وجاہت مسعود
کراچی سے محترم مشفق احمد کا گلہ موصول ہوا ہے کہ خاکسار نے اس سلسلہ مضامین کی گزشتہ اقساط میں مسلم لیگ کی معتبر قیادت کے حوالے نہیں دیے ۔ محترم قاری کی شکایت سرآنکھوں پر لیکن اس امر کی نشاندہی میں حرج نہیں کہ مسلم لیگ کی قیادت کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح کے ایک سے زیادہ ارشادات تاریخ کاحصہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے پاکستان بننے کے بعد ایک موقع پر کہا کہ ‘‘پاکستان میں نے اپنے ٹائپ رائٹر کی مدد سے بنایا ہے’’۔ ان سے ایک او رجملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت کو ‘کھوٹے سکوں’ سے تشبیہ دی تھی۔ دراصل آزادی کے بعد خط تقسیم کے دونوں طرف آزادی کی جد وجہد میں کردار ادا کرنے کے دعویدار وں کی کھیپ پیدا ہوئی ۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد گاندھی کے نو دریافت جی کے نودریافت شدہ ساتھیوں کے بارےمیں جو ش ملیح آبادی کا یہ مصر ع زبان زد عام ہے۔
کھدر پہن پہن کر بداطوار آگئے
شاعری کی بات چھڑی تو پاکستان میں بھی قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کوئی 35برس تک آزادی کی جدوجہد میں اپنے کارنامے بزبان خود گنواتے رہے لیکن اپنا ایک شعر انہوں نے پاکستان بننے کے بعد کبھی نہیں دہرایا جوان دنوں کی نشانی تھا جب وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران دلی میں سانگ پبلسٹی کے ڈائریکٹر تھے۔
جب تک چوروں ،راہزنوں کا ڈر دنیا پہ غالب ہے
پہلے مجھ سے بات کرے جو آزادی کا طالب ہے
گزشتہ صدی کے بے مثل براڈ کا سٹرا خلاق احمد دہلوی کی روایت کے مطابق 15اگست 1947کو دلی ریڈ یو اسٹیشن سے جشن آزادی کا جو مشاعرہ نشر ہوا تھا اس میں سردار پٹیل نے صرف حفیظ جالندھری کے کلام معجز نما کو پسند فرمایا تھا جب کہ جوش اور جگر مراد آبادی کے کلام پر چراغ پا ہوکر ریڈیو کے ڈائریکٹر کی جواب طلبی کرلی تھی۔حفیظ کا یہ انداز تو خیر ان کی افتاد طبع کا حصہ تھا لیکن جاننا چاہئے کہ فسادات کے دوران انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں کئی غیر مسلم گھرانوں کی حفاظت کی تھی۔
مسلم لیگی قیادت کی خوب پوچھی! مختصر احوال حالانکہ لیاقت علی خان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے اور قائد اعظم کے دست راست کہلاتے تھے ۔ 1937کے انتحابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے اہم دعویدار تھے ۔ تاہم مسلم لیگی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعدخود ایگری کلچرل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا ۔ سکندر حیات پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کے وزیر اعظم تھے ۔ تقریباً ہر اہم مسئلے پر قائد اعظم سے ان کا اختلاف تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ کھلے بندوں مسلم لیگ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے اور جلسوں میں مطالبہ پاکستان کی تضحیک کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ‘میں پہلے پنجابی ہوں پھر مسلمان ۔ میں مسلم لیگ کے احکامات کو حجت نہیں سمجھتا ’ ۔ سکندر جناح پیکٹ کے بعد سکندر حیات نے چن چن کر پنجاب مسلم لیگ میں علامہ اقبال کے ساتھیوں مثلاً ملک برکت علی، غلام رسول ،پیرتاج الدین اور عاشق حسین بٹالوی کو پس منظر میں دھکیل دیا۔
قرار داد پاکستان پیش کرنے والے رہنما فضل الحق بنگال میں مسلم لیگ وزارت کے وزیر اعظم تھے ۔ قائد اعظم نے انہیں وائسرائے کی وار کونسل میں شمولیت سے منع کیا تو انہوں نے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی ہی سے استعفیٰ دے دیا۔ آسام میں سر سعد اللہ مسلم لیگی وزیر اعلیٰ تھے۔ مسلم لیگ کے واضح احکامات کے باوجود وائسرائے کی وار کونسل میں شامل ہوئے ۔ بیگم شاہنواز بھی ان مسلم لیگی رہنماؤں میں شامل تھیں جنہوں نے قائد اعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے وار کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ قائد اعظم نے ان سے باز برس کی تو انہوں نے کھلے عام کہا کہ میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کونسل میں شریک ہوئی ہوں نیز یہ کہ قائد اعظم نے عورتوں کے حقوق کے لیے کیا کیا ہے اور وہ کس منہ سے انہیں وار کونسل میں شرکت سے روک سکتے ہیں۔
