New Age Islam
Sun Jun 15 2025, 09:06 PM

Urdu Section ( 13 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Urdu Mandir Literally Means the Temple Of Shah Jahanabad اردو مندر بہ معنی شاہ جہان آباد کا مندر

اطہر فاروقی

11 اگست 2024

دلّی کا شاید ہی کوئی مورّخ اس بات کا ذکر کرتا ہو کہ لفظِ اردو شاہ جہان آباد یعنی فصیل بند شہر دہلی کے معنی میں بہت دیر تک رائج رہا۔لفظِ اردو کا بطورِ اسمِ زبان لشکر یا فوج سے کچھ بھی لینا دینا نہیں، اس لیے، اردو زبان کو لشکری زبان کہنا غلط ہے۔ وہ فرقہ وارانہ بیانہ( Narative )روز بہ روز طاقت ور ہو رہا ہے، جس کے مطابق مسلمانوں سے متعلق ہر چیز کو جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دے کر اسے غیر ملکی اور دہشت گردی سے متعلق قرار دیا جارہا ہے، ایسے میں اگر یہ بات صاف نہ کی جائے گی کہ اردو کا لشکر یعنی فوج سے کچھ لینا دینا نہیں تو جلد ہی اردو کو بھی مجاہدین کی زبان قرار دے دیا جائے گا۔

یہ بالکل صاف ہے کہ بادشاہ کے شاہی کیمپ کے لیے لفظِ اردو کا استعمال اکبر کے زمانے میں شروع ہوا۔جس زبان کو آج ہم اردو کہتے ہیں اس کے لیے یہ لفظ اُس وقت رائج ہوا جب مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا، بلکہ بجھ چکا تھا۔

زبان کے طور پر اردو کے لیے تاریخ کے مختلف ادوار میں جو مختلف نام سے رائج رہے ان میں اردو سب سے بعد میں استعمال ہونے والا نام ہے اور اس زبان کے لیے سب سے لمبے عرصے تک استعمال ہونے والا نام ہندی ہے جو اردو کے رائج ہونے کے بعد بیسویں صدی کی اولین دہائیوں تک بھی چلن میں رہا۔ میر تقی میرؔ نے اس زبان کو صرف ہندی ہی کہا ہے اور ان کے یہاں لفظِ اردو کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ ہندی چوںکہ زبان کے علاوہ ہندوستان کے باشندوں کے لیے غیرملکیوں کے ذریعے سب سے زیادہ استعمال ہونے والالفظ بھی تھا، اس لیے، فطری طور پر اس کی تاریخ سب سے پرانی ہے اور اس کے استعمال کا زمانہ طویل ترین ہے۔

اس فہرست میں ہندی، ہندوی، گجری، دکنی، ریختہ وغیرہ اہم ہیں اور اردو کا نمبر تاریخی طور پر سب سے بعد میں آتا ہے۔ اردو کے جو معنی ترکی میں ہیں ،اردو میں ہمیں اس سے کچھ مطلب نہیں ہے۔ ویسے ترکی میں بھی اردو کے معنی لشکر کے نہیں ہیں بلکہ وہاں یہ لفظ’ جمِّ غفیر‘ کے لیے مستعمل ہے۔ اسی جمِّ غفیر کو انگریزی میں Horde  کہا جاتا ہے۔ یعنی بے انتظام قسم کا انبوہ ۔ پھر یہ لفظِ اردو بادشاہی یا شاہی کیمپ کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

بادشاہ کا کیمپ یا شاہی کیمپ اور لشکر دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور اسی فرق کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں اردو کے نام سے متعلق جو گمراہی اردو زبان کی تاریخ کی کتابوں کے ذریعے پھیلنی شروع ہوئی، اس نے آخرش اردو زبان کی پوری تاریخ کو مسخ ہی نہیں بلکہ داغ دار بھی کردیا۔ شاہی کیمپ کے معنی میں لفظِ اردو کا ارتقا جب اکبر کے زمانے میں ہواتب بادشاہ کے کیمپ کے معنی یہ نہیں ہوتے تھے کہ وہ آج لگا اور کل اُکھڑ گیا یا بادشاہ آیا اور چلا گیا۔  کیمپ کی سماجیات یہ تھی کہ کیمپ میں اصل لوگ یعنی بادشاہ، سرکاری افسر اور اس کے عملے کے لوگ اگر ایک لاکھ ہیں تو اس کے علاوہ دو لاکھ آدمی اور ہوں گے جن کو حالی موالی کہتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے پیشہ ور لوگ مثلاً پانی بھرنے والا، کپڑا بننے والا، کپڑے دھونے والا، حجامت بنانے والا، زر گر، غلہ بیچنے والا، گوشت بیچنے والااور نان بائی وغیرہ کی لازماً ضرورت ہوتی تھی وہ سب کیمپ کے ساتھ ساتھ ہی چلتے تھے۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ جب اتنا بڑا کیمپ ہوگا تو یہ سب انتظام (Paraphernalia) تو رہے گا ہی۔ اصل میں یہی وہ کیمپ تھا جسے لوگ اردو کہا کرتے تھے یعنی ہندوستان  میں بادشاہ کا کیمپ یا وہ جگہ جہاں بادشاہ رہتا تھا اردو کہلاتی تھی۔

اکبر پہلے تو آگرہ میں رہے پھر انھوں نے فتح پور سیکری کو تعمیر کیا اور کچھ دنوں تک وہاں رہے۔ یہ معاملہ ابھی بھی تحقیق طلب ہے کہ اکبر نے فتح پورسیکری کو کیوں چھوڑا۔ بعض ثقہ مورخین کا خیال ہے کہ اکبر نے پانی کی کمی کی وجہ سے فتح پور سیکری کو خیرباد کہا۔ اکبر کسی ایک جگہ نہیں رُکے۔ کشمیر گئے، لاہور گئے جہاں انھوں نے طویل قیام کیا۔ اکبر کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جہاں جہاں جاتے تھے وہاں وہاں شاہی کیمپ  کا پورا سامان مثلاً لکڑی، فرش، دیوار، دفتر، پورے کاغذات، روشنی کا انتظام، پوری فوج ان سب کا انتظام اس طرح کرتے تھے کہ ہر چیز کے دو سیٹ ہوتے تھے۔ ایک سیٹ تو اس جگہ کے لیے جہاں بادشاہ کا قیام ہے اور دوسرا بادشاہ کے اگلے پڑاؤ پر بھیج دیا جاتا تھا تاکہ بادشاہ جب وہاں پہنچے تو وہاں اسے کسی چیز کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس جگہ کو یہ لوگ شاعری میں اردو کہنے لگے۔ یہ کوئی ایسا شہر تو ہوتا نہیں تھا جسے پایۂ تخت یا دار السلطنت کہا جائے۔ جہاں سے بادشاہ جلوس کرتا ہے، اپنی مجلس میں ہے اور تخت پر بیٹھتا ہے، آہستہ آہستہ وہ جگہ اردو کہلا نے لگی۔

۱۶۳۸ میں شاہ جہاں نے شاہ جہان آباد کی تعمیر کا کام بھوجلہ نام کی پہاڑی پر شروع کیا جو۱۶۴۸  میں پورا ہوا۔ اب یہ علاقہ پہاڑی بھوجلہ کے نام سے فصیل بند شہر کے ایک چھوٹے علاقے تک محدود ہوگیا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ طے پایا کہ اب مغل بادشاہ مستقل طور پر یہیں یعنی لال قلعے میں رہا کریں گے اور شاہ جہان آباد ان کی رعایا اور ان لوگوں کی قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوگا جو کیمپ کے ساتھ مختلف کاموں کے لیے چلتے تھے۔ اس سے پہلے جہانگیر گھومتے پھرتے رہے تھے اور ان کا انتقال لاہور میں ہوا۔ گویا اکبر اور جہانگیر دو بادشاہوں کے زمانے میں کوئی مستقل دارالخلافہ نہیں تھا۔ اگر تھا تو آگرہ تھا جس میں یہ لوگ بہت کم رہے۔ 

