New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:32 PM

Urdu Section ( 18 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Victims of the Communal Riots Are Still Sobbing خشک مظلوموں کے آنسو نہ ہوں

اختر جمال عثمانی

17اگست،2023

ہم آزادی کی۷۶ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ہر گھر پر ترنگا لہرانے کی ہدایت بھی دی مگر ان کے رویے سے نہیں لگتا کہ مظلومین کے آنسو پوچھنا بھی ان کی ترجیح میں شامل ہے۔منی پور میں گزشتہ کئی ماہ سے میتئی اور کوکی قبیلوں کے بیچ فساد جاری ہے۔ کوکی قبیلہ مذہباََ عیسائی ہے جب کہ میتئی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا کی توجہ ایک ویڈیو کے آنے کے بعد اس طرف مبذول ہوئی جس میں دو خواتین کو برہنہ کر کے پریڈ کراتے دکھایا گیا تھا۔ مظلوموں کے مطابق پولیس نے ہی ان کو فسادیوں کے حوالے کیا تھا۔ اس سے پہلے ہی اس فساد میں تقریباََ ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہو چکے تھے اور پچاس ہزار سے زیادہ لوگ کیمپوں میں منتقل کئے جا چکے تھے۔ پولیس کے ہزاروں ہتھیار فسادیوں نے لوٹے تھے جن میں سے زیادہ تر ابھی برآمد نہیں کئے جا سکے ہیں۔ حیرت انگیز ہے کہ۴؍ مئی کے اس واقعے کی ویڈیو۱۹؍ جولائی کو جاری ہوئی تب کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔وزیر اعلیٰ نے اس اعتراف کے بعد بھی کہ اس ویڈیو جیسے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں اپنا عہدہ نہیں چھوڑا ہے۔ اس دوران وزیر اعظم امریکہ، یوروپ،اور عرب ممالک کا دورہ کرتے رہے، منی پور کے معاملہ میں لب کشائی نہیں کی ۔ منی پور میں کوکی لوگوں پر ہوئے مظالم پر یوروپی یونین نے قرار داد منظور کی جس سے ملک کی سبکی ہوئی وزیر اعظم پھر بھی خاموش رہے۔ سپریم کورٹ کے تبصرے کے بعد انہوں نے اس معاملے کو بس اتنی اہمیت دی کہ راجستھاں اور چھتیس گڑھ کو شامل کرتے ہوئے آدھے منٹ کا بیان جاری کیا۔ حزب اختلاف وزیر اعظم سے لگاتار اس معاملے کو سنجیدگے سے لینے اور منی پور جا کر حالات کا جائزہ لینے پر اصرار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی۔ تحریک کے جواب میں وزیر اعظم صاحب نے اپنی سوا دو گھنٹے کی لطائف اور ہنسی مذاق سے پر تقریر میںچند منٹ ہی منی پور کا ذکر کیا۔وزیر اعظم کو اس معاملے میں زیادہ حساس ہونا چاہئے اور زخموں کے اندمال کی کوشش کرنی چاہئے۔

گزشتہ چند برسوں میں کچھ صوبائی حکومتوں نے کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو ذاتی نقصان پہنچانے اور ان کا وقار مجروح کرنے کے لئے نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اتر پردیش کی یوگی حکومت کے بعد زیادہ تر بی جے پی کی صوبائی حکومتوں نے یہی روش اختیار کی ہے۔ مسلمانوں کو زیادہ تر فساد میں جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد اپنے مکانات اور اور کاروباری جگہوں کی مسماری کا سامنا ہوتاہے۔ حالانکہ کوئی قانون یہ نہیں کہتا کہ ملز م کا گھر ہی مسمار کر دیا جائے کیوں کہ گھر وںمیں دیگر بے گناہ بھی رہتے ہیں جن کا معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات ہے کہ جس کارروائی کو میڈیا پتھر بازوں اور فسادیوں پر کارروائی بتاتا ہے حکومت بڑی معصومیت سے اس کو ناجائز قبضے کے خلاف کارروائی بتانے لگتی ہے۔جب کی ناجائز قبضے کے معاملے میں بھی بغیر نوٹس دئے اور قانونی تقاضوں کو پورا کئے ا س طرح کی انہدامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ حال ہی میں میوات کے نوح ضلع میں فساد کے بعد سیکڑوں مسلمانوں کے مکانات اور دوکانیں زمیں بوس کر دی گئیں، جبکہ دیگر ملزمان پر جو کہ ایک مسجد کے امام کے قتل میں بھی ملوث تھے ان کے خلاف اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ قابل مبارکباد ہیں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے جج جنہوں نے اس غیر انسانی اور غیر قانونی کارروائی پر روک لگائی بلکہ اسے لا اینڈ آرڈر کے نام پر ایک طبقےکو نشانہ بنانے اور ان کی نسلی صفائی کے مماثل قرار دیا۔ ایک حکمت عملی کے تحت توہین رسالت یا مساجد کی بے حرمتی کر کے مسلمانوں کو اکسایا جاتا ہے۔ مزاحمت کرنے پر ان کے خلاف سنگین دفعات میں مقدمات قائم کر کے ان کے گھروں کو بلڈوز کیا جاتا ہے اور تاویل ناجائز قبضے کی دی جاتی ہے۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش ، دہلی سب جگہ یہی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں حکومت اور پولیس کی پشت پناہی میں یہ مظالم ہوتے ہیں۔فرض سناش افسر خود ہی حکومت کے عتاب کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے میں مظلوموںکے آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

پچھلے چند برسوں میں ملک کے ماحول کو جس طرح مسموم کیا گیا ہے اب اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ اس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ برسوں سے شام کو پرائم ٹائم کہا جانے والا وقت ٹی وی پر ہندو مسلم نفرت بڑھاتے گزرتا رہا ہے۔ دھارمک کہے جانے والے جلسوں اور جلوسوں میں مسلمانوں کے قتل عام کی ترغیب دی جاتی رہی ہے،سپریم کورٹ کے ذریعہ بار بار پھٹکارے جانے کے باوجود نفرتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔  سوشل میڈیا پر ایسی فرضی داستانوں کی بھرمار ہے جو اکثریت کے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے نفرت میں اضافہ کرتی ہیں۔ قرون وسطیٰ کی تاریخ کو ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اکثریت کے ہر طبقے کو  اصلی یا نقلی نام کے کسی ایسے ہیرو سے وابستہ کر دیا گیا ہے جس نے کسی مسلمان بادشاہ سے جنگ کی ہو۔ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ملک کی تقسیم اور اس کے دوران ہوئے قتل عام کی ذمہ داری مسلمانوں پر تھوپ دی گئی اور ان کی ملک میں موجودگی پر ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ظاہر اس طرح کی آلودگی میں چیتن سنگھ اور مونو مانیسر جیسے لوگ ہی پیدا ہونے ہیں۔چیتن سنگھ ریلوے میں کانسٹبل ہے ،پھیلائی جا رہی نفرت سے آلودہ ذہن لے کر ڈیوٹی کر رہا تھا۔ اپنے آفیسر کو قتل کرنے کے بعد اس نے تین مسافروں کو محض مسلمان ہونے کی بنا پر قتل کر دیا۔ محکمہ اسے ذہنی مریض قرار دے رہا ہے ۔ مونو مانیسر خود ساختہ گئو رکشک ہے ۔ناصر اور جنید نام کے دو لوگوں کو زندہ جلا کر مار ڈالنے کا ملزم ہے ۔ لگاتار سوشل میڈیا پرسرگرم رہنے ، پولیس افسر کے ساتھ فوٹو ڈالنے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا جا سکا اور یہ لوگ بلڈوزر سے بھی محفوظ ہیں۔

طویل جد و جہد اور بے حساب قربانیوں کے بعد ملک آزاد ہوا تھا۔ لاکھوں مسلمانوں اور ہندوئوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ آخر کار اتنی قر بانیوں کے بعد وہ مبارک دن آیا،۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء یومِ آزادی کا تاکہ ملک کے عوام ذات و مذہب کی تفریق کے بغیر سکوں کی زندگی گزار سکیں اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو ۔ لیکن ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب ہم نے اپنی متعین راہ چھوڑ دی اور اندھیروں میں بھٹک گئے۔ مجاہدین آزادی کے قافلہ سالار مہاتما گاندھی نے ایک بار اپنے خوابوں کے ہندوستان کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا تھا:’ میں ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں جس میں سماج کا غریب ترین آدمی بھی فخر کر ے، اسے یہ احساس ہو کہ اسے بنانے میں اس کا بھی ایک حصہ ہے، ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں جس میں ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق اور امتیاز نہ ہو ، ایسا ہندوستان جس میں سبھی اقوام ایک ساتھ امن و امان سے رہتے ہوں، چھوا چھوت کے لئے جس میں جگہ نہ ہو، خواتین کو بھی وہی حقوق و تحفظ حاصل ہوں جو مردوں کو ہیں ۔ یہی میرے خوابوں کا ہندوستان ہے‘۔

یوں تو آزادی کے بعد سے ہی فرقہ پرست طاقتیں قومی یکجہتی کو برباد کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس کی شکار مسلم اقلیت زیادہ رہی اس کو جذباتی مسائل میں الجھا کر اسے تعلیم اور روزگار سے بیگانہ کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں، فرقہ وارانہ فسادات کا لمبا سلسلہ چلتا رہا ۔ اس کے بعد سلسلہ شروع ہوا ماب لنچنگ کا۔ گئو کشی کے بہانے ، زبردستی جے شری رام کہلانے پر،مارپیٹ کرنا ا ور قتل کر دینا عام بات ہو گئی۔ اس طرح کے زیادہ تر معاملات میں سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے مجرم بے خوف ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاست دانوں کو اپنی سیاسی اغراض پوری کرنے کے لئے ذات پات کی تفریق اور مذہبی منافرت ہی راس آتی ہے ۔ لیڈروں کے بیٹے بیٹیاں بڑی درسگاہوں اور مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کر کے کر یئریر بنا رہے ہیں۔عوام کے بچے دھرم رکشا اور گئو رکشا کے نام پر فسادی اور قاتل بن جانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ان کی وجہ سے حکومتیں مہنگائی یا بے روزگاری پر اٹھنے والے سوالات کی جوابدہی سے بچ جاتی ہیںاور مظلوموں کے آنسو پوچھنے اور دادرسی کی ذمہ داری سے بھی بیگانہ رہتی ہیں۔

17 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/victims-communal-riots-sobbing/d/130468

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..