وجاہت مسعود
1940میں خواجہ حسن نظامی نے دہلی سے ایک انگریزی ہفت روزہ ‘ڈیکٹیٹر ’ کے نام سے جاری کیا اس کے چیف ایڈیٹر خواجہ حسن نظامی کے صاحبزادے حسین نظامی بنائے گئے اور اخلاق احمد دہلوی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ۔ افتتاحی شمارے کے لیے پیغام لینے کی غرض سے اخلاق احمد دہلوی لیاقت علی خان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اتفاق سے وہاں عبدا لرب نشتر میں موجود تھے ۔ اخلاق احمد دہلوی لکھتے ہیں۔
‘‘میں نے دریافت کیا، ‘‘کیا پاکستان میں اسلامی حکومت ہوگی ؟ اس سوال پر لیاقت علی صاحب کی بجائے سردار عبدالرب نشتر نے جواب دیا ۔’’ انشا اللہ....’’ میں نے کہا لیکن جناح صاحب تو فرماتے ہیں کہ یہ ایک جدید ریاست ہوگی ترکیہ کی طرح ....لیاقت علی خان صاحب نے فرمایا تو کیا وہ اسلامی نہیں ہوگی ؟ اس پر سردار عبدالرب نشتر صاحب نے کہا کہ اسلام جدید کے خلاف نہیں ہے۔
جناب یہ فرمائیے کہ کیا آپ خلافت راشدہ کا دور واپسی لانا چاہیں گے پاکستان میں ؟ کیوں نہیں ،وہی تو لائیں گے ....او رکیا’’نواب زادہ صاحب نے پرجوش لہجے میں جواب دیا ۔ میں نے کہا ‘‘ تو پھر انجام بھی کہیں ویسا ہی نہ ہو’’۔ لیاقت علی خان کی تیوری چڑھ گئی اور ذرا ترش لہجے میں پوچھا کیا مطلب ؟ میں نے عرض کیا میرا مطلب یہ تھا کہ وہاں خلفائے راشدین میں سے تین شہید کردیے گئے تھے۔ ‘‘لا حول والا قوۃ ....یہ تم کیا کہہ رہے ہو بھئی ....’’سردار عبدالرب نشتر صاحب نے میری ایک طرح سے تائید کی اور فرمایا ‘‘یہ ٹھیک ہیں ہمیں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد قرآن مجید اور اسوۂ حسنہ ....کو سامنے رکھنا ہوگا’’۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہوگی؟ ...ہاں بھئی کیوں نہیں ہوگی۔ جمہوریت ہی ہوگی ۔ میں نے معذرت چاہی اور عرض کیا کہ جناح صاحب جہاں یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان ترکیہ کی طرح ایک جدید ریاست ہوگی وہاں اسلامک سوشلزم کی بھی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت نہ اسلام میں ہے او رنہ سوشلزم میں ۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر صاحب نے فرمایا کہ ‘‘ اسلام سوشلزم سے ان کی مراد ہوتی ہے اسلامی مساوات ،اسلامی بھائی چارا اور جدیدیت ۔تمہیں بتایا جاچکا ہے کہ یہ اسلام کے منافی نہیں ہے۔’’یہ اسلامی مملکت ہوگی کہاں ؟ نواب زادہ صاحب نے فرمایا ‘‘ جہاں جہاں اور جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔مثلاً آسام ، بنگال، پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد اور بلوچستان وغیرہ وغیرہ اور دلی؟ میں نے پوچھا’’ دلی میں اور آگرہ بھی....؟’’ ‘‘ کیو نکہ دلی اور آگرے میں مسلمانوں کی پوری تاریخ بکھڑی پڑی ہے’’۔
میں نے پوچھا کہ ‘‘جناب والا! دلی او رآگرہ تو خیر ہوئے ....لیکن ہندوستان کے باقی مسلمانوں کا کیا ہوگا؟’’ لیاقت علی خان نے فرمایا ‘‘ ہندوستان کے مسلمانوں کے تحفظ ہی کے لیے تو پاکستان بنایا جارہاہے جو لوگ ان علاقوں میں آجائیں گے جن میں پاکستان بنے گا یعنی مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے ، وہ تو گویا سوفیصد محفوظ ہی ہوجائیں گے۔ باقی جہاں جہاں اقلیت میں مسلمان ہوں گے وہ اس طرح محفوظ رہیں گے کہ پاکستان میں ہندو اقلیت میں ہوں گے اور ہندوؤں کی اس اقلیت کے خیال سے خود بخود ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان محفوظ ہوجائیں گے....یا ....وہ اگر چاہیں تو پاکستان میں جا کر بس جائیں گے’’۔
وہ پاکستان میں جائیں گے کیسے؟ سجاد ظہیر صاحب توکہتے ہیں کہ دلی جیسے شہر میں لاکھوں مسلمان ابھی ایسے ہیں جنہوں نے دلی کا لال قلعہ اندر سے اس لیے نہیں دیکھا کہ اس کاٹکٹ دو آنے ہے تو ایسے غریب مسلمانوں کو کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا؟