لفظِ اردو کا ارتقا، جیسا کہ عرض کیا گیا، بادشاہ کے کیمپ کے معنی میں تو اکبر کے زمانے میں شروع ہوا مگر اس نے رواج شاہ جہان آباد کے قیام کے بعد اس طرح پایا کہ شاہ جہان آباد کو ہی لوگ شاعری میں اردو اور اردوئے معلی کہنے لگے۔ یعنی اس وقت اردو کے معنی اس فصیل بند شہر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتے تھے جس کو شاہ جہاں نے بنوایا ہے۔

لال قلعے کے سامنے جو جین مندر ہے، اور جس کی تصویر آپ ملاحظہ کر رہے ہیں،اس کا نام تاریخ کی کتابوں میں اردو مندر ہی درج ہے (واقعاتِ دارالحکومتِ دہلی، جلد دوم، ص۲۳۴ )، اسی سڑک پر جو اب چاندنی چوک کہلاتی ہے، اردو مندر کے بعد اردو بازار تھا یعنی قلعے کا بازار۔ جامع مسجد کے سامنے اب جو اردو بازار ہے یہ بہت بعد کی بات ہے۔

’دریائے لطافت‘ ۱۸۰۷ میں مکمل ہوئی ہے۔ قیاس اغلب ہے کہ اس کی تحریر کا آغاز۱۷۹۴ یا۱۷۹۵ کے قریب ہوا ہوگا لیکن تکمیل ۱۸۰۷میں ہوئی ہے۔اس میں انشا اور قتیل نے ہر جگہ شاہ جہان آباد یعنی دہلی کے معنی میں اردو کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کتاب کی فارسی مشکل ہے۔یہ کتاب ایک ہی بار۱۸۵۰ میں چھپی تھی اور اب یہ بہ آسانی ملتی بھی نہیں ہے۔۱۹۴۶ کے آس پاس پنڈت دتاتریہ کیفی نے اس کا ترجمہ بڑی محنت سے کیا جسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا تھا لیکن پھر بھی اس میں کھانچے رہ گئے۔ یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ انجمن کے نام ساتھ لفظِ ہند کا اضافہ تقسیم ِہندوستان کے وقت نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے۱۹۳۶ میں اس وقت کیا گیا جب انجمن کا مرکزی دفتر اورنگ آباد سے دہلی منتقل ہوا۔ دریائے لطافت کو اگر بیسویں صدی میں کچھ لوگوں نے پڑھا بھی ہوگا تو کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ یہاں ’اردو‘ کے معنی کیا ہیں اور جن لوگوں نے انیسویں صدی میں اس کتاب کو پڑھا تو انھوں نے فطری طور پر لفظِ اردو سے مراد شاہ جہان آباد ہی لی تھی۔

اس سے پہلے جوکتاب بے انتہا مقبول تھی وہ تھی ’باغ وبہار‘۔ ’باغ و بہار‘ کی ابتدا ہی میں میرامّن نے صاف صاف تین چار جگہ لکھا ہے کہ میں نے یہ کہانی اردو کی زبان میں لکھی ہے: یعنی اس زبان میں جسے شاہ جہان آباد کے لوگ جن میں عورتیں، بوڑھے، بچے، ہندو مسلمان سب شامل ہیں، بولتے ہیں۔ یہاں ’اردو‘ بمعنی ’شاہ جہان آباد‘ کے سلسلے میں کسی غلط فہمی کی گنجائش نہ تھی۔ لیکن دلّی کے مورّخین اور اردو کے استادوں نے  آج تک اس نکتے کو نہیں پکڑا اور اگر پکڑا بھی ہوگا تو اس کو نہ تو اپنے طلبہ کو بتایا اور نہ ہی اپنی کسی تحریر میں اس کا ذکر کیا کہ اردو بہ معنی شاہ جہان آباد ہیں۔ اردو کے استاد صرف یہی بتاتے رہے کہ’ اردو ‘کے معنی ’لشکر‘ ہیں۔ اصل میں تو یہ پورا فقرہ ’زبانِ اردوئے معلائے شاہ جہان آباد‘تھا جو مختصر ہوتے ہوتے صرف ’اردو‘ رہ گیا، اور وہ بھی غالباً اس وجہ سے کہ ہم لوگوں نے’زبانِ اردو‘ کو فارسی طرز کی ترکیب سمجھا، یعنی ’وہ زبان جس کا نام اردو ہے‘۔ فارسی میں بے شک اس طرح بولتے ہیں،مثلاً ’زبانِ انگریزی=وہ زبان جس کا نام انگریزی ہے‘؛ ’زبانِ فارسی=وہ زبان جس کا نام فارسی ہے‘؛ ’زبانِ پنجابی=وہ زبان جس کا نام پنجابی ہے‘، وغیرہ۔ لیکن اردو میں اس طرح کبھی نہیں بولتے۔ اردو میں ہمیشہ ’انگریزی /انگریز کی زبان، فارسی/ فارس یا ایران کی زبان، پنجابی یا پنجاب کی زبان‘ وغیرہ بولتے ہیں۔ لیکن فارسی ترکیب میں ’زبانِ اردو‘ کے ایک معنی ہیں: ’اس جگہ کی زبان جس کا نام اردو ہے۔‘

