وان حازم فواد
13 مارچ، 2015
اردن کے پائلٹ معاذ صافي يوسف الكساسبہ کی آتش سوزی کے معاملے سے پوری دنیا میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا جس کی سب سے زیادہ گونج اسلامی دنیا میں سنائی دی گئی۔ اس سلسلے میں ہم نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو سڑکوں پر نکلتے ہوئے دیکھا ، بلکہ اس موقع پر الازہر جیسے ممتاز مذہبی اداروں کو بھی اس مذموم حرکت کی زبردست مذمت کرتا ہوا پایا گیا ۔ اس کے علاوہ اس ہولناک واقعہ سے پہلے بھی معروف و مشہور مسلم علما نے مختلف مواقع پر اس نام نہاد اسلامی ریاست (داعش) کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان تمام شخصیات نے اپنی مذمتوں میں جس چیز کو اپنا عنوان بنایا وہ یہ تھا کہ اپنے اسلامی نام کے باجود (آئی ایس) "حقیقی اسلام" کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم دستاویز وہ کھلا خط ہے جو خود ساختہ "خلیفہ" ابو بکر البغدادی کو لکھا گیا تھا جس پر دنیا بھر کے 174 ممتاز مسلم شخصیات اور ترجمانوں کے دستخط تھے اور جس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا گیا تھا۔ اس خط کو فیس بک پر اب تک 100.000سے زائد لوگ لائک کر چکے ہیں۔ اگر چہ اس خط کی اشاعت کو میڈیا کوریج مل رہا ہے لیکن اس کے اصل مندرجات پر اب تک کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا اب ہم اس کے مندرجات پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہم اصل دستاویز کے مندرجات سے مطلع ہو سکیں:
اس خط کو ایک نصیحت کی شکل میں تیار کیا گیا ہےاور دلائل و براہین سے مزین آئی ایس نظریات کے خلاف ان کی اس تنقید کو واضح طور پر قانونی اور نظریاتی استدلال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلا پہلے زمرے میں اپنی دلیل کی حمایت میں سیاق و سباق کے حوالے کے بغیر قرآن کی غلط تشریح اور ترجمانی کی ممانعت، کسی ایک خاص معاملے میں ایسی مختلف رائے رکھنے کی اجازت جو کہ تمام جائز اور صحیح ہوں اور اجماع امت کے تصور کو انداز کرنے، مسلم روایت کو پامال کرنے اور اسلامی قانون کی نوعیت کو تبدیل کرنے کے الزامات مذکور ہیں۔
نظریاتی اعتبار سے مسئلہ جہاد کو انتہائی تفصیل کے ساتھ سمجھا جانا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپسی جنگ کے معاملے میں ایک اصطلاح کے طور پر جہاد کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبداللہ عزام جیسے جہادی نظریہ سازوں کے دعووں کے باوجود جہاد ایک معاشرتی ذمہ داری ہے کوئی انفرادی ذمہ داری نہیں۔ اس خط میں جہاد کی دوہری نوعیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس سلسلے میں ایک محاذ جنگ سے واپس گھر آنے کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف حدیث کا حوالہ پیش کیا گیا ہے کہ: "اب ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف واپس آ چکے ہیں"۔ جہادیوں کے اس الزام کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس حدیث کے راوی کمزور ہیں (جیسا کہ کئی جہادی ماضی میں اس طرح کے الزامات پیش کر چکے ہیں)، خط کے مصنفین نے قرآن مجید کی آیتوں اور ایک دیگر حدیث سے بھی اپنے اس پیغام کو مدلل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس طرح دستاویز کے آغاز میں کیے گئے دعووں کی تائید کی گئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی مسئلے سے متعلق قرآن اور احادیث کی تمام تعلیمات اور احکام کو نظر انداز کر کے کوئی قانونی فیصلہ جاری کرنا اسلام میں حرام ہے۔
اس نام نہاد جہاد کے پیچھے نیت، وجہ، مقصد اور اس جہاد کے لئے طرز عمل کو ایک حوالہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ان مصنفین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے اقدامات کو جہاد شمار نہیں کیا جا سکتا۔ وجوہات کے بارے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ جہاد محض ایک دفاعی جنگ ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر کہ جہاد سے اکثر جہاد الطلب مراد لیا جاتا ہے علماء کرام نے یہ کہا ہے کہ جہاد کے اس تصور سے شافعی مکتبہ فکر میں محض ایک اقلیت کی رائے کی عکاسی ہوتی ہے۔ قرون وسطی کے عظیم محقق اور عالم ابن تیمیہ سمیت جن کا حوالہ اکثر جدید جہادی پیش کرتے ہیں علماء کرام کی غالب اکثریت صرف دفاعی انداز میں ہی جہاد کو مأزون مانتی ہے۔ اس طرح مصنفین نے آئی ایس اور اس کے حامیوں کو مسلمانوں کی اکثریت کے اجماع سے خارج کرنے اور ان پر اقلیت کی رائے اور مسلم تاریخ کے نادر واقعات پر انحصار کرنے کا الزام لگانے کی کوشش کی ہے۔ جہاد کے اصول کے حوالے سے دستاویز میں یہ کہا گیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو قتل کرنا اسلام میں حرام ہے۔ تاہم، جنگی مجرموں کو پھانسی دینا بعض صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے۔ اور اس خط میں حضرت محمد کے دور حیات سے یروشلم پر صلاح الدین ایوبی کی فتح اور نورنبرگ تک کہ مثالوں کا بھی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علماء کرام اپنے حوالہ جات کو اسلام کے ابتدائی ادوار تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی تحریروں میں پوری اسلامی تاریخ اسلامی ممالک کے واقعات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔
یہ اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ ان مصنفین نے آئی ایس کو نظریاتی طور پر شکست دینے کے لیے کس طرح کی کوششیں کی ہیں۔ جبکہ بہت سی دوسری مثالوں سے جگہ کی قلت کے باعث صرف نظر کیا جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ ان مصنفین کا استدلال قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتے وقت اسلامی مصادر و ماخذ کی بہتر تفہیم، اسلامی تاریخ اور موجودہ حقائق پر گہری بصیرت کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ تاہم، اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ اس خط سے آئی ایس کےکسی بھی رکن یا حامی کے ذہن و فکر میں کوئی تبدیلی پیدا ہوگی، اگرچہ اس سے اب بھی دو اہم مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ پہلا، اس سے آئی ایس میں نئے اراکین کی ممکنہ شمولیت میں ان مقامات پر کمی واقع ہو سکتی ہے جہاں ان کے مذہبی دلائل مؤثر ہیں۔ دوسرا، اس سے غیر مسلم ممالک کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اپنے دعوے کے برعکس آئی ایس اسلام یا پوری دنیا کی مسلم کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب یوروپ اور دوسری جگہوں پر اسلام مخالف جذبات بڑی تیزی کے ساتھ فروغ پا رہے ہیں ، اس طرح کے بیانات کو مقبولیت ملنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ماخذ:
http://www.sicherheitspolitik-blog.de/2015/03/13/muslim-critique-of-is-ideology
URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/muslim-critique-ideology/d/101955
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-critique-ideology-/d/101977