ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
30اگست،2024
وطن کی حیثیت ایک محفوظ قلعہ کی مانند ہے جو اس کے رہنے والوں میں دو بنیادی احساس پیدا کرتاہے۔ پہلاآپسی یکجہتی کا اور دوسرا وقت پڑنے پر ایک دوسرے کے لئے کھڑے ہونے کا۔ یہ قلعہ سب کا ہوتاہے، اس میں سب کی حیثیت ذمہ داریاں، حقوق وفرائض یکساں ہوتے ہیں۔سب ا س کے مشترکہ مالی و محافظ ہوتے ہیں۔ البتہ جو اندر باہر سے اس کی جڑوں کو کھودنے کی کوشش کرتاہے ہم ایک قومی وحدت بن کر اس کو اپنامشترک دشمن سمجھتے ہوئے اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح سینہ سپرہوجاتے ہیں۔
آج کا بھارت جس کو میں نے ایک قلعہ سے تعبیر کیاہے اس کی فیصلوں کو منافرت کی دیمک لگنی شروع ہوگئی ہے۔ یاد رکھیں دیمک بنیاد کھاتی ہے، جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہے اور اگر بروقت اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ قلعہ اچانک دھڑام سے گر جاتا ہے۔ وطن عزیز ہندوستان ہماری مشترکہ آن، بان اورشان ہے۔یہ ہماری وہ شناخت ہے جس سے دنیا ہمیں جانتی و پہچانتی اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کی عظمت،بلندی،اقتدار اعلیٰ، قومی ادارے،امن وامان، ترقی کا عمل، تحفظ، سفارت کاری، باہمی رشتے و تعلقات یہ سب مل کر اسے ایک خوبصورت گلدستہ بناتے ہیں۔ جس میں ہر بیج کو پودھا،پھر پیڑ بن کر ابھر نے کا مساوی موقع رہتاہے۔ لیکن اگر عدل وانصاف کے حوالے سے تعصب او راحساس محرومی کا تصور معاشرے میں جنم لینے اور جڑپکڑنے لگے تو ا س بیماری کوجنم دینے والے تو اپنا عمر پوری کرکے چلے جاتے ہیں، مگر سالہا سال او رکبھی تو صدیاں تک حالات کی استواری اوربحالی کاعمل قوموں کی زندگیاں کھا جاتا ہے۔ آج رومن، یونان کہاں ہیں؟
جمہوریت میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں، اس کا سب سے ہولناک پہلو اعدادی کثرت رائے ہے جس میں شماریات کرشماتی طور پر صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کرنے پر قادر رہتے ہیں۔51کی تعداد 49 حق کو ناحق، ظلم کوعدل، تعصب کو مساوات، حصے داری کو نئے مفہوم اور شراکت کو من پسند معنی، دن کو رات اور رات کو دن کہنے،کہلوانے اورمنوانے تک پر قادر رہتی ہے۔ بہترین نسل گھوڑے دوڑ میں آگے نکلنے پر قادر ہوتے ہوئے بھی 51 حاشیہ برداروں کے آگے آئین کی رو سے مات کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جب کہ ریاست او را سکی قیادت کی ہی نہیں بلکہ انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا اور تمام رسمی وغیر سرکاری وحدتوں کی تعریف اور آئینی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ملک کاہر شہری وطن عزیز کو اپنی مشترکہ ملکیت ہی نہ سمجھے بلکہ اس میں وہ احساس وجذبہ حب الوطنی پیداکردے جو تعمیر وطن کی ضامن بن جائے۔اتنی تمہید اس لئے ضروری تھی کہ متعلقہ فریقین کو بات اس طرح پہنچے جس سے نہ صرف طرز فکر متاثر ہوبلکہ منطق اپنے دلائل سے ذمہ داروں کو کئی مسائل پر نظرثانی کے قائل کر دے۔ اس وطن عزیز میں 25 کروڑ کی مسلم آبادی ہے جو دنیا میں مسلمانوں کی کسی ایک ملک میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ ابوالکلام سے عبدالکلام اور نگار شاجی تک جو آدتیہ۔ایل۔1 پروجیکٹ کی ڈائریکٹر ہیں، سپلا سے وپرو تک ہماری ایک زندہ تاریخ ہے۔ وپرو اس ملک میں فلاحی سرگرمیوں میں تنہا سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ بریگیڈیئر عثمان سے حولدار حمید، اینٹارکٹیکا کوجانے والی مہم کے لیڈر سائنسدان ڈاکٹر ایس زیڈ قاسم، ایم ایف حسین سے برڈ مین سلیم علی، ہمارے خفیہ ادارے آئی بی کے چیف ابراہیم،بڑے غلام علی خاں سے استاد امجد علی خان، یوسف خان(دلیپ کمار) سے شاہ رخ خان،نوشاد علی سے اے آر رحمان، محبوب خان سے ناصر حسین، علماء کی تقسیم ہند کی مخالف سے کارگل کے جانثار وں تک،اس سنہری تاریخ کے ساتھ ہم پر شک وشبہ،فسادات کی ایک طویل تاریخ، تعصب اور فرقہ واریت کی ان گنت داستانیں، ہم غیر منظم اقتصادی سیکٹر کی ریڑھ کی ہڈی اور دہشت گردی سے کوسوں دور ایک پر امن معاشرہ، پھر ایسا کیوں؟ مغلوں کے مظالم کابڑا ذکر ہوتا ہے۔ 25فیصد جی ڈی پی، راجپوت، کائست اورمغل تینوں کی اقتدار میں پوری شراکت کے دور کو خالص مندروں کے توڑنے والا بتا دینا اور اسی کی ترویج وتشہیر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ایودھیا میں سینکڑوں مندروں کی اسی دورمیں تعمیر، تمام مٹھوں، پیٹھوں، دھاموں، ہندو مذہبی مقامات اور شہروں کابدستور باقی رہنا، مسلم بادشاہوں کاہندو خواتین سے شادیاں اوراولادیں، نسلوں کایہیں کا ہورہنا،لوٹ کر انگریزوں کی طرح کچھ نہ لے جانا، پہلی جنگ آزادی کی قیادت، خلافت تحریک کا آزادی کی تحریک میں ضم ہوجانا۔ یہ تاریخ کب اکثریتی نوجوانوں کو پڑھائی جائے گی؟ مجھے اس دور کے مظالم یا ناانصافیوں سے انکار نہیں،مگر ان میں مسلمان بادشاہ جتنے شریک ہیں راجپوت اور کائست بھی اتنا ہی ہیں؟ اقتدار اور فیصلوں میں یہ تینوں برابر کے شامل ہیں۔
ابھی ہم ہجومی تشدد، فرقہ واریت،ائمہ کی بے حرمتی،مساجد کے انہدام، خانقاہوں کی پامالی، معاشرتی نابرابری کے واقعات سے جو جھ ہی رہے تھے کہ بلڈوزنگ نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا،یہ عمل بند نہ ہوا تھا کہ بات توہین رسالت اور قرآن پر آگئی، پھر عزت نفس و ناموس ملت اور اب عصمت دری تک آپہنچی ہے۔ اس بے لگامی اور بے راہ روی سے آخر ہم من حیث القوم وملک کس سمت کا اپنے لئے تعین کررہے ہیں۔ یہ سب دانستہ ہے یا بالواسطہ؟ کسی ہدف کے تحت ہے یا محض وقتی سیاسی فوائد یا ناقص انا کی تسکین کے لئے ہورہاہے؟
آج کل ملک کے کئی حصوں سے زنابالجبر کے واقعات کی خبریں آرہی ہیں۔ یہ انتہائی غیر انسانی وحیوانی عمل رکنے کانام ہی نہیں لے رہا! کولکتہ سے دہرہ دون اترا کھنڈ او رابھی چند روزقبل غازی آباد تک یہ حیوانیت کی گئی۔ یادر کھیں مجرم کا مذہب نہیں ہوتا اسی طرح مظلوم کا بھی مذہب نہیں ہوتا! ایک واقعہ پر پورا ملک، میڈیا، سیاست وسیاستدان اور تمام معاشرہ ایک ہوکر آواز اٹھاتا ہے مگر دوسرے پر جہاں ظلم اس حد تک کیا جاتاہے کہ متعدد لوگ زنا بالجبر کرتے ہیں، متاثرہ کے جسم کے اعضاء کو کاٹ ڈالتے ہیں، منہ پر تیزاب ڈالتے ہیں۔ اس پر چوطرفہ خاموشی، کیونکہ وہ مسلم خاتون ہے۔ یہ عمل ایک بڑی قومی اکائی میں احساس محرومی پیدا کررہا ہے۔
