New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 03:31 AM

Urdu Section ( 9 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Wahdat-ul-Wujood in Verse: The Poetry and Philosophy of Hazrat Zaheen Shah Taji وحدت الوجود اشعار میں: حضرت زہین شاہ تاجیؒ کی شاعری اور فلسفہ

 ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

 08 نومبر 2024

 ایک عظیم اللہ کے ولی بابا تاج الدین ناگپوری رحمہ اللہ، اور ایک صوفی شاعر اور عالم دین حضرت ذہین شاہ تاجی کو ان کے روحانی اثر اور اتحاد کی دعوت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری اور کارناموں نے صوفی روایات کے اندر ایک لازوال میراث چھوڑی ہے، جو نسل در نسل انسانوں کو تصوف و روحانیت کی دعوت دیتی رہتی ہے۔

 اہم نکات

 1. بابا تاج الدین کا اثر: بابا تاج الدین ناگپور کے ایک عظیم ولی اللہ تھے، جن کی تعریف مہاتما گاندھی سمیت مختلف مذاہب کے پیروکار کیا کرتے تھے۔

 2. ابتدائی جدوجہد: پچپن میں ہی یتیم ہوئے بابا تاج الدین نے فوج میں خدمات انجام دیں، اور بعد میں حضرت داؤد صاحب کے تربیت میں تصوف و روحانیت کا راستہ اختیار کیا۔

 3. ذہین شاہ تاجی کا کردار: بابا تاج الدین کے مرید کے مرید کے طور پر، ذہین شاہ تاجی اردو اور فارسی میں اپنے شاعرانہ کاموں کے لیے مشہور ہیں۔

 4. صوفی ادب: ذہین شاہ تاجی نے تصوف کی بڑی بڑی کتابوں کا ترجمہ کیا اور کتابیں لکھیں، جن میں بابا تاج الدین کی سوانح حیات بھی شامل ہے۔

 وہ تاج الدین ناگپوری تھے، مہاراشٹر کے ایک عظیم ولی اللہ۔ ایک مقناطیسی، صوفیانہ اور روحانی ہستی کے مالک، حضرت بابا تاج الدین کی عظمت و بزرگی کو بہت سی بڑی بڑی ہستیوں نے تسلیم کیا، جن میں مہر بابا اور مہاتما گاندھی بھی شامل ہیں۔ ان کی پر اسرار زندگی نے حضرت تاج الدین کو بے پناہ دلچسپ کردار بنا دیا تھا۔

 وہ 27 جنوری 1861 کو ناگپور کے قریب کامتھی میں پیدا ہوئے۔ ان کی دادی نے یتیم ہونے پر ان کی پرورش کی، کیونکہ ان کے والد اور والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے جب ان کی عمر کافی کم تھی۔ انہوں نے کامتھی کے ایک مدرسے میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور پھر تعلیم کے بعد ناگپور رجمنٹ نمبر 13 میں بھرتی ہو کر اپنی زندگی کا سفر آگے بڑھایا۔ لیکن اصل روحانی سفر ساگر میں حضرت داؤد صاحب سے ملاقات کے بعد شروع ہوا، جنہوں نے آگے چل کر ان کی رہنمائی فرمائی۔ بابا تاج الدین فوج کو چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکنے لگے، جس سے ان کے خاندان اور معاشرے میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ سب نے کہا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ لیکن بابا تاج الدین نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اس کے بجائے، وہ ان پتھروں کو جمع کرتے تھے جو بچے ان کے اوپر پھینکا کرتے۔ انہوں نے ان تمام باتوں کو اپنے نیک مقصد کی نشانیاں قرار دیا۔ اس طرح کے رویے کو دیکھتے ہوئے، انہیں 1892 میں ایک جیل میں ڈال دیا گیا، لیکن اس کے باوجود بابا تاج الدین جیل کے باہر گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔

 1908 میں، مہاراجہ رادھا جی راؤ بھونسلے کی مداخلت کے بعد، بابا تاج الدین کو رہا کر دیا گیا اور ایک محل میں رہائش فراہم کی گئی۔ وہاں ہندو اور مسلمان دونوں ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ بابا کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور بابا تاج الدین کا انتقال 17 اگست 1925 کو 66 سال کی عمر میں ہوا۔

 ان کے عقیدت مندوں میں بے شمار لوگ شامل ہیں، جو اپنے ناموں کے ساتھ 'تاجی' کا لفظ لگاتے ہیں، اور ان کی شاندار میراث کو آج تک عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے سرکردہ مریدوں میں سے ایک جو ان کے نظریہ کے بااثر ترجمان بنے، وہ حضرت یوسف شاہ تاجی تھے۔ حضرت یوسف شاہ کے ایسے ہی ایک اور عظیم مرید حضرت ذہین شاہ تاجی تھے۔ ایک بلند پایہ ہستی، وہ ایک ولی اور ادبی شخصیت دونوں تھے، جنہوں نے علم تصوف کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا۔

 1902 میں راجستھان کے جھنجھنو میں پیدا ہونے والے عالم دین حضرت ذہین شاہ تاجی کی پرورش علماء کے گھرانے میں ہوئی۔ اجمیر میں مولانا عبدالکریم جے پوری نے انہیں اپنی بائی دی، اور وہ حضرت یوسف شاہ تاجی کے زیر سایہ تھے۔ بعد میں وہ سجادہ نشین بن گئے اور اپنے شیخ کی وفات کے بعد کراچی میں بابا تاج الدین کی تعلیمات کی تبلیغ کو جاری رکھا۔

حضرت ذہین شاہ تاجی نہ صرف ایک بلند پایہ ولی تھے، بلکہ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔ ان کے قابل ذکر تراجم میں ابن عربی کی "فصوص الحکم" اور "فتوحات مکیہ" اور منصور حلاج کی شاعری شامل ہیں۔ ان کی غزلیں اور رباعیات انکشافاتِ تصوف کی گہری حکمت سے بھری ہوئی ہیں۔ سادہ انداز مگر گہرے الفاظ و معانی میں لکھی گئی ان کی غزلیں وحدت الوجود کا اظہار ہیں، اور حقانیت جیسی انسانی اقدار کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں۔

 حضرت ذہین شاہ تاجی کے چند مشہور اشعار:

آغاز اچھا، انجام اچھا

نسبت جو اچھی، ہر کام اچھا

سب نام ان کے، ہر نام اچھا

اچھوں سے اپنا ہر کام اچھا

اچھے ہیں یوں تو سب نام ان کے

وہ جس سے خوش ہوں، وہ نام اچھا

تم نے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا

اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشہ نہ بنا

عشق میں دیدہ و دل شیشہ و پیمانہ بنا

جھوم کر بیٹھ گئے ہم وہیں میخانہ بنا

یہ تمنا ہے کہ آزادِ تمنا ہی رہوں

دلِ مایوس کو مانوس تمنا نہ بنا

دلِ بیتاب کو تسکین تبسم سے نہ دے

چشمِ مجنوں کے لیے محمل لیلا نہ بنا

 حضرت ذہین شاہ تاجی کی شاعری تمام نسلوں کو روحانی غذا فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ صرف اہل ایمان کے لیے بلکہ کراچی میں حضرت یوسف شاہ تاجی کے مزار پر حاضری کے لیے آنے والوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

English Article: Wahdat-ul-Wujood in Verse: The Poetry and Philosophy of Hazrat Zaheen Shah Taji

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/wahdat-ul-wujood-poetry-hazrat-zaheen/d/133974

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..