شکیل الرحمن ،نیو ایج اسلام
18 دسمبر 2023
عالمی مذاہب میں اسلام کا نام سر
فہرست ہے۔ کیوں کہ یہ دنیا کا سب سے پہلا اور الہٰی دین ہے۔ آخرت کی کامیابی و
ناکامی کا دار و مدار اسی کی اطاعت و نافرمانی پر منحصر ہے۔اس دین کی تبلیغ کے لیے
اللہ نے جن پیغمبروں کو بھیجا ان میں آخری نام محمد بن عبداللہ ﷺ کا ہے۔ ان کے
متبعین کو مسلم کہا جاتا ہے۔عرب کے جس ماحول میں ان کی نشو نما ہوئی اسے مؤرخین
جہالت ، ظلم اور گمراہی پر مبنی معاشرہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں ان کے
اچھے اخلاق کے سبب لوگ انھیں ’صادق و امین‘ کہتے اور سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتے
تھے۔معاشرے کی عام روایت کے مطابق تعلیم سے ناآشنائی کے سبب انھیں بعد میں ’امی‘
کا بھی لقب دیا گیا۔اس امی انسان کو اللہ نے جب نبوت کی ذمہ داری سے نوازہ تو اس
کی حکیمانہ باتیں جوامع الکلم بن گئیں۔ وہی قوم جو ابھی تک ان کی باتوں پر آنکھ
بند کر کے بھروسہ کرتی تھی اب ان کے خلاف ہوگئی اور ظلم و جورپر اتر آئی،اور انھیں
پاگل و مجنوں کہنے لگی۔ اس نبی امی اور اس کے متبعین نے مسلسل ۱۳ سال تک ان کے ظلم و جور کو برداشت کیا
۔ لیکن جب قوم نے ظلم کی ساری حدیں پار کرکے ان کے قتل کی تیاری شروع کی تو انہوں
نے مکہ کو خیر آباد کہہ کر یثرب (مدینہ) کی سر زمین میں پناہ لی ۔ قوم کے ظلم نے
یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ لہٰذا اللہ نے انھیں اپنی دفاع کے لیے ظالموں سے
مقابلہ کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ’’ جو لوگ آپ سے جنگ کرتے ہیں آپ ان سے اللہ کے
لیے جنگ کیجئے لیکن زیادتی نہ کریں کیوں کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں
کرتاہے۔[1]‘‘ اس کے بعد
اگلی آیت میں یہ حکم دیاکہ ’’آپ تبھی تک ان سے جنگ کریں گے جب تک اللہ کا دین غالب
اور فتنہ ختم نہ ہوجائے۔لیکن اگر وہ اس سے بعض رہتے ہیں تو آپ کو بھی بعض رہنا ہے
کیوں کہ ظلم و زیاتی تو ظالموں کے ساتھ کی جاتی ہے۔[2]‘‘
مسلسل چودہ سال تک ہر طرح کے ظلم
کو سہنے کے بعد مسلمانوں کو پہلی بار جب جنگ کی اجازت دی گئی توساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ آپ اس میں اپنے دفاع کے علاوہ
زیادتی نہیں کریں گے، نہ پہل کریں گے اور
خالص اسلام کے لیے لڑیں گے۔اس واضح تصور کے بعد بھی اس نے اپنے متبعین کو جنگ کے
مختلف آداب بتائے۔
ان کے تذکرہ سے قبل اس امر کی
وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے جنگ کے لیے عام طور سے جہاد کا لفظ
استعمال کیا ہےجو کہ درست نہیں ہے کیوں کہ قرآن نے لفظ جہاد کا استعمال دو معنوں
میں کیا ہے۔ایک جنگ کےمعنی میں اور دوسرا جدوجہد
اور کوشش کے معنی میں، اور یہی دوسرا معنی زیادہ مراد لیا گیا ہے۔ کتاب و
سنت میں جنگ کے لیے صاف طور پر حرب اور قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اس لیے لفظ
جہاد سے لوگوں کے دلوں میں ڈر وخوف پیدا کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
اسلام کے جنگی آداب کے متعلق سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے
رسول ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کسی کو کسی فوجی مہم کا امیر و کمانڈر مقرر کرتے تو اسے خاص طور سے
خشیت الٰہی اور مسلمانوں کے ساتھ بھلائی
کرنے کی وصیت کرتے ۔ اس کے بعد کہتے ’’ اللہ کی راہ میں اللہ کے نام سے جنگ کرنا۔اللہ
کے منکروں سے جنگ کریں لیکن غلو و زیادتی سے کام نہ لیں۔ نہ تو غداری کریں ، نہ
لاشوں کا مثلہ کریں اور نہ ہی بچوں کو قتل کریں۔ جب آپ کا سامنہ آپ کے مشرک دشمنوں سے ہو
تو انھیں پہلے تین باتوں کی دعوت دیں ،
اگر وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ کریں۔پہلے انھیں اسلام کی دعوت
دیں۔ اگر وہ قبول کر لے تو آپ بھی قبول کر یں اور کسی طرح کا کوئی نقصان نہ
پہونچائیں۔ پھر اسے ہجرت کی دعوت دیں اور اسے یہ بتائیں کہ اگر وہ ہجرت کرتے ہیں
تو ان کے ساتھ بھی وہی برتاؤ ہوگا جو مہاجرین کے ساتھ ہوتا ہے۔اگر وہ ہجرت سے
انکار کریں تو انھیں بتائیں کہ ایسی صورت میں ان کے مسلم دیہاتیوں کا سلوک ہوگا۔
ان پر اسلام کے قوانین تو نافذ ہوں گے لیکن مال غنیمت اور مال فئی میں ان کا کوئی
حصہ نہیں ہوگا سوائے ان لوگوں کے جو جنگ میں حصہ لیں گے۔اگر وہ اس بات سے انکار
کریں تو ان سے جزیہ کی مانگ کریں ۔ اگر وہ جزیہ پر راضی ہوتے ہیں تو اسے قبول کر
کے ان کی حفاظت کریں اور اگر انکار کرتے ہیں تو اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان سے
جنگ کریں۔اسی طرح اگر تم کسی قلعے کا محاصرہ کرلو اور اس قلعے کے لوگ تم سے اللہ
او ر اس کے نبی کی امان طلب کریں تو انھیں اللہ اور اس کے نبی امان نہ دے کر اپنے
اور اپنے ساتھیوں کی امان دو، کیوں کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے امان کے بارے
میں علم نہیں ہے۔اسی طرح اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ لوگ اللہ کے حکم پر
ہتھیار ڈالنا چاہیں تو انھیں اپنے حکم کے مطابق ہتھیار ڈلواؤ کیوں کہ تم نہیں
جانتے کہ اس معاملہ میں تم اللہ کے حکم کے مطابق ہو یا نہیں [3]۔‘‘
اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ
جنگ سے قبل قبول اسلام یا مصالحت کی کوشش
کی جائے اگر اس پر بات نہ بنے تو اللہ کے خوف کو دل میں رکھتے ہوئے صرف اسلام کے
لیے جنگ ہوگی میں زیادتی یا لاشوں کی توہیں نہیں ہوگی اور نہ ہی بچوں و بوڑھوں سے
جنگ لڑی جائے گی۔اسی طرح احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ عورتوں کو نہ قتل کیا جائے[4]، نہ ہی گرجا
گھروں محافظوں کو قتل کیا جائے[5]۔ اسی طرح
کسی کو دھوکہ دے کر نہ قتل کیا جائے[6]۔ جنگ کا
مقصد زمین میں فساد مچانا نہ ہوبلکہ اس کے ذریعہ اصلاح یا ظالم کو سبق سکھانا
مقصود ہو[7]۔قیدیوں کے
ساتھ اچھا سلوک کیا جائے[8]۔ابوبکر صدیق
نے جب شام پر لشکر کشی کی تو یزید بن ابی سفیان کو دس نصیحتیں کیں انھیں میں یہ بھی تھا کہدوران
جنگ کسی آبادی کو تباہ مت کرنا، نہ اس کی کھیتی کو برباد کرنا، بلا ضرورت جانوروں
کو ذبح نہ کر نا اور پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا[9]۔
انھیں جنگی اخلاقیات کا نتیجہ تھا
کہ عہد نبوی کی چھوٹی و بڑی کل ۲۹ غزوات و سرایا میں دونوں جانب سے تقریبا دوہزار لوگ مارے گئے اور
پورے عرب پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔عوام تہذیب وتمدن سے آشنا ہوکر علم کے زیور
سے آراستہ ہوگئی۔اس کے باجود یہ نعرہ بلند کیا جاتا ہے کہ اسلام تلواری اور دہشت
گردی کا مذہب۔ اسلام کا نام آتے ہی لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اگر کوئی مسلمان
اپنے دفاع میں کوئی قدم سخت اٹھا تا ہے تو اس پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے لیکن نام نہاد انسانیت
پسند اور تہذیب سے دور انسانیت کے خون پر سیاست کرنے والے گھنٹوں اور ہفتوں میں
ہزاروں کی جان لے کر بھی انسانیت نواز اور
ملک و مذہب کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں۔ ان کی دہشت گردی کو امن و صلح کا نام دیاجاتا
ہے۔ اس کی تازہ مثال اسرائیل و فلسطین کی جاری جنگ کو لیا جا سکتا ہے۔ جس میں
اسرائیل نے فلسطین کے ہزاروں بچوں ، عورتوں اور مردوں کی جان لے کر اور لاکھوں
گھروں کو منہدم کرنے کے بعد بھی مظلوم اور انسانیت کا مسیحا بنا ہوا ہے۔
مختصر یہ کہ اسلام کی تعلیمات ہی
دراصل انسانیت اور امن و شانتی کی ضامن ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج اس کے ماننے والوں
کی اکثریت ان تعلیمات سے دور خوف و ہراس کے ماحول میں سانس لے رہی ہے۔ اس لیےایک
انصاف پسند انسان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اسلام کو مسلمانوں کے اعمال و
معاشرہ سے سمجھنے کے بجائے اس کو اس کے بنیادی ماخذ سے سمجھے اور مسلمانوں پر
یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار سے اسلام کو بدنام کرنے کے
بجائے اس کی سچی تصویر بننے کی کوشش کریں۔دسروں کی اصلاح سے قبل اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کے انتظار کے بجائے اپنی
ذمہ داری سے سبک دوش ہونے کی کوشش کریں۔
------------
[1]موطا امام مالک، تحقیق
فؤاد عبد الباقی۔ کتاب الجھاد ، حدیث نمبر ۱۰، مصنف ابن ابی شیبۃ ، حدیث ۳۳۱۲۱
[1]سور ہ بقرہ : ۱۹۰
[2]سورہ بقرہ : ۱۹۳
[3] صحیح مسلم : ۱۷۳۱
[4]سنن ابی داؤد:
[5]مسند احمد :
[6]صحیح مسلم : ۱۷۳۱، مصنف عبدالرزاق : ۹۶۷۹
[7]سورہ اعراف : ۵۶
[8]سورہ انسان : ۸، سورہ انفال: ۷۰
---------------
) شکیل الرحمن
ریسرچ اسکالر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ (
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism