New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 04:50 PM

Urdu Section ( 5 Apr 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Objectives Resolution and Secularism-7 قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)


وجاہت مسعود

شبیر احمد عثمانی کے مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بارے میں سردار شوکت حیات نے ذیل کا واقعہ بیا ن کیا ہے۔ پڑھنے والے اپنی فہم کے مطابق اس سے نتائج اخذ کرسکتے ہیں ۔‘‘دیوبندی فرقہ کے نامور عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک رات خواب میں اپنے استاد محترم کو دیکھا جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے (استاد) نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اپنے گھر سے باہر آتےہوئے دیکھا۔ وہاں پر تمام ہندوستان او ر دیوبند کے علما صف بستہ کھڑے تھے ۔ قطار کی دوسری  جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دبلے پتلے ،لمبے یورپی لباس پہنے عمر رسید ہ آدمی کو دیکھا جو ملاقات کا منتطر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ مسٹر جناح ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منہ پھیر کر سیدھے جناح کی طرف گئے اور اسے سینے سے لگالیا۔ دوران خواب مولانا شبیر احمد عثمانی کو ان کے استاد نے حکم دیا کہ قائد اعظم کے پاس جاؤ اور فوراً اس کے سیاسی مرید بن جاؤ۔ چنانچہ مولانا نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ قائد نے نواب شمس الحسن آفس سیکرٹری مسلم لیگ کو مولانا کے قیام دہلی کے دوران ان کی مناسب دیکھ بھال کا حکم دیا’’۔

قیام پاکستان کے بعد منظور ہونے والی قرار دادمقاصد سے شبیر احمد عثمانی کے تعلق کے بارے میں سردار شوکت حیات لکھتے ہیں ۔

‘‘مولانا شبیر احمد عثمانی کے دباؤ کے تحت لیاقت علی خان نے ان کے مطابق منظور کر کے انہیں پاؤں جمانے کا موقع دیا۔ لیاقت علی خان نے ایک قرار داد مقاصد متعارف کرائی جو بعد میں اس نام نہاد اسلامائز یشن کے لیے ایک  حربہ ثابت ہوئی جس سے قائد اعظم نے انتہائی محتاط انداز میں پہلو تہی کی تھی اس لیے کہ پاکستان میں بہت سے غیر مسلم بھی آباد تھے’’۔

راقم التحریر کی رائے میں یہاں سردار شوکت حیات سے سہو ہوا ہے۔ قائد اعظم اسلامائزیشن سے اس لیے گریزاں نہیں تھے کہ پاکستان میں ‘‘ بہت سے غیر مسلم بھی آباد ہیں’’۔قائد اعظم ریاست کے جدید اداروں کے تار و پود سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ سیاست میں شریعت کو دخل دینے سے محض غیر مسلموں ہی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا بلکہ اس سے پاکستانی  مسلمانوں کے شہری اور جمہوری حقوق متاثر ہونا بھی ناگز یرتھا۔

پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوششوں کے بارے میں سردار شوکت حیات کی رائے واضح ہے۔

‘‘یہ کہنا کہ پاکستان کو اسلامی بنیاد پرستی کے فروغ کے لیے بنایا گیا تھا، قائد اعظم پر جھوٹا الزام دھرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے کہ مذہبی رہنماؤں کی اکثریت قیام پاکستان کی حامی نہیں تھی۔ اگر وہ تحریک پاکستان کو تحریک اسلام سمجھتے تھے جیسا کہ وہ آج کہتے ہیں تو پھر انہوں نے اس وقت پاکستان کی حمایت کیوں نہ کی؟ حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ (کیا عالم اور کیا پیر) بڑھ چڑھ کر اس تحریک کی مخالفت کررہے تھے ۔ آج وہ بچوں کے لگائے گئے نعروں کو (مثلاً پاکستان کا مطلب کیا الا الہ الا اللہ) کو نعرہ پاکستا ن کہہ رہے ہیں۔ یہ نعرہ قائد اعظم یا ہم میں سے کسی نے نہیں لگایا۔’’

اسلامی نظام اور مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کے ضمن میں چوہدری خلیق الزماں کی رائے بھی سن لیجئے جو مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ اپنی عمر کے آخر برسوں میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں انہوں نے کہا ‘‘ تحریک پاکستان کا بنیادی مقصد ہندوؤں کے معاشی غلبے اور استحصال سے نجات حاصل کرنا تھا، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا سوائے جذباتی وابستگی کے۔’’

ہندوستان میں قیام کے آخری دنوں میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستانی فوج کے سربراہ آکن لیک کے اے ڈی سی لیفٹیننٹ کرنل (بعد ازاں میجر جنرل ) شاہد حامد کے گھر پر 3اگست 1947کو ایک دعوت میں شرکت کی۔ شاہد حامد اپنی کتاب ‘دنیا بدل گئی’ میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر قائد اعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘‘پاکستان کی منتخب حکومت ایک سویلین حکومت ہوگی اور کوئی جو جمہوری اصولوں کے خلاف سوچتا ہے ،اسے اپنے لیے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے’’۔

قائد اعظم کی سیاسی فکر اور قرار داد مقاصد میں تعلق کے بارے میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس محمد منیر نے بھی رائے دی ہے۔ اپنی کتاب ‘‘جناح سے ضیا تک’’ کے صفحہ 29پر لکھتے ہیں۔

‘‘ اگر قرار داد مقاصد قائد اعظم کی زندگی میں پیش کی جاتی تو شاید اس کے بارے میں کوئی ابہام پیدا نہ ہوتا لیکن لیاقت علی خان اچھی طرح جانتے تھے کہ قائد اعظم اس قسم کی کسی قرار داد پر رضا مندی نہیں ہوں گے کیو نکہ یہ ان کے عوامی سطح پر متعدد مرتبہ بیان کیے گئے خیالات سے صریحاً متصادم تھی۔ یہ قرار داد قائد اعظم کے جدید جمہوری اور سیکولر ریاست کے تصورات سے قطعی طور پر لگا نہیں کھاتی ’’۔

معروف صحافی احمد بشیر نے اپنی کتاب ‘خون جگر ہونے تک’ میں میاں ممتاز دولتانہ سے روایت کیا ہے کہ ‘‘مولانا شبیر احمد عثمانی اور نوابز ادہ لیاقت علی خان نے مری میں بیٹھ کر صلاح کی کہ پاکستانی عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لیے ضروری ہے کہ قرار داد مقاصد کو آئین پاکستان کا دیباچہ بنادیا جائے’’۔

پاکستان کے پہلے صدر سکند ر مرزا نے اپنی یاد داشتوں میں قرار داد مقاصد کے محرکات کے ضمن میں لکھا ، ‘‘ میں نے وزیر اعظم (لیاقت علی) سے پوچھا کہ وہ یہ قرار داد کیوں سامنے لائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘میں نے ایسا اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے کیا ہے کیو نکہ کچھ لوگ مجھے باہر سے آیا ہوا سمجھتے ہیں۔’’

ہندوستانی مسلمانوں میں سے مولانا حسرت موہانی کی طرف سے قرار داد مقاصد کی مخالفت تاریخ کا حصہ ہے۔ احمد بشیر لکھتے ہیں کہ انہوں نے 1951میں مولانا حسرت موہانی سے دریافت کیا کہ ‘‘قرار داد مقاصد تو اللہ کی حاکمیت کی توثیق کرتی ہے۔ آپ اس کے  کیوں مخالف ہیں؟ ’’ مولانا حسرت موہانی نے جواب دیا، ‘‘قرار داد مقاصد یعنی ‘لا حکم الا اللہ ’ خارجیوں کا نعرہ تھا ۔ جانتے ہو حضرت علی نے اس پر کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک ارفع نظر یہ ہے مگر اسے باطل کے استحکام کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لیاقت علی خان اس ملک پر جاگیر دارو ں او رمولویوں کی مدد سے راج کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکے گا۔’’

پاکستان میں مذہبی علما ایسی شریعت کے نفاذ کے داعی تھے جو نہ کبھی بغداد میں نافذ ہوئی اور نہ ہسپا نیہ فاطمی خلافت میں۔ سلطنت عثمانیہ سات برس سے زیادہ مدت تک قائم رہی۔ وہاں مذہبی پیشواؤں نے نہ کبھی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور نہ انہیں اس کی اجازت مل سکی۔ ہندوستان میں مسلمان خاندانوں کا اقتدار ساڑھے آٹھ سو برس پر محیط تھا۔ اس دوران کسی مذہبی پیشوا کو ہمت نہ ہوسکی کہ شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرے۔(جاری)

Related Articles:

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 1)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 2)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 3)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 4)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 5)

قرار داد مقاصد اور سیکرلرازم: (قسط 7)

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/objectives-resolution-secularism-7-/d/2660

 

Loading..

Loading..