سمیت پال،
نیو ایج اسلام
11 اکتوبر 2023
"ہر بندوق جو بنائی گئی
ہے، ہر جنگی جہاز جو اڑائی گئی ہے، ہر راکٹ جو داغا گیا ہے، اپنے حتمی معنی میں، ان
لوگوں سے چوری ہے جو بھوکے ہیں اور انہیں کھانا میسر نہیں، جو سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں
اور انہیں کپڑے دستیاب نہیں۔ ہتھیاروں میں یہ دنیا صرف پیسے ہی خرچ نہیں کر رہی۔ بلکہ
یہ اپنے مزدوروں کا پسینہ، اپنے سائنسدانوں کی ذہانت اور اپنے بچوں کی امیدوں کو بھی
ضائع کر رہی ہے۔ یہ کسی بھی حقیقی معنوں میں زندگی کا طریقہ نہیں ہے۔ جنگ کے بادلوں
کے نیچے، یہ لوہے کی سولی پر لٹکتی ہوئی انسانیت ہے۔"
- ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری
جنگ ایک بار پھر یہ ثابت کرتی ہے کہ انسانوں کو اب بھی بڑے پیمانے پر تباہی مچانے میں
دلچسپی ہے۔ یہ کہ ہم اب بھی ایک دوسرے کو جدید ترین اور بہت زیادہ طاقتور ہتھیاروں
سے مارنے میں مصروف ہیں، یہ محض سائنسی ترقی یا ہمارے جنگجو قبائلی ماضی کی ترقی کی
علامت ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کہ ہم اجتماعی طور پر اس بات سے بالکل پریشان نہیں ہوتے
کہ ہم اخلاقی طور پر مزید پستی میں جا چکے ہیں۔
اگر دنیا میں کہیں بھی جنگ ہوتی
ہے تو وہ باقی پوری دنیا کے لیے ضمیر کی موت ہے۔ صرف ایک آدمی کی موت سے پوری دنیا
کو پریشان ہو جانا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ درحقیقت انسانی تاریخ میں ایسا شاذ
و نادر ہی ہوا ہے۔
انسانی تہذیب کی تاریخ لاتعداد
تباہ کن جنگوں اور خونریز لڑائیوں کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اجتماعی ہلاکتوں کے
بعد ہردئے پریورتن کے تمام واقعات انفرادی سطح پر رونما ہوئے، اجتماعی طور پر نہیں۔
خواہ وہ کروکشیتر کی جنگ کے آخری دن ارجن کا ہردے پریورتن ہو یا کالنگا کی جنگ کے بعد
راجہ اشوک کی توبہ، وہ انفرادی طور پر نادم تھے۔
جب تک انسانیت، ایک بڑے خاندان
کے طور پر، ہم آہنگ اور ہمدردانہ انداز میں ضمیر کی چبھن کو محسوس نہیں کرتی، انسان
موت کے رقص میں مگن رہیں گے۔ ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ جنگ سب کو تباہ کر دیتی
ہے۔
جنگ میں کوئی فتح یاب نہیں ہوتا۔
جنگ میں فتح محض ایک نظر کا دھوکہ ہے کیونکہ فاتح اور شکست خوردہ کا نظریہ ہم نے وضع
کر رکھا ہے۔ کسی بھی جنگ میں ایک فاتح کو بالآخر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جیت کر بھی
ہار گیا۔
یعنی اس فتح کے لیے بہت بھاری قیمت
چکانی پڑی اور اس میں قیمتی جانوں اور اموال کا بھاری نقصان ہوا۔ اگر آپ ہزاروں سالوں
سے لڑائیوں اور جنگوں کے ذمہ دار عوامل پر نظر ڈالیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ ان
سب کی بنیادی وجوہات ایک جیسی اور معمولی رہی ہیں: مذہب (ہمیشہ اول نمبر پر)، علاقائی
بالادستی، انا کا تصادم، حدود سلطنت میں توسیع کرنے کی خواہش وغیرہ۔ ان تمام احمقانہ
وجوہات کی بناء پر لڑائیوں اور جنگوں میں ہمارا مسلسل لگے رہنا اس بات کی علامت ہے
کہ انسان جنگوں کے بغیر پرامن طریقے سے زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔
ارنسٹ ہیمنگوے نے بجا طور پر کہا
تھا ، ’’جس لمحے میں یہ سوچتا ہوں کہ اب انسان امن سے رہنا سیکھ چکے ہیں، جنگ مجھے
غلط ثابت کر دیتی ہے۔‘‘
English
Article: War Is Death's Dance Macabre
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism