وحیدالدین خان
07 دسمبر 2012
(انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام)
اعلی تحقیقات نے یقینی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ زندگی میں ہمیں جو دکھتا ہے، اس سے بھی کہیں زیادہ ہے : حقیقت میں، زندگی کے تمام عظیم حقائق ہماری سمجھ سے باہر ہیں ۔
قدیم زمانے میں، پانی صرف پانی تھا۔ اس کے بعد 19ویں صدی میں خوردبین کی ایجاد ہوئی ۔ جب اس میں پانی کو رکھا گیا، تو چونکادینے والی دریافت سامنے آئی اور وہ یہ کہ ، اس میں ان گنت زندہ بیکٹیریا موجود ہیں۔ اسی طرح، ستارے جنہیں کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ان تمام کو آسمانی اجسام سمجھا جاتا تھا، جو موجود تھے ۔ اب آسمان کا، طاقتور دوربین کے ذریعہ اسکین کر لیا گیا ہے ، اور معلومات خلائی تحقیقات سے واپس بھیجی جا رہیں ،کہ کائنات کی حقیقی وسعت کو کم سمجھا جا رہا ہے ۔
یہ دو مثالیں قدیم اور جدید دور میں سوچ میں فرق کو واضح کرتی ہیں ، جو کہ جدید ٹکنالوجی نے پیدا کیا ہے ۔ مختلف شعبوں میں دوسری قسم کی تحقیق نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ، اس دور میں جب انسان ،بے حمایت اور سادہ مشاہدہ کے دائرے تک محدود تھا ، اس کے ذریعہ تصور کئے گئے حقائق سے بھی زیادہ بہت سے دوسرے حقائق موجود ہیں ۔ لیکن ان نئے انکشافات نے موجدوں کی اس قدر حوصلہ افزائی کی کہ انہوں نے یہ دعوی کرنے میں، خود کو حق بجانب محسوس کیا کہ، حقائق اس قدر قابل تشخیص تھے، کہ ان کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا تھا، اور یہ کہ ہم جس چیز کا تجربہ یا مشاہدہ نہیں کر سکے وہ محض مفروضہ تھا ، اور اس وجہ سے موجود ہی نہیں تھا ۔
انیسویں صدی میں، اس دعوی نے عظیم جوش و خروش پیدا کر دیا ، جو کہ مذہب کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ تھا۔ یہ حقیقت، کہ مذہبی عقائد، غیب میں یقین پر مبنی ہیں، جو کہ نا قابل مشاہدہ ہے اور نہ ہی قابل مظاہرہ ہے، بہت سے لوگوں کواس نتیجے پر لے گئی کہ مذہبی عقائد ،فرضی اور خلاف واقعہ ہیں ۔
تاہم، بیسویں صدی کی تحقیق، مکمل طور پر اس کے بر عکس ہے، اعلی تحقیقات نے یقینی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ زندگی میں ہمیں جو دکھتا ہے اس سے بھی کہیں زیادہ ہے : حقیقت میں، زندگی کے تمام عظیم حقائق ہماری سمجھ سے باہر ہیں ۔
برٹرینڈ رسل کے مطابق علم کی دو قسمیں ہیں: چیزوں کا علم اور سچائیوں کا علم ۔ صرف چیزوں کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے: سچائیوں کو، صرف بالواسطہ مشاہدے کے ذریعہ ، یا دوسرے الفاظ میں ، استدلال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کائنات میں روشنی، کشش ثقل، مقناطیسیت اور نیوکلیائی توانائی کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے، لیکن انسان براہ راست ان چیزوں کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ وہ انہیں صرف ان کے اثرات کے ذریعہ جانتا ہے۔ انسان کچھ ایسی چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، جس سے وہ سچائیوں کے وجود کا استدلال کرتا ہے ۔
علم کے تصور میں اس تبدیلی نے جو بیسویں صدی میں ظاہر ہوئی ، پوری صورت حال یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا، کہ انسان ان چیزوں کے وجود کو قبول کرنے پر مجبور تھا ، جنہیں وہ براہ راست نہیں دیکھ سکتا تھا، بلکہ اس کا صرف بالواسطہ طور پر تجربہ کر سکتا تھا ۔ اس فکری انقلاب کے ساتھ ہی ،دیکھی اور اندیکھی حقیقت کے درمیان فرق پیدا ہو گیا۔ پوشیدہ اشیاء اتنے ہی اہم ہو گئے جتنے ظاہری اشیاء ۔ انسان بالواسطہ یا استنباطی دلیل کو قبول کرنے پر مجبور تھا ، جو کہ علمی طور پر اتنے ہی مضبوط تھے جتنے براہ راست دلائل ۔