اس پر سردار عبدالرب نشتر صاحب نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت حضور نظام دکن عثمان علی خان کے پاس اتنا سونا ہے کہ اگر وہ دس کروڑ مسلمانوں میں مساوی طور پر تقسیم کردیا جائے او ر ہرمسلمان یہ سونا فروخت کرکے صرف بینک میں جمع کرادے تو پچاس روپے مہینہ سود کا فرداً فرداً ہر مسلمان کو گھر بیٹھے مفت میں مل سکتاہے۔ تو روپے کی تو تمہارے پاس کمی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا مگر شاید حید رآباد کی ریاست تو ہندوستان میں رہے گی ۔ لیاقت علی خان صاحب نے کہا ‘‘ جی نہیں ہم حیدرآباد کی ریاست کو بھی اپنی مملکت میں شامل کریں گے’’۔
ایک تو یہاں سود کی ‘حرمت ’ کاپہلو مد نظر رہے کہ ربا (سود) کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف حکومت پاکستان کی طرف سے نظر ثانی کی ایک آئینی درخواست 1992سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے۔ تقسیم ہند میں ایک بنیادی اصول جغرافیائی اتصال کا تھا۔ چاروں طرف سے مجوزہ بھارت میں گھری ہوئی حیدر آباد دکن کی غیر مسلم اکثریتی ریاست پاکستان میں کیسے شامل ہوتی ؟ لیاقت علی صاحب نے اس خیال ہی نہیں فرمایا ۔واضح رہےکہ جغرافیائی اتصال کی عدم موجودگی وہ اہم ترین وجہ تھی جو آگے چل کر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں مغائرت کا باعث ہوئی۔ لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی گفتگو میں مقبولیت پسندی اور یک نکاتی سیاست کے جملہ زاویے ملاخط کیے جاسکتے ہیں ۔ یعنی جہاں سے جو مطالبہ اٹھے آپ فرمادیجئے کہ یہ پورا ہوجائے گا جس نے جمہوریت مانگی اسے جمہوریت عطیہ کردی، جسے خلافت راشدہ سے شغف ہے، اسے خلافت کا لبھاؤدیا ۔ جسے سوشلزم میں دلچسپی ہے اسے اسلامی مساوات کا حوالہ دے دیا۔ جس نے پوچھا کہ ہم آگرہ والوں کا کیا ہوگا؟ اسے بتایا کہ آگرہ میں تاج محل ہے۔ پاکستان تاج محل کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتا ہے۔ جب پردہ اٹھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دلی اور آگرہ تو بہت دور ،گورداسپور اور انبالہ بھی نہیں مل سکے۔ حیدر آباد دکن کی تہذیب تو بہت دوررہ گئی ،کشمیر کی ‘پہاڑیاں ’ بھی 62برس میں سر نہیں ہوسکیں۔ اس میں یک نکاتی سیاست کا اظہار یوں ہوا کہ قوم کی تعریف صرف مذہبی وابستگی تک محدود کرلی گئی ۔ دوسرے لفظوں میں جو مسلمان ہیں وہ ایک قوم ہیں ۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت میں بنیادی اختلاف ہی یہ تھا کہ مسلم لیگ قوم کی تعریف کو عقیدے تک محدود رکھنا چاہتی تھی جب کہ کانگریس کا مؤقف تھا کہ قوم کی تشکیل میں جغرافیہ ، مشترکہ تہذیب ، زبان، مشترکہ تاریخ، رہن سہن اور معاشی عوامل بھی اسی طرح شامل ہیں جس طرح عقیدہ ۔اگر قوم کی وہ تعریف درست تھی جو مسلم لیگ نے پیش کی تو ہندوستان کے تمام مسلمان آج بھی پاکستان کے شہری تصور کیے جانے چاہئیں ۔ دوری طرف مذہب کا بندھن تو مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک نہیں رکھ سکا۔ پاکستان کی چھ دہائیوں پر محیط تاریخ میں ایک بنیادی تضاد مضبوط مرکز اور صوبائی خود مختاری کا رہا ہے۔ مرکز کو مذہب پہ اصرار رہا ہے تو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کواپنی ثقافتی شناخت اور معاشی حقوق میں دلچسپی رہی ہے۔(جاری)
Related Articles:
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 8)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط9)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط10)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط11)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط12)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط13)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط15)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط17)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط18)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط19)
قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط20)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-part-20/d/2923