1937کے انتخابات میں پورے پنجاب میں مسلم لیگ کے دوار کان کامیاب ہوئے تھے یعنی ملک برکت علی اور راجہ غضفر علی خان ۔راجہ غضفر علی نے انتخابات میں کامیابی کے چند گھنٹے بعد یونینسٹ پارٹی میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘انتخابات سے پہلے ہی ان کا یونینسٹ پارٹی سے معاہدہ تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوجائیں گے’’۔ اس کے صلے میں انہیں پارلیمانی سیکریٹری مقرر کیا گیا جس کی تنخواہ پانچ سو روپے ماہوار تھی۔
بنگال میں مسلم لیگ منظم کرنے کا سہر ا سہر وردی کے سر باندھا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان نے فروری 1948میں ان کی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے ان پر غداری کا الزام لگایا تھا۔ لیاقت علی خان کے الفاظ تھے ‘‘یہ (سہر وردی) بھارت کا چھوڑا ہوا ایک کتا ہے’’۔خضر حیات مسلم لیگ کی مخلوط حکومت کے پنجاب میں وزیر اعظم رہے۔ انہی کی حکومت ختم کرنے کے لیے دسمبر 1946میں مسلم لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی ۔افتخار حسین ممدوٹ اپنے والد کے انتقال پر پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ بنائے گئے تھے ۔تقریر وتحریر میں پھسڈی اور فیصلہ سازی میں منفعل ہونے کی بنا پر ان کا لقب ‘گونگا پہلوان ’ تھا ۔قیام پاکستان کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ پران میں اور ممتاز دولتانہ میں چل گئی۔ قائد اعظم نے ہر دو حضرات کو کراچی بلا کر بنفس نفیس مفاہمت کرائی مگر لاہور پہنچتے ہی دونوں میں پھر جھگڑا شروع ہوگیا ۔ برسبیل تذکرہ ،ممتاز دولتانہ لیاقت علی کی شہ پر قائد اعظم کی مخالفت کرتے تھے۔
چوہدری خلیق الزمان یوپی مسلم لیگ کے سربراہ تھے۔قائد اعظم اور پاکستان کے بارے میں ان کے افکار Pathway to Pakistan میں درج ہیں۔ شوکت حیات کو ‘شوکت اسلام’ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ انہیں غیر پیشہ ورانہ رویہ اختیار کرنے پر وائسرائے کے ایما سے صوبائی وزارت سے محروم کیا گیا تھا۔ سرظفر اللہ خان کے مداح بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ برطانوی حکومت سے قریبی ربط ضبط رکھتے تھے ۔ دراصل انہیں مسلم لیگ میں برطانوی راج کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو ظفر اللہ خان غلام محمد کے دھڑے میں تھے۔ راجہ صاحب محمود آباد مسلم لیگی قیادت میں نمایا مقام رکھتے تھے ۔ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں ان کے اصل خیالات مختار مسعود کی کتاب ‘آواز دوست ’ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ صوبہ سرحد (سابقہ) میں مسلم لیگ کے مرد آہن عبدالقیوم خان نے 1946کے انتخابات سے دوہفتے قبل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ میا نوالی کے امیر محمد کالا باغ کو بھی پاکستان بنانے میں قربانیوں کا دعویٰ تھا۔ بحیثیت گورنر مغربی پاکستان، ایک جلسہ عام میں فرمایا ، ‘‘ پاکستان دووکیلوں نے بنایا ، ایک کھوجہ(جناح) اور ایک کشمیر ی (اقبال) ۔ دونوں کے پاس دو ایکڑ زمین نہیں تھی، انہیں کیا معلوم تھا حکومت کیسے کی جاتی ہے؟’’مذکورہ مشاہیرے کے علاوہ اگر مسلم لیگ کی صفوں میں کوئی ‘معتبر ’ نام موجود ہوتو اس سے آگہی لکھنے والے کے تشکر کا باعث ہوگی۔(جاری(
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط15)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط17)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط18)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط19)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط20)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط21)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط22)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط23)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-23/d/2939