ہمارے اپنے دور میں الٰہیاتی منطق صحیح معنوں میں سائنسی ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر، مذہب کے لئے سب سے بڑی دلیل وہ ہے جسے فلسفی تدبیر ی دلیل کہتے ہیں۔ انیسویں صدی کے علماء کرام نے ، جذبات میں ، اس استدلال کو قبول نہیں کیا۔ ان کے لئے یہ ایک استنباطی دلیل تھی اور اس وجہ سے، تعلیمی اعتبار سے مستحکم نہیں تھی ۔ لیکن موجودہ دور میں، اس اعتراض کو باطل کر دیا گیا ہے۔ آج کل انسان، کائنات میں ایک تدبیر کے وجود سے کائنات کے ایک مدبر کے وجود کا استدلال کرنے پر مجبور ہے، بالکل اسی طرح جس طرح وہ ایک پہئے کی نقل و حرکت سے برقیہ بہاؤ کے اصول قبول کرتا ہے ۔
برٹرینڈ رسل کا ایک بیان اس معاملے پر کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ‘‘Why I am not a Christian’’ کے مقدمے میں لکھا ہے: میں دنیا کے تمام عظیم مذاہب - بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت، اسلام اور کمیونزم - کو غلط اور نقصان دہ دونوں سمجھتا ہوں ۔ یہ منطق کی بات کے طور پر واضح ہے، چونکہ ان میں آپس میں عدم اتفاق ہے ، ان میں سے کوئی ایک ہی سچ ہو سکتاہے ۔ بہت کم مستثنیات کے ساتھ، ایک آدمی جس مذہب کو قبول کرتا ہے، وہ اسی کمیونٹی کا ہے،جس میں وہ رہتا ہے، جو اسے سوال میں واضح کرتا ہے کہ وہ ماحول کا اثر و رسوخ ہے، جو اس کے مذہب قبول کرنے کی وجہ بنا۔
جیسا کہ رسل تسلیم کرتا ہے، تدبیر سے ایک مدبر کے وجود پر دلیل قائم کرنا ، اپنے آپ میں ایک سائنسی دلیل ہے۔
وہ عالمانہ ایجاد سچ ہے، جو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ، منطقی دلائل کو تسلیم کرتا ہے، اور یہ دلائل، یا اسی طرح کے دوسرے، بہت سے نامور فلسفیوں کے ذریعہ قبول کر لئے گئے ہیں ، لیکن وہ منطق جس کی اپیل یہ روایتی دلائل کرتے ہیں ، فرسودہ ارسطوانہ ہو گئے ہیں ، جنہیں کیتھولک کے علاوہ، عملی طور پر تمام منطقیوں کے ذریعہ مسترد کر دیا گیا ہے۔ صرف ایک ہی دلیل ہے جو خالصتا منطقی نہیں ہے ۔میرا مطلب تدبیر ہے۔
تاہم، اس دلیل کو ڈارون کے ذریعہ رد کر دیا گیا تھا، اور، کسی بھی صورت میں، صرف خدا کی قدرت مطلقہ سے انکار کرنے کی قیمت پر ہی منطقی طور پر قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔
تدبیر سے مدبر کے وجود پر دلیل دینا، جیسا کہ رسل نے تسلیم کیا ہے ، اپنے آپ میں ایک سائنسی دلیل ہے۔ یہ دلیل وہ ہے جسے خود سائنس کچھ بھی ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ رسل، اس کے بعد ڈارون کا نظریہ ارتقاء کے حوالہ دیتے ہوئے، اس دلیل کو مسترد کرنے کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ تردید صرف اس صورت میں قابل قبول ہوگی، جب خود ڈارون کی تھیوری سائنسی طور پر قائم کی گئی ہو ۔ لیکن سائنسی تحقیق نے، ڈارونیت کو سائنسی حقیقت ثابت کرنے کے بجائے صرف ایک مفروضہ ثابت کیا ہے۔ لہذا، تدبیرسے دلیل کی صحت کے بارے میں رسل کا پہلا یہ بیان ہے، جسے ضرور غالب ہوناچاہیے ۔ ڈارونیت کی بنیاد پر اس دلیل کی تردیدبے بنیاد ہے۔
ماخذ:
: http://www.onislam.net/english/shariah/shariah-and-humanity/460300-religion-and-reason.html
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/religion-reason/d/9647
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/religion-reason-/d/11471