قلعے کے باشندوں اورمحافظوں میں تفریق، تعصب اور فرقہ واریت کی داستان رقم کیوں کی جارہی ہے؟ مسلمان جائز بات پر بھی اگر احتجاج کرے تو اس کے گھرو ں کو چوبیس گھنٹوں میں زمین بوس کردیا جاتا ہے۔ یاد کریں ہریانہ میں جاٹوں نے جو ہڑدنگ مچایا تھا جس میں ہزارہا کروڑ کی سرکاری وغیر سرکاری املاک کا نقصان ہوا، راجستھان میں گوجرو ں کے احتجاج سے کتنا سرکاری املاک کو نقصان ہوا، جیسی کتنی اور مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایک طرف سے مکمل نظر پوشی او ر دوسری طرف فوری انہدامی کا رروائی جس سے محرومی کا احساس پیدا ہوتاہے۔ میں بات کوکہاں سے کہاں لیکر آیا ہوں، یہ دانستہ ہے۔ ایک محب وطن ہونے کے ناطے کسی پر الزام تراشی کے بغیر، کسی کو اپنا مخصوص ہدف بنائے او رکسی کو بچائے بغیر میں نے زمینی حقائق اپنے قاری اورمتعلقہ فریقین کے سامنے رکھے ہیں، سب کو ان حوالوں سے ادراک اور سنجیدہ محاسبے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو یہیں رہنا ہے، ساتھ رہنا ہے، اب کسی تقسیم وطن کیلئے زمین نہیں! مت بھولئے ملک کی سلامتی، ترقی، امن وامان کا تعلق آئین اور قانون کی منصفانہ اور عادلانہ حکمرانی سے راست ہے۔
مذہبی منافرت گھر گھر پہنچ رہی ہے۔ ابھی وقت ہے سب کو سرجوڑ کر بیٹھنے کا! جس گھر میں آگ لگتی ہے بائیں اور دائیں کاپڑوسی اس سے بچ نہیں پاتا! ابھی بہت کچھ مثبت باقی ہے! سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جو ٹی آر پی کا کھیل چل رہا ہے، آج نفرتوں سے ہمارے تعلیمی ادارے، بازار، دوکان، کھیتی باڑی، سرکاری وغیر سرکاری ادارے، پڑوس، بستیاں، آپس کے تعلقات اور رشتے سب اس آگ میں آہستہ آہستہ جھلستے جارہے ہیں۔25کروڑمسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اکیلی اکائی ہے بالکل اسی طرح جیسے بقیہ 100 کروڑ۔ ہم ایک دوسرے کے بارے میں صحیح معلومات رکھیں۔ ایک دوسرے کے بازو بنیں۔ اس قلعہ ہند کو دیمک یا گہن نہ لگنے دیں۔ یہ ہے تو ہم سب ہیں۔ سلام تحسین ہے ان قائدین اور جان نثار ان وطن کو جن کی بدولت ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی اورتیز معیشت بن کر ابھر ے ہیں۔ اب وقت مل کر آگے بڑھنے کاہے۔ نند بھاوجوں، ساس بہوؤں اور ایک دوسرے سے دشمنوں جیسے برتاؤ کا نہیں،بلکہ ایک پریوار او ر ایک خاندان بن کر چلنے کا ہے۔ یادرکھیں ملک اندر سے بنتے ہیں اور اندر سے ٹوٹتے ہیں۔ جوڑ میں سب کچھ مثبت وتعمیری ہے اور توڑ میں جو حاصل ہے وہ بھی ہم گنوا بیٹھتے ہیں۔
30اگست،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/when-come-senses/d/133084
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism