وسیم راشد
28جون، 2012
ایک اور نیا مسئلہ مسلمانوں
کے لئے تنازع کا سبب بن گیا ہے کہ15 سال کی مسلم لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا
حق ہے کہ نہیں۔پندرہ سال کی لڑکی جو جسمانی طور پر بالغ تو ہوجاتی ہے مگر اس کومل پودے
کی طرح ہوتی ہے جو پھل تو دیتا ہے مگر اس پودے کی ٹہنیاں بوجھ سے دب جاتی ہیں،مرجھا
جاتی ہیں اور کبھی کبھی ٹوٹ بھی جاتی ہیں ۔ ابھی حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک
اہم فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ 18 سال سے کم عمر میں شادی سے متعلق ہے۔دراصل ایک مسلم
فیملی نے گزشتہ سال کورٹ میں عرضی دی تھی کہ اس کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے،لیکن جب
لڑکی سامنے آئی تو پتہ چلا کہ یہ معاملہ اغوا کا نہیں ہے بلکہ والدین کی رضامندی کے
بغیر شادی کرنے کا ہے۔ لڑکی کی عمر اس وقت صرف 16 سال کی ہے اور اس نے اپنی مرضی سے
شادی کرنے کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ عدالت سے گزارش کی کہ اسے شوہر کے ساتھ رہنے کی
اجازت دی جائے۔
یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ
اور غور طلب تھا۔ ملک کا آئین اٹھارہ سال سے کم عمر کی بچی کو نابالغ تسلیم کرتا ہے
جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈبلوغت کا معیار حیض کو مانتا ہے جو عام طور پر پندرہ سال میں
شروع ہوجاتاہے۔معزز کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کو مد نظر رکھتے ہوئے اس لڑکی کو شوہر کے
ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے ۔ اس فیصلے نے
پوری دنیا میں ہمارے ملک کی جمہوریت اور آئین کی برتری کا پیغام دیا ہے ساتھ ہی اس
فیصلے میں ان لوگوں کے لئے ایک لطیف اشارہ بھی ہے جو لوگ یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے
ہیں کہ ان کا یہ مطالبہ غلط ہے کیونکہ یہاں مختلف مکتبہ فکر و مذہب کے لوگ بستے ہیں
اور کسی ایک کے مذہبی احکام کو دوسرے کے اوپر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عرصہ سے ملک
کے اندر کچھ فرقہ وارانہ تعصب رکھنے والی تنظیمیں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کررہی ہیں
مگراس فیصلے نے ان تنظیموں کو اشارہ دیا ہے کہ ان کی سوچ ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور
یہاں یکساں سول کوڈ کا تصور ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔
ہائی کورٹ اگر شریعت کا خیال
کرکے فیصلہ دیتی ہے تو یقینا مذہب اسلام کے تمام اہم نکات اس کے سامنے رہے ہوںگے ۔
آج کے سماج کی تمام تر ضروریات ، مختلف عمر کی پریشانیاں، جسمانی ساخت غرض ی کہ ویسے
ہی کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہوگا۔یہاں ایک اور بات بہت ضروری ہے کہ قدرت اگر پندرہ
سال کی لڑکی کو نسل بڑھانے کی مجاز ٹھہراتی ہے تو پھر اس میں بحث کرنے کی گنجائش نہیں
ہے مگر ایک پہلو پر بات کرنی بہت ضروری ہے ۔کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ درست ہے اور جو
لوگ کم عمر میں شادی نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اس کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتاہے
لہٰذا یہ ذمہ داری والدین کی بنتی ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کی بچی اس پوزیشن میں ہے
یا نہیں کہ خانہ داری کی ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں ۔
عام طور پر جنوب ایشیا کی
لڑکیاں پندرہ سال کی عمر میں اس قابل نہیں ہوتی ہیں کہ وہ ماں بن سکیں یا خانہ داری
کو سنبھال سکیں یا دیگر شادی شدہ زندگی کی باریکیوں کو سمجھ سکیں لہٰذا اس فیصلے کو
بنیاد بنا کرلڑکیوں کے ساتھ نا انصافی نہ کی جائے۔پہلی بات تو یہ کہ پہلے زمانے میں
ہر کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہیں ہوتی تھی، جسم مضبوط ہوتے تھے اور آپ نے اس
دور کی عورتوں کو ضرور دیکھا ہوگا کہ ان کے 9,8 بچے ہونا تو معمولی بات تھی۔ان کی شادیاں
بھی 14,13 سال کی عمر میں ہوجایا کرتی تھیں۔ہماری والدہ خود بتاتی تھیں کہ 14 سال کی
عمر میں وہ ماں بن چکی تھیں مگر اس وقت کی کھان پان بھی زبردست تھی۔ سارے گھریلو کام
گھر کی لڑکیاں اور عورتیں اکیلے کرتی تھیں ۔ محنت مشقت کوئی خاص ہنر نہیں مانا جاتا
تھا۔عورتیں گھر میں چکی پیس کر، مسالہ پیس کر خود ہی کھانا پکاتی تھیں مگر سوسائٹی
بدلتی گئیں اور اس وقت جو سماج ہمارے سامنے ہے وہ ہے وہ سماج جس میں ہر چیز میں ملاوٹ
ہے، مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔ دیسی گھی لڑکیوں کو دیکھنے کو نصیب نہیں ۔ پھل کھانا
صرف امیروں کے چونچلے رہ گئے ہیں۔ایسے میں ان غریب بچیوں کے جسم کیا پنپ پائیں گے اور
پھر اس پر اس دوڑتی بھاگتی زندگی کا ساتھ دینا، فیشن کی وجہ سے پتلے رہنا، پڑھائی کا
بوجھ اور بے تحاشہ مقابلہ جاتی زندگی۔ کیا اس دور میں پندرہ سال کی بچی اس لائق ہوپاتی
ہے کہ وہ شادی کا بوجھ اٹھا سکے۔ اس عمر میں لڑکیاں دبلی پتلی معصوم کمزور سی نظر آتی
ہیں۔جب وہ اسکول جاتی ہیں ، دیکھئے ان کو اسکول یونیفارم میں لگتا ہے چوتھی پانچویں
جماعت کی بچیاں ہوں جبکہ پندرہ سال کی لڑکی آٹھویں یا نویں جماعت میں ہوتی ہیں۔کیا
آپ نے عصمت دری کے کیس نہیں دیکھے۔ نابالغ بچی کی اگر خدا نخواستہ عصمت دری کی جاتی
ہے تو وہ کتنے دن اسپتال میں موت و زندگی کی کشمش سے لڑتی ہے؟۔اس دور میں پندرہ سال
کی بچیاں جسمانی طور پر بے حد کمزور ہوتی ہیں اور جسم کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی بھی
نہیں ہوتی ہے۔ شادی ہونے کے بعد بے شمار رشتے بندھتے چلے جاتے ہیں۔ساس ، نند، دیور
، بھابی اور خود ماں بننے کے بے شمار مراحل اس معصوم کو جکڑتے جاتے ہیں ،ایسے میں وہ
ہر طرف سے ماری جاتی ہے۔
پندرہ سال کی بچی اپنی ماں سے بے
حد نزدیک ہوتی ہے اور اسے ہی اپنا تحفظ کا ذریعہ مانتی ہے۔اس عمر میں وہ اپنی ماں کے
آنچل سے نکلنا بھی نہیں سیکھ پاتی،البتہ جب وہ کالج جانے کی عمر میں پہنچتی
ہیں تو ان میں خود اعتمادی آتی ہے ۔اگر چھوٹی عمر میں تعلیم سے محروم کرکے گرہستی
میں الجھا دیا جائے تو وہ بڑی نا انصافی ہوگی۔یہی نہیں اس کی صحت کے ساتھ بھی ناانصافی
ہوگی۔اطباء کہتے ہیں کہ کم عمر کی لڑکی کے لئے حمل بے حد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ
وہ نادان ہوتی ہے ۔ خود اس کے کھیلنے ،کودنے کی عمر ہوتی ہے ایسے میں وہ اپنا دھیان
نہیں رکھ پاتی اور اس طرح کئی بار حمل ساقط ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کی تنظیم
