وجاہت مسعود
یہ جو عبد الرب نشتر نے نظام دکن کی دولت سے استفادے کا ذکر فرمایا، اس سے ان کی معاشی سوجھ بوجھ تو خیر اظہر من الشمس ہے لیکن یہ جاننا چاہئے کہ معاشی بصیرت کا یہ سلسلہ سردار عبدالرب نشتر ہی پر موقوف نہیں تھا ۔ اقتصادیات میں اس سادہ لوحی کے نمونے ہماری قیادت کے ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس 1937منعقد لکھنو میں مولانا شوکت علی نے فرمایا ، ‘‘ سنور، جواہر لال (نہرو) کہتا ہے کہ مسلمانوں کا کلچرو لچر کوئی نہیں ، یہ سارا جھگڑا روٹی کا ہے ۔ارے بھائی روٹی پرتو کتے لڑاکرتےہیں ’’۔اگر چہ جلسہ عام خوب قہقہے لگے ،تالیاں پٹیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ سیاست میں روٹی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں، تاریخ ان پر ہنستی ہے۔
1971کے موسم گرما میں پاکستانی افواج مشرقی پاکستان میں بغاوت اور خانہ جنگی کا مقابلہ کررہی تھیں۔ ان کے سپہ سالار محترم لیفٹیننٹ جنرل (تب ) نکاخان تھے ۔ ایک غیر ملکی وقائع نگار نے ان سے دریافت کیا کہ اس لڑائی کے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے۔ نکاخاں صاحب نے فوجی قطعیت سے جواب دیا۔‘‘ پیسوں کی کوئی کمی نہیں ۔ ہمارے پاس کراچی میں ایک ٹکسال موجود ہے ۔ میں حکومت سے جتنی رقم مانگوں گا، وہ مجھے فوراً چھاپ کے بھیج سکتی ہے’’۔
تقسیم ہند کی پوری داستان سیاسی معاملات میں غیر واضح حکمت عملی اور عوام کے جذبات سے کھلواڑ کی کہانی ہے اور اس میں کانگریس یا مسلم لیگ کی تخصیص نہیں کی جاسکتی ۔ پنڈت نہرو نے ایک غیر ذمہ دارانہ پریس کانفرنس سےکیبنٹ مشن پلان کا تیار پانچا کردیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی راست اقدام کی سیاست بر صغیر کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ فسادات پر منتج ہوئی ۔روزنامہ انقلاب کے مدیر مولانا غلام رسول مہر نے تقسیم پنجاب کے ضمن میں عوام کی توقعات کو غیر حقیقت پسندانہ سطح تک بڑھانے کے بارے میں لکھا تھا۔
‘‘مسلم لیگ کے لیڈروں خصوصاً پنجابی لیڈروں نے جو بیانات پے درپے دیے یعنی یہ کہ پاکستانی پنجاب کی حدیں ستلج سے بھی آگے نکل جائیں گی۔یہ بیانات یا تو پرلے درجے کی نالائقی اور سیاست کی نافہمی کی دلیل تھی یا سمجھنا چاہئے کہ دیانت کیشی کے خلاف تھے۔ ان کی وجہ سے سادہ لوح عوام غلط فہمیوں میں مبتلا ہوئے ۔خود میرے جالندھری عزیز مدت تک کہتے رہے کہ ہم پاکستان میں آئیں گے ۔ حالانکہ میں نے نقشہ بنا کر ‘انقلاب’ میں چھاپ دیا تھا اور صاف لکھ دیا تھا کہ گوردا سپور کے بچنے کا بھی بظاہر کوئی امکان نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہنگامہ کشمکش کی سرگرمیوں میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ عقل وفہم سے کم تر کام لیا جاتا ہے ۔ لیکن سیاسی فیصلوں میں کاروبار کی باگ ڈور جذبات کے حوالے نہیں کی جاسکتی ۔ہمارے ہاں موازنہ نفع وضرر کا پہلو برابر کمزور رہا۔ ا س کا سبب ناواقفی بھی ہوسکتا ہے۔ بے حسی اور سہل انگاری بھی ’’۔
اسی رویے اور دانستہ ابہام کے بارے میں عاشق حسین بٹالوی اپنی گراں قدر تصنیف ‘ہماری قومی جد وجہد ’ میں لکھتے ہیں۔
