New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 10:44 AM

Urdu Section ( 14 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Waqf Amendment Act 2025: An Unconventional Response وقف ترمیمی قانون 2025: غیر روایتی ردعمل

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

11 اپریل 2025

ماہر آئین و قانون پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا روزنامہ انقلاب میں شائع حالیہ وقف قانون پر تفصیلی بحث پر مبنی مضمون اورایڈیٹر انقلاب ودود ساجدکے تفصیلی تجزیہ کے بعد اب اس موضوع پر مزید طبع آزمائی مناسب نہیں۔ان دونوں کے مضامین مستند آراء کا درجہ رکھتے ہیں۔ البتہ کچھ نکات کا تنقیدی جائزہ اور ان کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ میںگزشتہ تین دہائیوں سے دو باتیں برابر لکھ بھی رہا ہوں۔آج حسب موقع دوہرا رہا ہوں: پہلی بات یہ کہ جمہوریت میں ہر سیاسی نظریے کو برابر زمین فراہم رہتی ہے۔دوسری بات یہ کہ ایک صدی سے زائد  عرصہ سےملک میں دو متوازی اور متصادم سیاسی و ثقافتی نظریات آئیڈیا آف گاندھی اور آئیڈیا آف گولوالکر اور ساورکر کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔جو کل مقبول ترین نظریہ تھا وہ آج پارہ پارہ ہے اور جو معتوب ترین تھا وہ آج مقبول ہے۔ یہ اقرار کرنا اور اسے دل سے تسلیم کرنا شاید اب نا گزیر ہے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہ سب جمہوری سیاست اور آزادانہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ہوا ہے اور آگے بھی جو کچھ ہوگا ،اسی نہج پر ہوگا۔

صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد اس کے نفاذ کے لئے۸؍اپریل کو نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جو احتجاج، تحفظات اور بد گمانیوں کا بازار گرم تھا اس کا منطقی انجام اس قانون کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کے ساتھ مکمل ہوا۔ اب معاملہ عدالت میں جانے کے بعد سڑک پر احتجاج اور ذاتی رائے زنی دونوں کی زمین ختم ہو چکی ہے۔۲۰۱۴ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکز میں اقتدار میں آنے اور نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد تمام سیکولر سیاست، سیاسی جماعتیں، قومی وریاستی سیاستدان مسلم مسائل کے حوالے سے اظہار رائے میں جس سکوت، خوف اور احتیاط کے قائل ہو گئے تھے، ہر سیکولر اکائی خود کو ہندو بتانے، دکھانے اور ثابت کرنے کی دوڑ میں لگی تھی۔اسے نرم ہندوتو کی اصطلاح دی گئی۔ گیارہ سال کے بعد اب ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ جس کاجو سودا ہوتا ہے بازار میں وہی بکتا ہے۔ آپ دوسرے کا مال نہیں بیچ سکتے۔ جب جو اپنا روایتی راستہ بدلتا یا اس سے بھٹکتا ہے تو اسکی حالت نہ خداہی ملا نہ وصال صنم جیسی ہو جاتی ہے۔ وقف ترمیمی قانون پر تمام سیکولر سیاسی جماعتوں کا ایک موقف خوش آئند اور مستقبل کی سیکولر قومی سیاست کے لئے نیک شگن اور لائق تحسین ہے۔دوسری جانب سابقہ گیارہ سالوں میں بی جے پی کی مرکزی حکومت، قیادت، کابینی وزراء، صدربی جے پی ، اراکین لوک سبھا اور راجیہ سبھا جنھوں نے دونوں ایوان سے خطاب کیا سب ہی نے جس طرح کھل کر مسلمانان ہند کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اوقاف، مساجد، خانقاہوں، درگاہوں ، قبرستانوں کے تحفظ اور مذہبی امور میں سرکاری عدم مداخلت کو لیکر جو دو ٹوک موقف کا اظہار کیا یہ شفافیت اور بے لاگی پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی ۔اس سے اتفاق یا اختلاف الگ مسئلہ ہے لیکن یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ قانون پرملی تحفظات، اعتراضات اور خفگی بھی اپنی جگہ مگر یہ ذکر اس لئے ضروری سمجھا کہ جب، جہاں جتنا مثبت و تعمیری ہو اسے محسوس کرنا، اس کی حوصلہ افزائی اور اس کو تسلیم بھی کیا جانا چاہیے ساتھ ہی جیسے کانگریس نے اپنے دور اقتدار میں جو اقلیتی ادارے،نمائندگی اور حصےداری مسلمانان ہند کو دی اس کا میں بر ملا قائل مگر فسادات میں یکطرفہ زیادتیاں، سچر کمیٹی رپورٹ اور مسائل میں الجھا کر رکھا اس کی تنقید و شکایت اپنی جگہ۔ اسی طرح بی جے پی حکومت میں جس پیمانے پر سرکاری اسکیموں کا مسلمانان ہند کو فیض پہنچا اس کی کوئی نظیر نہیں مگر بلڈوزنگ، ہجومی تشدد، مذہبی منافرت میں اضافہ، پکڑ دھکڑ، نماز، داڑھی، امام، مسجد، درگاہ ودیگر مسلم سرگرمیوں پر شکایات و  تحفظات اپنی جگہ۔ وہ چند سیکولر سیاسی جماعتیں جنکی بیساکھی پر یہ حکومت کھڑی ہے۔ انھوں نے مسلمانان ہند کی ان سے توقعات کو درکنار کرتے ہوئے اپنے ریاستی مفادات کو آگے رکھاان کی بھی تنقید، ان کے حکومت کے ساتھ کھڑے رہنے سے ہی یہ قانون حقیقت بنا۔ تنقید و تعریف میں توازن رہنا چاہیے میں فریق بننے کا قائل نہیں!