فورم فار افیکٹ فائنڈنگ ڈاکیومینٹیشن اینڈ
ایڈووکیسی (ایف ایف ڈی اے) کے ڈائریکٹر سبھاش مہاتیرا کا کہنا ہے کہ کم عمر کی لڑکیوں
کا جسم بچے پیدا کرنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتا اور اسی لئے اس عمر کا حمل مہلک
ثابت ہوسکتا ہے اور ان لڑکیوں کو Obstetric Fistula ہوسکتا ہے جو درد زہ سے ہوتا ہے ۔اگر کئی دن تک یہ
درد رہے تو ایسے میں اور پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور بچے کی موت بھی ہوسکتی ہے اور
عورت ہمیشہ کے لئے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم بھی ہوسکتی ہے۔دہلی سے جاری ہونے
والے بین اقوامی سینٹر فار ریسرچ آن ویمن اسٹڈیز کے مطابق کم عمر کی لڑکیوں کی اگر
شادی کردی جائے تو وہ بے شمار امراض کا شکار ہوجاتی ہیں اور پیدائش کے وقت ان کی موت
بھی ہوجاتی ہے۔دراصل کم عمر میں شادی کرنے کی رسم آج بھی اس ملک میں باقی ہے اور اس
میں پاکستان، ایران ، افغانستان یہ سبھی ممالک شامل ہیں۔ غربت کی وجہ سے لڑکیوں کو
بوجھ تصور کرتے ہوئے جلد سے جلد چھٹکارہ پانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اگر ان بچیوں کی
آبیاری کی جائے،ان کو سینچا جائے ،ان کو بڑھنے دیا جائے تو ایہ ایک ایسا تناور درخت
بن سکتی ہیں جس کے پھل نہایت میٹھے اور تا دیر ہرے بھرے رہیں گے۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا
ملا جلا رد عمل ہے ۔زیادہ تر مسلم لیڈرس پورے ملک میں اس فیصلہ کی ستائش کررہے ہیں
کیونکہ یہ شریعت پر مبنی ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس کی مخالفت بھی کررہے ہیں۔اس فیصلے پر
اعتراض کرنے والوں کا کا کہنا ہے کہ جب قانونی عمر 18 سال ہے تو پھر اس فیصلے کا کیا
جواز ہے۔ان کی بات ایک حد تک جائز ہے کیونکہ 18 سال کی عمر یقینا بہت سوچ سمجھ کر طے
کی گئی ہوگی اور ان کا یہ کہنا کہ بہت سی بچیاں تو 12 سال کی عمر میں ہی حیض کے مرحلے
سے گزرتی ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ انکی اسی عمر میں شادی کردی جائے۔ بہر کیف ہم
پھر یہی کہیں گے کہ اس فیصلے کو ہرگز ہرگز بنیاد نہ بنایا جائے اور بچیاں چاہے جس مذہب
سے بھی تعلق رکھتی ہوں ان کے کومل وجود کو تناور درخت بننے دیجئے۔ کورٹ نے آپ کی شریعت
کا احترام کیا مگر آپ اپنی بچیوں کا خیال کیجئے، ان سے ان کے بچپن کو نہ چھینئے۔ انہیں
اپنی مرضی سے کھیلنے کودنے پڑھنے اور اپنے وقت سے بڑی ہونے دیجئے۔یہ بچیاں کل کا ہندوستان
بنائیں گی۔اسلامی قوانین پر عمل کرنے والی بھی یہی بچیاں ہیں جو جب مائیں بنتی ہیں
تو شریعت کو مضبوط کرتی ہیں۔ آج جس طرح مسلم بچیاں ترقی کی دوڑ میں شامل ہیں وہ اس
بات کی علامت ہے کہ وہ کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔شادی تو ایک عمر میں ہوہی جاتی
ہے۔ہاں بے راہ روی سے بچانے کے لئے انہیں دینی تعلیم دیجئے۔ ان کو شرم حیا اور با کردار
والی خواتین کے قصے سنائیے ،ان کو زمانے کے سرد گرم کے بارے میں بتاتے رہئے تاکہ وہ
اپنا دل و دماغ خرافات میں نہ لگا کر صرف اور صرف پڑھائی میں لگائیں اور اپنا مستقبل
بہتر بنائیں۔
مصنفہ اردو چوتھی دنیا کی
ایڈیٹر ہیں
بشکریہ: چوتھی دنیا (اردو)
URL: