New Age Islam
Mon Mar 20 2023, 07:00 PM

Urdu Section ( 15 March 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Analysis of the Communal Riots کشید گی کا پر امڈ


وبھوتی نارائن رائے

14مارچ،2020

اکثر فرقہ وارانہ تشدد کے بعد یہ تفتیش شروع ہوجاتی ہے کہ فسادات شروع کیسے ہوا یا کس فرقہ نے پہل کی؟ ہندوستان کے حوالہ سے جہاں تشدد عام طور سے ہندؤوں او رمسلمانوں کے مابین ہوتاہے، دونوں فریق دوسرے کو شروعات کا قصوروار ٹھہرا کر اپنی طرف سے زیادتیوں کا جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ ہم تشدد کے آغاز کی تفتیش کرتے وقت کچھ اور حقائق کوبھی دھیان میں رکھیں۔

کئی سال قبل ایک فیلوشپ پر کام کرتے ہوئے میں ہندوستانی معاشرہ کی ایک دلچسپ حقیقت سے رو برو ہوا تھا۔ ایک ہی جیسی صورت حال میں دو شہروں کا رد عمل ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوسکتا ہے۔ ایک شہر میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بڑے تشدد کا سبب بن جاتا ہے او ردوسری جگہ بہت بڑی واردات بھی لوگوں کی مشتعل نہیں کر پاتی۔ یہ فرق کسی صفر سے نہیں پیدا ہوتا، اس کے پیچھے کچھ معقول اسباب ہوتے ہیں۔

یہ معقول اسباب ہی تشدد بھڑکانے یا امن و امان قائم رکھنے کے لئے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے مطالعہ کے دوران پایا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی ایک پر امڈکی شکل میں تیار ہوتی ہے او ریہ نہیں مانا جانا چاہئے کہ جس لمحہ کسی شہر میں تشدد بھڑکا اسی وقت فسادات کی شروعات ہوئی۔ دراصل کوئی آبادی گزشتہ کچھ وقت سے اپنے آپ کو اس تشدد کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے او رکسی خاص موقع پر وہ پھٹ پڑتی ہے۔ میں نے ملک کے دس بڑے فرقہ وارانہ فسادات کے مطالعہ میں پایا کہ فساد تبھی نہیں شروع ہوا جب تشدد کی پہلی واردات ہوئی۔ اصل تشدد کے بہت پہلے سے ہی افواہوں، پولیس کی لا پروائی یا لیڈروں کی اشتعال انگیز تقاریر جیسی تمام وجوہات کے ذریعہ اشتعال انگیز ی کا پر امڈ بنتا جاتا ہے۔پر امڈ کا سب سے اوپری حصہ ایک ایسے پوائنٹ سے بنتا ہے جسے ہم آخری نکتہ کہہ سکتے ہیں۔ اس پوائنٹ پر کوئی بھی کارروائی جس میں دو مختلف مذاہب کے ماننے والے شامل ہوں اور جس کی بنیاد میں تنازع پوشیدہ ہو، بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کر ا سکتا ہے۔ اگر کشیدگی کا یہ پر امڈ موجودنہ ہو تو کئی بار انتہائی سنگین فرقہ وارانہ صورت حال پیدا کرنے والا واقعہ بھی فساد نہیں کراپاتا۔

بھیونڈی، جلگاؤں او رمہاڑ کے فسادات (1970) کی جانچ کرنے والے جج ڈی پی مدان نے صحیح کہا تھا ”اگر ہمیں کسی فساد کے بارے میں سطحی رائے بنانی ہے تو ہمیشہ لگے گا کہ فساد کسی اتنے غیر معمولی واقعہ سے شروع ہوا تھا کہ ہم تعجب کرتے رہ جائیں گے کہ کیسے انتی چھوٹی سی بات آگ زنی، لوٹ پاٹ اور قتل عام کا سبب بن گئی۔ حالانکہ بہت زیادہ سو چنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ واقعہ فساد کا اصل سبب نہیں تھا۔ بلکہ فساد تو کسی دیگر وجہ کا سخت رد عمل تھا“۔