اس بات کی وضاحت اور اسے مکرر بیان کرنا ضروری ہے کہ آہستہ آہستہ لفظِ ’ اردو‘ بطورِ اسمِ لسان کا استعمال’ زبانِ اردوئے معلائے شاہ جہان آباد‘ سے گھٹ کر’ زبانِ اردو ے معلی‘ اور پھر ’زبانِ اردو ‘یعنی ’شاہ جہان آباد کی زبا ن‘ ہوا اور بالآخر یہ صرف’ اردو‘ رہ گیا۔ جب  فارسی میں’زبانِ اردو‘ کہا جاتا ہے تو اس کے ایک معنی ہوتے ہیں’ وہ زبان جس کا نام اردو ہے‘ مگر دوسرے معنی یہ ہیں کہ ’اردو‘ کی زبان یعنی’ شاہ جہان آباد‘ کی زبان۔ اس مرکبِ توصیفی (Adjectival Compound) نے اردو والوں کو بہت پریشان کیا ہے۔ مثلاً شاہِ دہلی کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ دہلی کا بادشاہ اور دوسرے معنی یہ کہ وہ بادشاہ جس کا نام دہلی ہے۔

۱۷۸۵ میں گلکرسٹ نے لکھا ہے کہ یہ زبان جس کو عام طور پر لوگ ریختہ کہتے ہیں اردو بھی کہلاتی ہے، یعنی ’شاہی دربار کی زبان‘۔ اسمِ لسان کے طور پر لفظ اردو کا یہ قدیم ترین استعمال ہے۔اس سے پہلے لفظ ’اردو‘ اسمِ لسان کے طور پر کبھی نہیں آیا۔

اہم سوال یہ ہے کہ لفظِ’ ہندی‘ اس زبان کے لیے جو اب ’اردو‘ کہلاتی ہے، کتنے زمانے تک رائج رہا؟ اس کا کوئی مصدقہ جواب موجودنہیں ہے مگر یہ مسلّم ہے کہ اس زبان کے لیے جس کا آخری نام ’اردو‘ ٹھہرا، اس کے لیے ’ہندی‘ بہت دیر تک رائج رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کے لیے ’ہندی‘ کے استعمال کی مثالیں بیسویں صدی میں اقبال تک کے ہاں مل جاتی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں تو لوگ زبان کے معنی میں’ ہندی‘ کا استعمال کرتے ہی تھے۔ انیسویں صدی میں غالب بھی ہندی کو ان معنی میں ہی استعمال کر رہے ہیں جو اب اردو کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ زبان کے معنی میں غالبؔ نے یہ بھی کہا کہ میرا جب دل بہت گھبراتا ہے تو گاہ گاہ ہندی کا مطلع پڑھ دیتا ہوں۔دلّی کی تاریخ کی ہمارے زمانے کی کتابوں میں ہر بات لکھی ہے، سوا ئےاس کے کہ اردو کا قدیم ترین استعمال شاہ جہاں آباد کے معنی میں ہے۔

11 اگست 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/urdu-mandir-means-temple-shah-jahanabad/d/132923

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..