گریس مبشر، نیو ایج اسلام
22 نومبر 2024
کیرلا کے قانونی ماہرین اور وکلاء کی صوابدید سے تیار
ہندوستان کی وقف املاک میں، جن کی اسلامی روایت میں گہری جڑیں ہیں، سماجی و اقتصادی ترقی کی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ تاہم، بدانتظامی، ناجائز قبضے اور طویل قانونی تنازعات جیسے مسائل نے ان کے موثر استعمال میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک ہندوستان میں تقریبا چھ لاکھ وقف املاک ہیں، جو کہ عالمی سطح پر اس طرح کے وقف املاکوں کا سب سے بڑا خزانہ ہے، پھر بھی تعلیم، حفظانِ صحت اور عام فلاح و بہبود میں ان کا تعاون نہ کے برابر ہے۔
اس مضمون میں ہندوستان میں وقف املاک کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے، موجودہ چیلنجوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور کیرلا کے قانونی ماہرین کی صوابدید کے ساتھ، ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے، غیر سیاسی اور قابل عمل اصلاحات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
1. تعارف
وقف، عربی لفظ وقفہ بمعنی ("رکنا" یا "محدود کرنا") سے ماخوذ ہے، اس سے مراد اسلامی قانون میں مذہبی، تعلیمی، یا دیگر انسانیت نواز مقاصد کے لیے وقف کردہ اثاثے ہیں۔ تاریخی طور پر، وقف املاک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اداروں کو مالی امداد فراہم کی ہے، جو کہ قوم کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان خدمات کے باوجود، وقف کے ادارے کو آج کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، جس سے اس بات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ اس میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ اس کے نظم و نسق میں بہتری پیدا ہو اور اس کا استعمال صحیح جگہ ہو۔
2. ہندوستان میں وقف کا تاریخی پس منظر
ابتدائی مرحلہ:
ہندوستان میں وقف کا رواج دہلی سلطنت (1526-1206) سے شروع ہوا، جس میں حکمرانوں اور اشرافیہ نے مساجد، مدارس اور خیراتی کاموں کے لیے جائیدادیں عطا کیں۔ مغلوں کے دور میں، وقف املاک پروان چڑھیں، جن سے سماجی اور مذہبی اداروں کو مالی امداد ملی۔
نوآبادیاتی دور:
ایڈووکیٹ ایم ریاض برطانوی نوآبادیاتی پالیسیوں کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
"استعماری حکومت نے آمدنی پیدا کرنے کو ترجیح دی، وقف املاک کے سماجی فلاح و بہبود کے مقاصد کو آگے بڑھایا۔" 1913 کے مسلمان وقف ویلڈیٹنگ ایکٹ جیسے قوانین نے اسے قانونی طاقت فراہم کی، لیکن اس کے استحصال کو روکنے میں ناکام رہے۔
آزادی کے بعد کے حالات:
1954 کے وقف ایکٹ اور 1995 کی اس کی ترمیم میں، وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم، سابقہ مسائل جوں کے توں باقی رہے، بشمول نظم و نسق کی عدم موجودگی، ناجائز قبضے، اور کم استعمال کے۔
3. موجودہ چیلنجز
1. بدانتظامی اور احتساب کا فقدان:
زیادہ تر وقف بورڈوں میں ہنر مند افراد اور وسائل کی بے حد کمی ہے۔ ایڈوکیٹ این بشیر کہتے ہیں:
"غیر موثر انتظامیہ اور شفافیت کی عدم موجودگی وقف انتظامیہ کو کمزور کرتی ہے۔"
2. ناجائز قبضے:
وقف املاک کا تقریباً 70 فیصد حصہ غیر قانونی طور پر کسی نہ کسی کے قبضے میں ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے محاصل میں نمایاں نقصان دیکھنے میں آیا ہے۔
ایڈوکیٹ اے شمس الدین کہتے ہیں:
"کمزور قانونی فریم ورک اور نفاذ کے ناقص طریقہ کار کی وجہ سے ناجائز قبضے عروج پر ہیں۔"
3. طویل قانونی تنازعات:
وقف جائیدادیں اکثر طویل قانونی چارہ جوئی میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر زین الدین کہتے ہیں:
"خصوصی عدالتوں کی عدم موجودگی سے معاملات کے تصفیہ میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے چیلنج بڑھ جاتے ہیں۔"
4. وسائل کا ناقص استعمال:
قیمتی شہری وقف املاک مخدوش یا بے کار ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے محاصل کا دائرہ محدود ہو گیا ہے۔
5. معلومات کی کمی:
