وسیم احمد رضوی
29 مئی ، 2013
جن نفوس قدسیہ نے اپنی آنکھوں سے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور حالتِ ایمان پہ اس دنیا سے وصال کیا، انہیں اصطلاح میں صحابی رسول کہتے ہیں ۔ اللہ حبیب مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مشن کو جن جاں بازوں نے نصف صدی کے اندر اکنافِ عالم میں پہنچا یا، اسلام کے نغمۂ توحید و رسالت سے کفر ستان کے درو دیوار کو زیرو زبر کیا، جنہوں نے وفاداری اور وفا شعاری کی وہ مثالیں دنیا کے سامنے پیش کیں جس کا جواب آج تک کسی قوم جماعت یا تہذیب نہیں دے سکی ، جن کو ششوں سے سجدے آوارہ ہونے سے بچے، اخلاقی اقدار رسوا ہونے سے بچے ، آدمی کو انسانیت کا درس ملا، اچھے برے کی تمیز ہوئی ، تہذیب و معاشرت میں سدھار پیدا ہوا ، اسی جماعت کو صحابۂ کرام کی مقدس جماعت کہتے ہیں ۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین!
اسلامی تعلیمات اور تاریخ شاہد ہے کہ اصحاب رسول کو ہر دور میں اہل ایمان نے عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا ۔ ان کے مقام بلند اور عظمت و شان کے آگے مسلمانوں کی گردنیں ہر دور میں جھکی رہیں ۔ ان سے محبت و الفت اور عقیدت کو نشانِ ایمان بتایا او رمانا گیا ۔ ان سے عداوت اور بغض کو نفاق و گم راہی کی علامت تصور کیا جاتا ہے ۔ احادیث میں اس کی تعلیم دی گئی۔ وہ ہر دور میں اہل ایمان کے لیے مقدار و پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان کے اقوال حجت ، ان کے افعال دلیل اور ان کے وجود کو باعث خیر و برکت ہی جانا جاتا ہے۔ روافض کے علاوہ شاید ہی کوئی شقی القلب فرد یا فرقہ ہو جو ان کی عظمت و شان کا منکر ہو او ران کی بارگاہ کا جریح و گستاخ ہو۔
تاریخ اسلام میں کیسے کیسے خونی اور جنگی دور گزرے ، آپسی سیاسی چپقلش بھی رہی ہے مگر کبھی بھی ان پاک باز ہستیوں کی بار گاہوں میں گستاخی کا کوئی واقعہ نہیں ملتا ۔ مگر وقت کی یہ ستم ظریفی ہے آج جب کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی بربادی و تباہی کے نہ صرف منصوبے بنائے جارہے ہیں بلکہ متعدد ممالک میں خون مسلم سے ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ عرب ممالک میں انقلاب کے نام پر مسلم املاک و جان کی تباہی و بربادی بھی اسی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان تازہ واقعات کی بنا پر کہی جارہی ہے جو ٹھوس اور مستند ذرائع سے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ مصر کے بعد لیبیا اورشام سب سے زیادہ عرب انقلاب سے متاثر ہوئے ۔ اس انقلاب کے جواز یا عدم جواز سے ہمیں بحث نہیں مگر اس انقلاب کے پس پردہ جن صیہونی عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کی جارہی ہے وہ یقیناً ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ افغانستان میں طالبانی ظالم حکومت کے دورِ اقتدار میں جس طرح اولیائے کرام کے مزارات کو مسمار کیا، اہل سنت کے علما و مشائخ کو تہہ تیغ کیا گیا، پاکستان میں عالمِ اسلام کی ممتاز اور مسلم ہستی مفتی ڈاکٹر سر فراز نعیمی کی شہادت اور سانحۂ نشتر پارک کے صدمے کیا کم تھے کہ لیبیا اور شام میں بھی انقلابی مہم کی آڑ میں اولیا و صحابہ کرام کے مزارات کو شرک و بدعت کے مرکز بتا کر بموں سے اُڑا دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیبیا میں شدت پسند وہابی دہشت گردوں نے جب اہل اللہ کے مزارات کو شرک و بدعت کے فتوے دے کر بموں او رمیزائلوں سے اُڑانے کا سلسلہ شروع کیا تھا اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور تقریباً ہر مکتبِ فکر کی مسلّم درس گاہ جامعہ ازہر مصر کے شیخ الجامعہ اور مستند مفتیان کرام نے نہ صرف مزارات اولیا و صحابہ کو عین اسلام بتایا بلکہ ان مزارات کی تباہی کی اس طرح کی کارروائیوں کو غیر اسلامی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا تھا۔ لیبیا کے بعد شام میں اسی طرح کی بم باریوں کے ذریعے بزرگانِ دین اور صحابہ کے مزارات کو مسمار کر کے اپنی صہیونیت نوازی کا ثبوت دیا جارہا ہے۔ چند ہفتوں قبل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک کوبم باری سےنشانہ بن کر شہید کردیا گیا اور ابھی جاری ماہ مئی کے پہلے ہفتہ میں شام کے دارالحکومت دمشق کے ‘‘عذرا’’ نامی علاقے میں واقع صحابی رسول حضرت حجر بن عدی کا مزار شہید کردیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جو قوتیں ملک شام میں مزارات اولیا کو بموں کے ذریعے مسمار کررہی ہیں انہیں ابھی تک دمشق کے قدیم قبرستان میں واقع ‘‘ امام الوہابیہ ’’ شیخ ابن تیمیہ کی قدِ آدم کے برابر پکّی بنی ہوئی ‘‘مزار’’ اب تک وہابی دہشت گردی سے محفوظ ہے۔ یہ بات کس ذہنی وفکری اور اعتقادی رشتہ کی طرف اشارہ کرتی ہے ، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ تے ہیں۔
29 مئی، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/destruction-sahaba’s-tomb-grave-concern/d/11949