وسیم اقبال، نیو ایج اسلام
30 جولائی 2015
اس وقت میں جس شہر کا دورہ کر رہا ہوں وہاں پورے شہر میں لوگوں نے سابق ہندوستانی صدر اے پی جے عبدالکلام کے انتقال کے اعلان کے فوراً بعد ان کی تصاویر کے بڑے بڑے پوسٹر اٹھا کر ان کے انتقال پر اپنے غم و اندوہ کا اظہار کیا۔ ان میں سے بہت لوگ جھگی، جھوپڑیوں اور ادنی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے۔ شاید لوگوں نے مرحوم کے احترام اور محبت کے اظہار میں ان تصاویر کا انتظام کرنے کے لیے روپے جمع کیے ہوں گے۔ ظاہر ہے، عبدالکلام عوام کے صدر تھے جن کو معاشرے کے اس غریب و پسماندہ طبقے کے ساتھ گہرا ربط اور لگاؤ تھا جس سے وہ خود اٹھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کے سب سے زیادہ مقبول اور معزز رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
مرحوم ہندوستانی صدر کا نام ظاہراً 'مسلم' نام تھا، لیکن اس کے باوجود پر ذات پات ، طبقے اور مذہبی پس منظر سے قطع نظر ہندوستان کی ایک بہت بڑی اکثریت نے انہیں عزت و محبت اور احترام سے نوازا ہے۔ لہٰذا، اس سے ظاہر ہے کہ (بعض مسلمانوں کے تصور کے برعکس) 'مسلم' ہونا اپنے آپ میں خود دیگر مذہب کے پیروکاروں کی محبت، ان کا احترام اور لوگوں کے دلوں کو جیتنے کا کوئی مستقل اور ناقابل مسخر رکاوٹ نہیں ہے۔
آج مسلمانوں کے درمیان صرف مسلم مخالف تعصب اور اسلام کے بارے میں منفی خیالات ہی نہیں بلکہ دوسرے ان امور پر بھی بڑی تشویش پائی جا رہی ہے اور وہ عنوان موضوع سخن بنے ہوئے ہیں جنہیں حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں بڑی مقبولیت ملی ہے۔ اس مسئلے پر گہری تشویش رکھنے والے بہت سے مسلمانوں کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس مسئلہ کو فوری طور پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے تاکہ وہ اسلام کے بارے میں اپنے تحفظات اور غلط تصورات کا تصفیہ کر سکیں؛ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر و بیانات کو قابل سزا قرار دینے کے لیے ریاستوں سے اپیل اور موجودہ انسداد تعصب قانون (anti-discrimination laws) میں 'اسلامو فوبیا' کو بھی شامل کرنے کے لیے حکومتوں سے درخواست جیسے بہت سارے اقدامات کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
مسلمانوں کی جانب سے اس طرح کے مطالبات کے باوجود مسلم مخالف جذبات کا بھڑکایا جانا جاری ہے۔ اس کی وجہ جاننا مشکل نہیں ہے۔ 'مسلم مخالف جذبات' اور 'اسلامو فوبیا' میں ایک بڑی تعداد میں خود مسلمانوں کے خیالات و نظریات اور رویوں کا دخل ہے، جو خود آج دنیا بھر میں 'مسلم مخالف جذبات' اور 'اسلامو فوبیا' کی ایک سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وہ مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو آسانی کے ساتھ پوری دنیا پر موروثی اور پیدائشی طور پر 'اسلامو فوب' مانتےہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
در حقیقت غیر مسلموں کے درمیان بڑے پیمانے پر پھیلنے والے مسلم مخالف اور اسلام مخالف جذبات کی جڑ وہ ہولناک اور وحشت نات انسانیت سوز جرائم ہیں جن کا ارتکاب مختلف ممالک میں خود ساختہ 'اسلامی' تنظیمیں کر رہی ہیں۔ خواہ وہ غیر مسلم اقلیتوں پر ظلم و ستم ہو، خواہ بہت سے مسلم اکثریتی معاشروں میں مروج صنفی نا انصافی یا تقریبا ہر مسلم اکثریتی ملک میں متشدد سیاسی کلچر اور وحشیانہ و آمرانہ سیاسی نظام ہو، خود ساختہ 'اسلامی مجاہدین' کی جانب سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے جن میں بے شمار قیمتی جانیں گئی ہیں، یا عالم اسلام کے ایک بڑے حصے میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی اور جنگیں، اور اسلام کے نام پر ایسے مسلمانوں کی جانب سے انجام دیے جانے والے معاصی اور انسانیت سوز جرائم غیر مسلموں کے درمیان اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے پھیلنے والے منفی رجحانات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اور جیسے جیسے اسلام کے خود ساختہ مجاہدین اپنے معاصی اور انسانیت سوز جرائم میں اضافہ کرتے جائیں گے اسی طرح ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
ان حالات کے پیش نظر نفرت انگیز تقریر کے خلاف کوئی قانون یا غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں آگاہ کرنے کے مقصد سے تیار کی گئی کوئی کتاب یا کوئی خطاب، جن کا مطالبہ کچھ روایتی مسلمان کرتے ہیں، ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کو ختم کرنے میں کوئی خاص معاون نہیں ہو سکتے ، جو کہ اسلام کے نام پر کچھ مسلمانوں کے خود اپنے اعمال کی بدولت ایک مروج رجحان کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اب عالمی سطح پر جن کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام مجوزہ اقدامات ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کی جزوی تشخیص پر مبنی ہیں۔ اس سے ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کا صرف دوسرے مذاہب کے لوگوں کے درمیان اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا نتیجہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
ان توضیحات میں آسانی کے ساتھ اور مکمل طور پر ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' میں مسلمانوں کے کردار کی نفی کی گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کہا جائے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے خود ساختہ مجاہدین کی جانب سے انجام دیئے جانے والے بے شمار وحشت ناک اور انسانیت سوز جرائم سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دوسروں کے افکار و نظریات پر بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کے فروغ میں خود ساختہ مجاہدین ہونے کا دعویٰ کرنے والے مجرموں کی جانب سے اسلام کے نام پر انجام دیئے جانے والے بے شمار وحشت ناک اور انسانیت سوز جرائم کے کلیدی کردار کے انکار سے، ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔
دوسرے مذہبی پیروکاروں سے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کو تبدیل کرنے کی اپیل کے ذریعہ ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے مسلمانوں کو دوسروں کے تئیں اپنے خیالات اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ایک ایسا واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ دوسرے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے خیالات کو بدلنے اور ان کے ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی کی شروعات کر سکتےہیں۔ جسے قرآن نے خوبصورتی کے ساتھ اس آیت میں ذکر کیا ہے، ‘‘بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں’’ (13:11)۔
یہ ایک بنیادی، مستحکم اور آفاقی قانون ہے کہ آپ کو وہی ملے گا جو آپ دوسروں کو دیں گے۔ اگر آپ دوسروں سے نفرت کرتے ہیں، تو آپ کو اس کے بدلے میں ان سے نفرت ہی ملے گی۔ اگر آپ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو وہ بھی آپ کو حقیر سمجھیں گے۔ اگر آپ دوسروں کی مدد نہیں کرتے تو دوسرے بھی آپ کی مدد نہیں کریں گے۔ اگر آپ دوسروں کے ساتھ روابط استوار نہیں کرتے تو دوسرے بھی آپ کے ساتھ روابط استوار نہیں کریں گے۔ اگر آج بہت سے مسلمانوں کو یہ لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ان کو نفرت اور شک کی نظر سے دیکھتے ہیں توانہیں یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے بھی دوسروں کے ساتھ بالکل یہی سلوک کیا ہے۔ اور انہیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ یہ چاہتےہیں کہ دوسرے لوگ ان کے متعلق اپنے نظریات میں تبدیلی پیدا کریں تو سب سے پہلے انہیں دوسروں کے متعلق اپنی سوچ اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔
قرآن کا فرمان ہے: "اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے" (42:30)۔ لہٰذا، اس قرآنی آیت کی روشنی میں، مسلمانوں کو ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کے فروغ میں ان کے اپنے کردار کا احتساب کرنا ضروری ہے۔ آج مسلمان جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے باہر آنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے ۔