جہاں تک مسلمانان ہند کا قانون کے حوالے سے موقف کاتعلق ہے انکا ردعمل اس تشریح اور تشہیر پر موقوف رہتا ہے جو اردو میڈیا اور عوامی حلقوں میں ملی ذمہ داران کی طرف سے بیانوں، خطابات، اداریوں، مضامین اور احتجاج کی شکل میں سامنے آتاہے۔ اس پر اتنا ہی کہنا ہے کہ یہ ہمیشہ ذہن میں رہےکہ فیصلے حکومت وقت کرتی ہے کیونکہ اکثریت اس کےپاس ہوتی ہے، وہ جہاں کوئی قانون بنا سکتی ہے، کسی قانون کو فارغ کرنا، موجودہ میں ترامیم کرنا اور انھیں پاس کروانا بھی اسی کا دائرہ اختیار ہے ۔معلوم ہوا کہ ہر مسئلے کا قطعی حل بر سراقتدار طبقے اور اسکی قیادت کی دلچسپی، رضامندی و اتفاق رائے سے راست تعلق رکھتا ہے۔ البتہ اپوزیشن کے پاس پریشر اور دباؤ بنانے کی بے پناہ قوت ہوتی ہےجس کا بھرپور اظہار و استعمال ہوا۔زور دار تقریریں، تنقید، خامیوں کی نشاندہی، مشورے، بر سر اقتدار جماعت، اس کی قیادت اور موقف کی گھیرا بندی اس سبکی اہمیت و افادیت کا میں معترف ہوں۔

دونوں حلقے اہم ہیں دونوں پر برابر محنت ہونی چاہیے۔ دونوں فریق ہیں، نہ کوئی مستقل حلیف ہے اور نہ حریف۔ مخالفت پوری طاقت سے ہو مگر منطقی بنیاد اور مستحکم دلیل کے ساتھ جذباتی تقاریر زیادہ کام کی نہیں ہوتیں۔مخالفت و موافقت  میں بھی انتہائی کیفیت سے بچنا چاہئے۔ مت بھولیے دونوں طرف ہوتی سیاست ہی ہے۔ میں اندھی تقلید، اندھی تعریف، غیر مشروط موقف، انتہائی بیانیہ، بیجا چیلنج کشی، ان کہی کہنے، انہونی کاوعدہ کرنے، عوامی جذبات میں غیر ضروری تلاطم پیدا کرکے ذاتی و جماعتی سیاسی استعمال و استحصال کے حق میں کبھی نہیں۔

مسلمانان ہندکو آج کی زمین اور دیوار پر لکھا اپنے روایتی موافقین اور مخالفیں دونوں کو سمجھنے اورانھیں برابر سے موقع دینے کی دعوت دیتا ہے۔یہ سیاست ہے جو منافقت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، اخلاص اور اعتماد سے اسکا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ شطرنج کی وہ چوسر جس میں کبھی بھی کوئی چال کسی کو بھی مات دے سکتی ہے اس کادوستی یاری اور وفا و جفا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ہم ایک جذباتی وحدت ہیں لوگ ہمارے جذبات سے کھیل جاتے ہیں تھوڑا معتدل مزاجی اور محتاط رویے میں زیادہ خیر ہے۔

  اب اس طرف چلتا ہوں جو مسلمانان ہند کے بالعموم اور ذمہ دارن ملت کے گلے سے بالخصوص ابھی تک نیچے نہیں اترا ہے، گو کہ وہ تلخ ہے، تکلیف دہ ہو سکتا ہے مگر حقیقت ہے۔ میں تین دہائیوں سے مخصوص پس منظر میں اپنی فکر اور دائرہ اظہار رکھتا ہوں۔ کل بھی تنہا تھا اور شاید کچھ مخصوص حوالوں سے آج بھی۔ معاذ اللہ شاید ہم فکری جمود کو ہی بہتر حکمت عملی سمجھتے ہیں نجی طور پر ذمہ داران ملتے اور مانتے ہیں مگر آگے کی جرأت نہیں۔وطن عزیز ہندوستان ایک ہندو اکثریتی ملک ہےجس کی تشریح کل دائیں بازو کی سیاست و ثقافت ہندو استھان سے کرتی تھی۔ اب اس کو بھارت کا با ضابطہ نام دے دیا گیا ہے۔البتہ تشریح وہی ہے۔ اوقاف کے حوالے سے اتنا کہوں گاکہ ۱۷۵۷ میں عملاً انگریزوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد  جب آج کی نئی دہلی جہاں اقتدار کے ایوان، وائسرائے ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر سہولیات کا نقشہ بنایا تب اس حلقے میں بڑے مسلم اوقاف پر قبضہ کرکے یہ سب بنا، آزادی کے بعد گرین لینڈ کے نام سے بڑا حصہ مرکزی سرکار نے قانون بناکر ہتھیا لیا، اس کے بعد نجی اور سرکاری طور پر قبضے ہوئے جو سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ناجائز سرکاری اور غیر سرکاری تعمیرات، ہماچل، پنجاب اور ہریانہ میں ہزاروں مساجد پر قبضے، اس سب کے ساتھ جن لوگوں کو وقف بورڈوں میں امامت اور رکنیت ملی انھوںس نے چند کوڑیوں کے بدلے نجی فائدے اٹھائے، ایک انکوائری حقیقت سے پردہ اٹھا دے گی، خرد برد ، فائلیں بیچنا، غائب کرنا، مساجد کو ذاتی ملکیت بنالینا، جعلی کرائے نامے، رکنیت کو آلہ کار بناکر میر جعفر اور میر صادق کا کردار،اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ قوانین پر قوانین بنتے گئے مگر بے ایمانی،بد دیانتی اور خرد برد کبھی بند نہ ہوئی آگے بھی یہی سب رہنے والا ہے۔ بس کھلاڑی بدلیں گے۔ملی بے حسی کا عالم باتیں اور ڈینگیں بہت بلند و بالا۔ نوجوانوں میں فحاشی اور نشہ عام، بے پردگی، بے حیائی عام ہوگئی ہے۔ یہ سب ہم کو نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں سےبارہ ہزار کروڑ کی آمدنی ہونی چاہیے تھی وہاں سے محض پونے دو سو کروڑ ذمہ دار کون؟

 مخالف تو اپنی وضع اور ایجنڈے پر ہے مگر آپ کی حمیت، غیرت و خودداری کہاں؟آج احتجاج سے کہیں زیادہ اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اوقاف ۱۹۵۴ سے ہمارے ہی پاس ہے، آگے بھی رہنے والا ہے حشر کا ذمہ دار کون؟

11 اپریل 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/waqf-amendment-act-unconventional-response/d/135159

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..