‘‘1942کے نومبر میں ملک برکت علی نے قائد اعظم کو لکھا کہ اگر واقعی مسلم لیگ کی قرار داد لاہور کے مطابق ہندوستان کی تقسیم ہمارے پیش نظر ہے تو ہمیں چاہئے کہ ابھی سے ایک کمیٹی بنالیں جس میں بعض مسلم لیگی لیڈروں کے علاوہ چند جغرافیہ دان ، مؤرخ ،قانون دان ، ماہر اقتصادیات ، زبان دان، انجیبئر ،ریٹائر ڈ مسلمان فوجی افسر وغیرہ شامل ہوں تاکہ ہندوستان کا ہر پہلو سامنے رکھ کر غور کیا جائے کہ تقسیم کی نوبت آئی تو حد بندی کی لائن کہاں پڑنی چاہئے ۔ ملک صاحب کا یہ خط میں نے پڑھا ضرور تھا لیکن کچھ معلوم نہیں قائد اعظم نے اس کا جواب کیوں نہ دیا تھا۔ یہ احساس مجھے اب تک پریشان کررہا ہے کہ ہم نے سات سال میں تقسیم ہند کا کوئی نقشہ ،کوئی فارمولا ‘‘بلیو پرنٹ’’ تیار نہ کیا۔ سات سال مسلسل نعروں ،تقریروں اور بیان بازیوں میں صرف کردیے ۔ بالآخر جب قرار داد لاہور کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو چودھری ظفر اللہ خاں کو صرف تین دن کی مہلت دی گئی کہ اس قلیل عرصے میں تن تنہا بیٹھ کر کیس بھی تیار کریں اور گزشتہ ایک سوسال کا تاریخی مواد بھی فراہم کریں’’۔
سر ظفر اللہ خان باؤنڈ ری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کی صفوں میں تقسیم کے بارے میں ابہام نیز بدانتظامی کے بارے میں ان کے مشاہدات ان کی خود نوشت سوانح ‘ تحدیث نعمت’ میں شامل ہیں۔
‘‘میں اپنے انداز ے سے ایک دن پہلے لاہور پہنچ گیا۔ نواب صاحب ممدوٹ سے معلوم ہوا کہ ریڈ کلف لاہور پہنچ چکے ہیں اور دوسری صبح گیارہ بجے فریقین کے وکلا کو طلب فرمایا ہے۔ نواب صاحب نے فرمایا کہ کل ڈھائی بجے بعد دوپہر میرے مکان پر تمہاری ملاقات ہمارے وکلا کے ساتھ ہوگی... دوسرے دن منگل کی صبح گیارہ بجے ہم سر سیرل ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔کمیشن کے اراکین جسٹس دین محمد، جسٹس محمد منیر چند مہا جن اور جسٹس تیجا سنگھ موجو دتھے ۔سرسیرل نے کمیشن کا پروگرام بتاتے ہوئے حکم دیا کہ آئند جمعہ کو دوپہر تک فریقین اپنے بیانات داخل کریں...منگل کی دوپہر ہوچکی تھی اور تحریری بیانات جمعہ کی دوپہر تک داخل کیے جانا تھے۔ اس وقت تک مجھے اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ میرے ساتھ کون وکلا صاحبان کام کریں گے او ر انہوں نے تحریری بیان یا اس کے لیے ضروری مواد تیار کرلیا ہے یا نہیں ؟مجھے اس وقت تک یہ بھی نہیں بتلا یا گیا تھا کہ ہماری طرف سے کمیشن کے روبرو کیا دعا پیش کیا جانا تھا۔ میں بے تابی سے وکلا کے ساتھ ڈھائی بجے ہونے والی میٹنگ کا منتظر تھا کہ ان سب امور کے متعلق تفاصیل معلوم کروں ۔۔ (ممدوٹ ولا میں ) بہت سے وکلا اصحاب موجود تھے۔ مجھے کسی قدر حیرت ہوئی کہ اتنے قانون داں اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے۔ میں نے وکلا صاحبان سے دریافت کیا کہ آپ میں سے کون کون صاحب اس کیس میں میرے رفیق کا رہیں ؟ اس پر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کس کیس میں ؟ میں نے کہا ‘ اسی حد بندی کے کیس میں جس کے لیے میں حاضر ہواہو ں’ ۔ خلیفہ شجا الدین صاحب نے فرمایا ہمیں تو کسی کیس کا علم نہیں۔ ہم سے تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ تم کیس کی پیروی کے لیے آئے ہو اور اس کمیشن کے روبرو مسلم لیگ کا کیس تم پیش کروگے۔ میں نے نواب صاحب کی طرف استفساراً دیکھا تو وہ صرف مسکرادیے ۔ میں نہایت سراسیمگی کی حالت میں اٹھ کھڑا ہوا۔ وکلا صاحبان سے معذرت خواہ ہو ا کہ وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری کرنی ہے۔ اس لیے رخصت چاہتا ہوں۔(جاری(
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط15)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط17)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط18)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط19)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط20)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط21)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-21/d/2929