اگر مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کا خیال رکھیں تو سب سے پہلے انہیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور ان کا خیال رکھنا چاہیے، اور ضرورت پیش آنے پر انہیں یکطرفہ طور پر بھی ایسا کرنا چاہیے۔
اگر مسلمان دوسروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں اسلام ہمدردی کا مذہب ہے تو سب سے پہلے انہیں اسلام کے بارے میں اپنی فہم و فراست اور اپنے آپسی معاملات اور دوسروں کے ساتھ معاملات کے طریقہ کار سمیت اپنے خیالات اور رویوں کو بھی ہمدردی کا مظہر بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر مسلمان دوسروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں اسلام کا موقف امن اور محبت ہے تو سب سے پہلے انہیں آپس میں اور دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے کی ضرورت ہے۔ اور انہیں بر ملا اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ اسلام وہ نہیں ہے جو داعش، بوکو حرام، طالبان، القاعدہ، لشکر طیبہ، اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیمیں پیش کر رہی ہیں۔
اگر مسلمان دوسروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں اسلام انصاف کی بات کرتا ہے اور یہ ناانصافی کے خلاف ہے تو انہیں خواتین سمیت دوسرے کے ساتھ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے۔ انہیں اس امر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کے لوگوں کے تئیں نفرت، فرقہ وارانہ تعصب، دہشت گردی اور دشمنی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
مسلمانوں کو رحمت، مہربانی اور ہمدردی کے اس مذہب کی تجدید و احیاء کرنے کی ضرورت ہے جس کی تعلیم دینے کے لیے اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کیا تھا۔ خدا ان سے یہی چاہتا ہے۔ صرف اسی صورت میں دوسرے لوگوں مسلمانوں سے محبت اور ان کا احترام کرنا شروع کر سکتے ہیں۔
قرآن (21:107) میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:
"اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔"
ایک رحم دل نبی کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھی رحم دل ہونا ضروری ہے۔ اس رحمت کی جھلک دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ان کے معاملات سمیت اور ان کے رویے میں بھی ظاہر ہونی چاہیے۔
مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ اپنے طرز حیات سے یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس دین رحمت میں بم دھماکوں، بے گناہ لوگوں کے قتل عام، عورتوں پر ظلم و ستم، اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے اور ان سے نفرت کرنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا، یہ تمام انسانیت سوز جرائم جو اسلام کے خود ساختہ دفاع کرنے والے اسلام کے نام پر انجام دے رہے ہیں، دنیا بھر میں عالمی سطح پر ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' کے پھیلاؤ میں اہم عناصر اور محرک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ سے سرشار ہو کر مسلمانوں کو مسلسل، محبت، رحم دلی، تشویش، دیکھ بھال، حقیقی خیر خواہی اور خدمت کے جذبے کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ اسلام انہیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس کے بعد پھر اس انسان کی طرح جو ایک غربت زدہ مسلم خاندان سے اٹھا اور ہندوستان کا صدر بنا اور دوسرے مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے دلوں کو جیتا، اگر انہوں نے بھلائی اور محبت پھیلایا اور خود کو ان لوگوں کا ایک اثاثہ ثابت کیا تو انہیں بھی دوسروں سے محبت، خیر سگالی، عزت و احترام حاصل ہو گا۔ اس کے بعد انہیں اس بات کا بھی علم ہو گا کہ ‘مسلم مخالف جذبات’ اور 'اسلامو فوبیا' سے نمٹنے اور اسلام اور مسلمانوں کی ایک معزز اور محترم شبیہ تیار کرنے میں دوسروں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہی تھا۔
URL for English article: https://newageislam.com/muslims-islamophobia/addressing-‘anti-muslimism’-‘islamophobia’/d/104095
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/addressing-‘anti-muslimism’-‘islamophobia’-/d/104114