قوم مسلم میں بہت سے لوگ اب بھی وقف املاک سے متعلق اپنے حقوق سے ناواقف ہیں، جس کے سبب وہ ان کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔
4. اصلاحات کے لیے سفارشات
1. انتظامیہ اور شفافیت:
ریکارڈوں کو ڈیجیٹل شکل میں جمع کرنا: جامع ڈیجیٹل ریکارڈ رکھنے کے لیے وقف ایسسیٹس مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا (WAMSI) کو پھیلایا جائے۔
آزادانہ آڈٹ: بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے باقاعدہ آڈٹ کیا جائے۔
صلاحیت کی افزودگی: وقف بورڈ کے عہدیداروں کو مالیاتی اور انتظامی مہارتوں میں تربیت دی جائے۔
2. ناجائز قبضوں کا ازالہ:
سروے اور حد بندی: جائیداد کی حدود کا تعین کرنے کے لیے سروے کیا جائے۔
فاسٹ ٹریک عدالتیں: تنازعات کے فوری حل کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔
اجتماعی بیداری: وقف کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں بیداری پیدا کی جائے۔
3. محصولات پیدا کرنا:
تجارتی ترقی: شہری وقف املاک کو آمدنی پیدا کرنے والے اثاثوں میں تبدیل کیا جائے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس (PPPs): موثر انتظام و انصرام کے لیے نجی اداروں کے ساتھ شراکت داری کی جائے۔
مائیکرو فنانس کی شروعات: وقف کی آمدنی کا استعمال قوم کو معاشی طور پر سہارا دینے کے لئے کیا جائے۔
4. قوم کی شمولیت:
مقامی کمیٹیاں: قوم کے افراد پر مشتمل انتظامی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
قیادت کی تربیت: وقف املاک کے انتظام و انصرام میں زمینی سطح کے رہنماؤں کو تربیت دی جائے۔
5. قانونی اور پالیسی اصلاحات:
وقف ایکٹ میں ترامیم: عصری چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اس کے قوانین میں ترمیم کی جائے۔
یکساں رہنما خطوط: جائیداد کے انتظام و انصرام کے لیے معیاری رہنما خطوط وضع کیے جائیں۔
6. تکنیکی مداخلت:
جی آئی ایس میپنگ: وقف املاک کی نگرانی اور ان پر نظر رکھنے کے لیے جی آئی ایس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
ای گورننس پلیٹ فارم: تیز انتظامیہ کے لیے ڈیجیٹل نظام نافذ کیا جائے۔
5. اصلاحات کے ممکنہ اثرات
موثر انتظام کے ساتھ، وقف املاک:
تعلیم، حفظان صحت، اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے مضبوط فنڈنگ فراہم کر سکتے ہیں۔
قوم مسلم کے اندر سماجی و اقتصادی چیلنجوں، مثلا غربت اور بے روزگاری سے نمٹ سکتے ہیں۔
شہری ترقی اور قومی اقتصادی ترقی میں معاون ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر زین الدین اختصار کے ساتھ کہتے ہیں:
وقف املاک کی اچھی انتظامیہ انہیں سماجی و اقتصادی ترقی کے انجن میں تبدیل کر سکتی ہے۔
نتیجہ
وقف جائیدادوں میں بڑی سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت ہے، لیکن ان وسائل کا ابھی تک اچھی طرح استعمال ہی نہی ہو سکا ہے۔ تاہم، وقف املاک کے انتظامی امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے جامع اصلاحات، شفاف انتظامیہ اور قوم مسلم کی فعال شرکت کی ضرورت ہے۔
ایڈووکیٹ ایچ سلیم زور دیتے ہیں:
"بدانتظامی، ناجائزقبضے، اور طویل تنازعات کے مسائل اپنی جگہ بڑے ہیں لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ وقف املاک کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے غیر سیاسی اور قوم مسلم پر مشتمل کوششیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔"
ان چیلنجوں سے نمٹ کر اور مجوزہ اقدامات کو لاگو کر کے، وقف املاک کو ایک بار پھر ہندوستان میں سماجی اور اقتصادی بہبود کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، جو کہ اس کا مقصد حقیقی ہے۔
------
English Article: Unlocking the Potential of Waqf Properties in India: A Legal and Policy Perspective
URL: https://newageislam.com/urdu-section/waqf-properties-india-legal-policy-perspective/d/133957
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism