی ایماندارانہ کوشش کریں۔
21 مئی، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/where-violent-sectarian-differences-lead/d/11738