دہلی کے حالیہ فسادات میں بھی یہی پیٹرن نظر آتا ہے۔گزشتہ کچھ ماہ سے ملک کی راجدھانی اپنے آپ کوفسادات کے لیے تیار کررہی تھی۔ اس لیے فسادات کے ہونے پر مجھے جیرت نہیں ہوئی۔ حیرت ہوتی اگر اتنے سب کے بعد بھی فساد نہ ہوئے ہوتے۔ پارلیمنٹ او را س کے باہر جو کچھ ہو رہا تھا وہ ہندو۔ مسلم رشتوں کو تلخ بنانے اور کشیدگی کے پر امڈ کو اس پوائنٹ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا جہاں پہنچنے کے بعدکبھی بھی فساد شروع ہوسکتا تھا۔ تین طلاق بل، دفعہ 370، بابری مسجد فیصلہ، آسام میں این آر سی، شہریت ترمیمی قانون او رپھر پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کی دھمکی۔ تابڑ توڑ ایک کے بعد ایک واقعات ہورہے تھے۔ ایک انگریزی کہاوت کے مطابق حکومت نے اپنے منھ میں اتنا ٹھونس لیا جسے وہ چبا نہیں سکتی تھی۔ یہ سب ملک کے مفاد میں تھے یا نہیں اس پر بحث ہوسکتی ہے مگر بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر انہیں ایک فرقہ کی فتح اور دوسرے کی شکست کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے مسلسل کمزور ہورہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا دھاگا بالآخر 24/23 فروری کوٹوٹ ہی گیا۔ تشدد کا فوری سبب بنی جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے سامنے راستہ روک کر بیٹھے مظاہرین کو دی گئی کپل مشرا کی دھمکی۔ لیکن اس کے پہلے دو ماہ سے زائد وقت سے شاہین باغ میں خواتین نے ایک ایسی سڑک چلنے والوں کے لیے عدم دستیاب کرادی تھی جس کا استعمال روز لاکھوں لوگ دہلی او رنوئیڈا کے درمیان آمد و رفت کے لیے کرتے ہیں۔ پولیس یا کپل مشرا کی پارٹی نے شاہین باغ مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا صرف اسی لیے تو نہیں کہ دہلی انتخابات میں دوٹروں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کر نے کے لئے اس کا استعمال کیا جاسکتا تھا اور بھر پور کیا بھی گیا۔شاہین باغ تحریک کوتاریخ میں قومی علامتوں کے تخلیقی استعمال کے لیے یاد کیا جائے گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لمبا کھینچنے کے سبب اس نے مذہبی جنون بڑھانے میں بھی مدد کی۔ جس طرح یہ پورے ملک میں مزاحمت کی علامت بنتا گیا،سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دیری ہوتی گئی او رمظاہرین کے پاس کوئی ایگزٹ اسٹریٹجی نہ ہونے کے سبب تحریک کھینچتی گئی، اس سے اس بات کا پورا خدشہ تھا کہ دوسرے علاقوں میں بھی یہ حکمت عملی دہرائی جاسکتی ہے او ریہی ہوا بھی۔ جعفرآباد میں خواتین نے شاہین باغ دوہرانے کی کوشش کی اور پر امڈ کا وہ پوائنٹ بنا دیا جس کے بعد ایک چھوٹی سی چنگاری شعلوں میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ اگر چہ کپل مشرا نے مظاہرین کو تین دن کاوقت میٹرو کاراستہ خالی کرنے کے لیے دیا تھا مگر وہ بھول گئے کہ ایک بار ماحول بنانے کے بعد ضروری نہیں کہ تشدد آپ کے کنٹرول میں رہے۔ اس لیے کوئی حیرت نہیں کہ ان کے ہٹتے ہی ان کے حامی سی اے اے کی حمایت میں بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں سی اے اے حامی اور مخالفین اس پر تشدد حالت میں پہنچ گئے جسے فرقہ وارانہ فساد کہا جاسکتا ہے۔ جب تشدد شروع ہوا صدر ٹرمپ دہلی میں تھے اس لیے یہ سوچنا کہ کپل مشرا یا ان کی پارٹی تشدد بھڑکانے کے لیے اسی وقت کا انتخاب کرے گی، ناسمجھی کی بات ہوگی مگریہ سمجھنا بھی مناسب نہیں کہ مسلمانوں نے پولیس پر حملہ کر کے فساد شروع کیا۔

دہلی کا حالیہ فساد بے ساختہ ضرور تھا مگراس کے بھڑکنے کے لیے کشیدگی کا پر امڈبن کر تیار تھا او روہ آخری نکتہ 23فروری کو آہی گیا جب ایک پتھر تشدد بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر فرقہ وارانہ تشدد کو روکنا ہوتو ہمیں بر وقت کشیدگی کے پر امڈ کوز میں بوس کرنا چاہیے۔

14مارچ،2020  بشکریہ: راسٹریہ سہارا، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/analysis-communal-riots-/d/121309

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..