New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 05:47 PM

Urdu Section ( 7 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Waqf Amendment Bill: Both Good and Bad وقف ترمیمی بل: اچھا بھی ‘برا بھی

 پروفیسر فیضان مصطفی

5 اپریل 2025

ترکی کے پروفیسر بہاء الدین ییلڈک نے لکھاکہ ’سلطنت عثمانیہ کے دوران پروان چڑھنے والے اوقاف کی بدولت، پیدا ہونے والا وقف گھر میں پیدا ہوتا، وقف کے گہوارے میں سوتا، وقف املاک سے کھاتا اور پیتا… وقف مکتب میںتعلیم حاصل کرتا… اور جب  مر جاتا تو اسے وقف کے کفن میں رکھا جاتا۔یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسلمانوں نے نیک کاموں کے لئے اس بڑے پیمانے پر اپنی جائیدادیں وقف کر رکھی تھیں۔ قانون سازی ایک مشکل کام ہے۔ ہم خدائی قوانین کی بات نہیںکر رہے ہیں۔ انسان ناقص ہے‘ اس لیے انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون کامل نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ ملک کے بہترین دماغوں نے بہترین نیت کے ساتھ ہندوستان کاجو آئین تیار کیا ہے اس میں بھی ایسی دفعات موجود تھیں جن میں حذف واضافہ اور ترمیم وغیرہ کی ضرورت تھی۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا وقف بل 2025 بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ اسی لیے حکمران جماعت کا یہ دعویٰ کہ یہ ایک بہترین قانون ہے اور اپوزیشن کی یہ تنقید کہ اس میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے دونوںخیال غلط ہیں۔ سچائی کبھی انتہا میں نہیں ہوتی بلکہ میانہ روی میں ہوتی ہے۔اگر بل میں کچھ اچھا ہوتو اس کی تعریف کی جائے، اور اگر ضروری ہو تو تنقید ضرور کی جائے۔ ہمارا آئین ہمیں اس کی آزادی دیتاہے۔ خود وزیر اعظم نے 15 مارچ 2025 کو لیکس فریڈمین کے ساتھ ایک حالیہ پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ اگر جمہوریت واقعی آپ کی رگوں میں دوڑتی ہے تو آپ کو اسے قبول کرنا چاہیے۔ ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہےکہ اپنے ناقدین کو ہمیشہ اپنے قریب رکھیں۔

چونکہ ابتدا ہمیشہ مثبت انداز میں کرنی چاہیے، اس لیے آئیے وقف بل کی اچھی خصوصیات کو دیکھتے ہیں۔ دفعہ 3A کہتی ہے کہ صرف ایک جائز مالک ہی وقف کر سکتا ہے۔ اسلام بھی بالکل یہی حکم دیتا ہے۔ بل کی دفعہ 9 اور 14 کے تحت وقف انتظامیہ میں خواتین، دیگر پسماندہ طبقے کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو شامل کرنے کی تجویز کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، کیونکہ تنوع فیصلہ سازی کو بہتر بناتا ہے۔ دفعہ 18 میں یہ بھی درست ہے کہ وقف کو صرف دستاویزی عمل کے ذریعے ڈکلیرکیا جا سکتا ہے اور اس طرح زبانی طور پر کوئی نیا وقف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ بھی درست ہے۔محض زبان سے کوئی جائیداد وقف کرنے سے بعد میںمسائل ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ سیکشن 3(r)(iv) میں، مطلقہ خواتین اور یتیموں کی کفالت" کے الفاظ داخل کیے گئے ہیں، جو کہ اچھا ہے، حالانکہ ان مقاصدکاتو پہلے ہی سے"فلاح و بہبود اور مسلم قانون کے ذریعے تسلیم شدہ اس طرح کے دیگر مقاصد" کے اظہار کے ذریعے احاطہ کیا گیا تھا۔ سیکشن 23 چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو ڈپٹی سیکرٹری سطح کے افسر کی بجائے جوائنٹ سیکرٹری سطح کے ہونے کا انتظام کرتا ہے۔ دفعہ 83 میں کہا گیا ہے کہ سول جج کی بجائے ڈسٹرکٹ جج وقف ٹریبونل کا چیئرمین ہوگا۔ سیکشن 84 میں کہا گیا ہے کہ ٹریبونل چھ ماہ کے اندر فیصلہ دے گا۔ دفعہ 64 ایک متولی یا مینیجر کو ہٹانے کا انتظام کرتا ہے اگر وہ ایک سال تک معقول وجہ کے بغیر اکاؤنٹس کو درست طورپر تیارکرنے میں ناکام رہتا ہے اور اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کےایکٹ، 1967 (UAPA) کے تحت غیر قانونی قرار دی گئی کسی تنظیم کا ممبر بن گیا ہے۔

ایکٹ کی خامیوںکے حوالے سے کیا بات کی جائے۔ اس کا مسلمانوں پر کیا اثر پڑے گا جب یہ خود غیر مسلموں کے حقوق کوہی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ یہ ملکیت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے کیونکہ یہ کہتا ہے کہ صرف ایک مسلمان ہی وقف کر سکتا ہے۔ جبکہ درست بات یہ ہے کہ جائیداد کا مالک آزاد ہے کہ وہ اپنی جائیداد کے ساتھ جو چاہے کرے۔ اگرچہ 1954 اور 1995 کے وقف ایکٹ نے صرف مسلمانوں کو وقف کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن 2013 کی ترمیم نے اس بلاجواز پابندی کو ہٹا دیاتھا۔ 2024 کے وقف ترمیمی بل نے دفعہ 104 کو حذف کر کے پہلے کی پابندی کو بحال کیا ہے اور دفعہ 3(r) (a) میں اس بات پر اصرار کر کے اسے کہیں زیادہ سخت بنا دیا ہے کہ صرف وہی مسلمان وقف کر سکتا ہے جو گزشتہ پانچ سال سے عامل مسلمان ہو۔ یہ شق غیر مسلموں کے مالکانہ حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی جائیدادوں کے حوالے سے جو چاہیں کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ 17ویں صدی کا فتویٰ عالمگیری جو 40 سے زیادہ ممتاز علمائے کرام نے مرتب کیا ہے واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ غیر مسلم بھی وقف کر سکتے ہیں۔ پیراتھو پیڈا وینکٹاسوبارایڈو بمقابلہ حاجی سلار صاحب (1930) میں، مدراس ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ ہندو زمینداروں کے لیے یہ عام بات ہے کہ وہ اپنے علاقوں میںموجود مسلمانوں کو اوقاف دیتے ہیں۔ اسی طرح، ارور سنگھ بمقابلہ بدر دین (1940) میں، لاہور ہائی کورٹ نے ایک ہندو کے اس حق کو برقرار رکھا کہ وہ مسلمانوں کے قبرستان کے لیے اپنی جائیداد کو وقف کر سکتا ہے۔ آزادی کے بعد، ناگپور ہائی کورٹ نے موتیشا بمقابلہ عبدالغفار (1956) میں بھی وقف کرنے کے غیر مسلموں کے حق کو برقرار رکھا۔ چونکہ، ہندو اوقاف کے قوانین غیر ہندوؤں کو ’ہندو انڈاومنٹ ‘بنانے سے نہیں روکتے، اس لیے ترمیمی بل میںمذکورہ بالا بندوبست ’ایک ملک، ایک قانون کے اصول کے خلاف ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان پر ’پانچ سال کی پابندی ‘غیر معقول ہے اور اس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ کیا حکومت ہندو مذہبی یا خیراتی اوقاف بنانے کے لیے بھی ایسی پابندی لگانے پر راضی ہوگی؟

وقف بورڈ مسلم علما یا کچھ پرائیویٹ قسم کے زمین مافیا کی باڈی نہیں ہوتی بلکہ وہ  بڑی حد تک سرکارکے نامزد کردہ لوگوں پر مشتمل قانونی ادارہ ہے ۔ اگر حکومتوں کے ذریعہ کچھ ناپسندیدہ لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے تو پورے’ وقف ادارے‘ کواس کیلئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس کیلئے توتمام متعلقہ حکومتوں کو قصوروار ٹھہرایاجانا چاہیے۔ اگرچہ سیکشن 97 کے تحت حکومت بورڈز کو ہدایات دے سکتی ہے اور سیکشن 99 کے تحت ان کی جگہ بھی لے سکتی ہے، پھر بھی اس بل نے بورڈز کے اختیارات کومزید کافی حد تک کم کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ وقف سے بورڈ کو ہونے والی آمدنی کاسالانہ سات فیصد حصہ کو کم کرکے پانچ فیصدکردیاگیاہے جس سے بورڈ کی مالی صحت پر برا اثر پڑے گا۔ متولیوں یا منتظمین پر بورڈ کا کنٹرول بھی کمزور ہو گیا ہے۔صارف کے ذریعہ وقف کے التزام کو ختم کرنے سےبھی صورتحال دگر گوں ہوگئی ہے۔یہ شق ایم صدیق (2019) میں بابری مسجد کے فیصلے کے خلاف بھی جاتی ہے جس نے صارف کے ذریعہ وقف کے تصور کو واضح طور پر تسلیم کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمان بابری مسجد کو وقف کے طور پر بھی ثابت نہیں کر سکے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ "ہم صارف کے وقف کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں یہاں تک کہ وقف ڈیڈ یا واضح ڈکلیریشن نہ ہونے کی صورت میں بھی ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ایک لمبے عرصہ سے استعمال کی جانے والی جائیدادیں وقف ہیں یا نہیں، یہ ثبوت کا معاملہ ہے۔" (پیرا 1134)۔ درحقیقت، صرف اس صورت میں جب مالک خود لمبے عرصے تک جائیداد کے استعمال کی اجازت دیتا ہے، صارف کے ذریعہ جائیداد کو وقف سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ تصور ہندو مذہبی املاک کے قوانین میں بھی موجود ہے۔ٹربیونلز خراب ہو سکتے ہیں، لیکن وہ خصوصی معاملات میں تیزی سے نمٹانے میں مدد کرتے ہیں اور ہمارے پاس تقریباً 70 ٹربیونلز ہیں۔ حکومت کا ٹربیونلز پر اس قدر عدم اعتماد کیوں ہے جب کہ اس کے تمام ممبران اسی کے ذریعےنامزد ہوتے ہیں؟ اسے اپنے ہی نامزد کردہ افراد پر اعتماد کیوں نہیں ہو سکتا۔سیکشن 107 جس نے وقف کے تنازعات کو حد بندی ایکٹ، 1963 سے مستثنیٰ قرار دیا تھا، وقف کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بیان کردہ مقصد کے ساتھ حذف کر دیا گیا ہے۔ لیکن پھر اس کا الٹا اثر پڑے گا کیونکہ وقف کے دعوے وقف کی مدت ختم ہونے کے بعد دائر نہیں کیے جاسکتے ہیں جس سے وقف مزید کمزور ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں پھر سے ’ایک قوم یا ایک ملک، ایک قانون‘ کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ ہندو اوقاف کے قوانین میں اس طرح کی چھوٹ موجود ہے یعنی تلنگانہ اور آندھرا ایکٹ کی دفعہ 143، تمل ناڈو ایکٹ کی دفعہ 109۔جب کہ ہندو اوقاف ریاستی ایکٹ کے تحت چلتے ہیں، 1954 سے وقف کے لیے ایک مرکزی قانون موجود ہے۔ زمین بھی ریاست کا موضوع ہے۔ 1995 کے ایکٹ کے برعکس، سیکشن 108B ریاستوں کو نئے بل کے تحت قواعدوضوابط وضع کرنے کے اختیار سے بھی روکتا ہے۔ کوئی قانون پتھروں پر نہیں لکھا جاتا۔ امیدکی جانی چاہئے کہ نئے قانون میں ترمیم کی جائے گی، اور اس کی مشکلات والی دفعات پر نظرثانی کی جائے گی۔ چونکہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں، ریاست مذہبی اداروں پر پیسہ خرچ نہیں کر سکتی، وقف املاک بنیادی طور پر ایسے اداروں کو برقرار رکھتی ہیں۔ وقف ایک مسلمان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس لیے اس کی آزادی مذہب کا حصہ ہے۔ چند متولیوں کی بدعنوانی اور بدانتظامی کی وجہ سے وقف کا پورا ادارہ کمزور نہیں ہو سکتا۔ کیا ہماری حکومت میں یا عدلیہ میں بھی کرپشن نہیںہے؟تو کیا اس وجہ سے کہ کرپشن ہے پوری حکومت یا عدلیہ کو ہی مورد الزام قرار دے کر اسے بدل دیا جائے گا؟

5 اپریل 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/waqf-amendment-bill-good-bad/d/135079

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..