New Age Islam
Sat Mar 15 2025, 09:57 AM

Urdu Section ( 9 Jul 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Urdu Language a Beautiful Manifestation of the of Civilizational Accords !اُردو زبان تہذیبوں کے اشتراک کا سب سے حسین مظہر ہے

  شمس الرحمٰن فاروقی

4 جولائی 2021

فوکو کی بہت سی باتیں اگرچہ غلط تھیں لیکن اس کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا کہ ریاست اور فرد کے درمیان رشتہ اصلاً ا ور اصولاً اقتدار کا ہوتا ہے۔ جمہوری معاشرے میں بھی ریاست اقتدار کی بڑی طاقت رکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ فرد اس کی طاقت کے زیر اثر رہے۔ رابرٹ سیموئلسن نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ جمہوری فلاحی ریاست بھی اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادی پر کچھ نہ کچھ پابندی لگائے، اگر اسے فری مارکیٹ اقتصادیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیرانسانی حرکات کو دبانا اور کچلنا منظورہو۔ فوکو کا مزید یہ کہنا بھی صحیح تھا کہ قبلِ جدید دور سے اب تک ریاست کے بظاہر تمام اصلاحی اقدام کا رخ فرد کی آزادی و اختیار کو دراصل محدود اور کم کرنے کی طرف رہا ہے یا کم از کم ان اقدام کا منشاء یہی رہا ہے۔ زیادہ صراحت کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کا اقتدار اکثر و بیشتر عوام کی  روحوں کو اپنا غلام بنانے کی طرف مائل  رہا ہے۔ فوکو اپنی کتاب Discipline And Punish  میں اس تصورکی نشاندہی کرتا ہے جس کی رو سے مجرم کے جسم کے بجائے اس کی روح کو سزا کا مستوجب قرار دیا گیا۔ وہ کہتا ہے : ’’انیسویں صدی میں وہ دن تو آنا ہی تھا جب وہ ’انسان‘، جو مجرم کے اندر دریافت کیا گیا، اس تعزیری مداخلت کا ہدف بن گیا یعنی مجرم کے اندر جو انسان تھا اس کی قلب ِ ماہیت اور اصلاح کا دعویٰ کیا جانے لگا…‘‘

تو آخر اس منظرنامے میں شاعر کی جگہ کہاں ہے؟ ہوسکتا ہے کہ شاعر تمام افراد میں سب سے زیادہ انفرادیت پسند نہ ہو ۔ ہمیں اس کی  ضرورت بھی نہیں کہ ہم ورڈزورتھ کے اس رومانی تصور کو قبول کرلیں جس کی رو سے شاعر ایسا شخص ہے جو عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور گہری فکر رکھنے والا ہوتا ہے۔ ورڈزورتھ کے خیال میں اچھا شاعر ’’انسانوں کی عمومی فطری حسیت سے زیادہ کا مالک ‘‘ ہوتا ہے اور ’’وہ تادیر قائم رہنے والی اور عمیق فکر کا حامل ہوتا ہے۔‘‘ کلاسیکی اردو شعراء اور شاید کلاسیکی سنسکرت شعراء بھی اس تعریف کو مسترد کردیتے لیکن اس میں کوئی شک پھر بھی نہیں کہ شاعر کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے اور اسی کا کہا ہوا دوسروں کے لئے ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتا۔ غالب کا مشہور شعر ہے:

بیا ورید گر ایں جا بود زباں دانے= غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

یہ شعر خود شاعر غالب کا استعارہ ہی نہیں ہے بلکہ تمام شاعروں کی تمثیل بھی ہے اور تمثیل کا بنیادی نکتہ یہاں یہ ہے کہ شاعر اپنے ہی شہر میں اجنبی ہے، تو اس صورت میں شاعر ریاست کے ساتھ آخر کس طرح کا رشتہ رکھ سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب فرانسیسی علامت نگار ورلین نے دیا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’دنیا، جسے شاعروں کے عمیق الفاظ نے متوحش کررکھا ہے، شاعروں کو جلاوطن کردیتی ہے۔ اس کے جواب میں شعراء دنیا کو جلاوطن کردیتے ہیں۔‘‘ یعنی ریاست جو فرد کی روح کو پابند ِ سلاسل کرنا چاہتی ہے، شاعر سے مطالبات کرتی ہے اور شاعر بیشتر اوقات ان مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ خود کو دنیا سے علاحدہ اور تنہا پاتا ہے۔

فوکو کی اقتداری مساوات انیسویں صدی میں کھل کر سامنے آجاتی ہے اور شاید یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ورلین کا زمانہ انیسویں صدی کا نصف آخر ہی تھا۔ یورپی ادب کو یہ بات سمجھنے میں صرف چند ہی برس لگے کہ وہ اس جدید دنیا سے الگ تھلگ ہوگیا ہے جو سطح پر تو مہذب ہورہی تھی لیکن اندر اندر دُنیائےتخیل کی طرف سے اس کا رویہ مخاصمانہ تھا ، جیسا کہ وی ایس پریچٹ کہتا ہے: ’’ادیبوں میں (دنیا کے نقطۂ نظر سے) یہ بڑی خراب عادت ہے کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جن کا مزاج’’ یوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘ کی طرح ہوتا  ہے اور وہ حقیقت اور افسانے کی آزادانہ آمیزش کے کام میں مشغول رہ کر ہی جیتے ہیں۔‘‘ موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں الیگزینڈر بلوک کا یہ کہنا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ’’فن وہیں پایا جائے گا جہاں  زیاں، کرب ، اذیت اور شدید ٹھنڈک ہے۔‘‘ پھر اس کے ذرا بعد ہمارے سامنے کافکا آتا ہے۔ وہ گستاف جانوخ  (Gustav Janouch) کو لکھتا ہے کہ : ’’شاعر کے لئے ذاتی طور پر اس کا نغمہ ایک چیخ ہے۔ فنکار کے لئے فن محض اذیت ہے جس کے ذریعے وہ خود کو مزید اذیتوں کے لئے تیار کرتا ہے۔‘‘ شاعر (جسے کافکا نے سماجی اوسط سے زیادہ چھوٹا اور ناتواں شخص کہاہے) کے اختیارات اور ریاست (جو کبھی خود کو سماج کی حیثیت سے ظاہر کرتی ہے ، مارکسی نظریے کے حامی ’’کبھی کبھی‘‘ نہیں بلکہ ’’ہمیشہ‘‘ کہیں گے) کے اختیارات کے درمیان عدم توازن کو سب سے اچھی طرح  بودلیئر کی شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنی شاعری کا دفاع اس بنیاد پر کیا کہ اس کی شاعری نے اس عقیدے سے ٹکر لی کہ انسان اچھا ہے اور تمام انسان خوش و خرم ہیں۔ بودلیر اس عقیدے کو ’’قابلِ نفرت ریاکاری‘‘ سے موسوم کرتا ہے۔

ہمارے زمانے میں چیلاوملوش  (Czeslaw Milosz)  جیسے  شاعروں نے شاعری کے روپ پر گفتگو کرتے ہوئے اسے قوموں اور انسانوں کی نجات دہندہ بتایا ہے۔ گویا شاعر کی وہ حیثیت جو اقبال کی  نگاہ میں تھی۔ اقبال نے شاعر کو سماجی اورسیاسی نظم کی آنکھ سے تشبیہ دی تھی۔ ان کا شعر ہے:

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ=کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

لہٰذا شاعر ملک و ملت کا ضمیر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اقبال اور ملوش نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ غیرضروری حد تک سہل پسندانہ ہے ۔ کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ سماج/ ملت دراصل ریاست ہی کا دوسرا نام ہے؟ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر ریاست کے ضمیر کا نگراں ہوتا ہے؟ذیل میں جوزف براڈسکی کا قول ملاحظہ فرمائیں جس نے اس مسئلے میں شاید سب سے جامع  اور (میرے خیال میں) سب سے زیادہ قابل قبول رائے پیش کی ہے:

’’اگر شاعر کو سماج کی طرف کسی معاملے میں جواب دہ قرار دیا جائے تو وہ صرف یہی ہے کہ اسے خوب سے خوب تر لکھنا چاہئے… اس کے برخلاف سماج کو شاعر کے سامنے کسی قسم کی جواب دہی نہیں کرنا ہے۔ اصلاً اور اصولاً سماج مشتمل ہوتا ہے اکثریت پر اور اسے اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اسے شعر و شاعری پڑھنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں ، شعر و شاعری چاہے کتنی ہی عمدہ چیز کیوں نہ ہو لیکن شعر و شاعری نہ پڑھنے کی صورت میں سماج وجود کی اس سطح پر اتر آتا ہے جہاں وہ جھوٹے وعدے اور دعوے کرنے والے سیاستداں یا جابر حاکم کا بآسانی شکار ہوجاتا ہے۔‘‘

لہٰذا شاید وہ بات اسی مفہوم میں ہے کہ شاعری قوم اور عوام کی نجات دہندہ ہوتی ہے جیسا کہ ملوش نے کہا ہے۔

انیسویں صدی کے وسط تک اردوکا ادیب معاشرے کے ساتھ باہم اتحاد اور ہم آہنگی کی خوشگوار صورت میں تھا۔ اس معنی میں نہیں کہ ادیب اور سماج ہمیشہ اور ہر معاملے میں اتفاق رکھتے  تھے بلکہ اس معنی میں کہ معاشرہ شاعر کو مختلف قسم کی آزادیوں کی اجازت دیتا ہے اور معاشرے کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ افسانہ طرازی کرنا شاعر کا حق ہے۔ جدید خیالات و افکار اور جدید کشاکش کے ظہور کے ساتھ چیزیںتیزی سے تبدیل ہوئیں۔ معاصراردو ادب کو جدید زندگی کی زخم خوردگی اس کے مناسب حصے سے زیادہ ملی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسے ملک کی تقسیم سے سابقہ پڑا۔ یہ ایسی چیز تھی جو خود اردو زبان ہی کی موت کا اعلان کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ آزادی کی جدوجہد میں اردو ادیبوں نے بہت بڑا رول ادا کیا، ادیب اور فرد دونوں کی حیثیت سے لیکن کامیابی ملنے کے فوراً بعد انہوں نے خود کو تنہا اور الگ تھلگ پایا۔ چنانچہ انہوں نے  اس المیے کے بوجھ کو دُہری سطح پر محسوس کیا۔ اب جبکہ وہ اس زخم خوردگی کی کیفیت سے باہر نکل آئے ، دوسرے اردو زبان خود آہستہ آہستہ اپنے آپ میں آ رہی ہے، یہ دونوں باتیں خود اردو والوں کی کوششوں کا بڑی حد تک نتیجہ ہیں۔ شاید ہی کسی اردو ادیب نے کبھی یہ خیال کیا ہو کہ ہندوستان دو یا دو سے زیادہ قوم کا ملک ہے۔ اردو ہمیشہ ہندوستانی قوم کے اتحاد کی حامی رہی ہے ۔ یہ دو بڑی تہذیب کے باہم اشتراک کا سب سے خوبصورت مظہر ہے۔ اردو زبان ہندو، مسلمان نہیںبلکہ ہندوستانی ہے۔

لیکن یہ بھی سچ  ہے کہ اردو کا ادیب آج تمام دنیا کی اس صورت ِ حال کا حصہ ہے جس میں ریاستی اقتدار (جو کبھی کبھی بھیس بدل کر قوم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے) چاہتا ہے کہ ہر شخص پنہاں اور واضح دونوں انداز سے اس کی خواہشات کے آگے سر خم کرے ۔ تمام دنیا کے  صاحبِ  اقتدار   طبقے ادیبوں کو اپنے حصولِ مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ آج پاکستان میں ادیبوں کو اسلامی اور غیراسلامی کے  خانوں میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف ہندوستان کا معاصر اردو ادیب ہرگز نہیں چاہتا کہ اسے ہندو یا مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ وہ اپنی شناخت ہندوستانی کی حیثیت سے چاہتا ہے۔ اردو زبان کے سیاق میں دیکھیں تو ہندوستانی سبھاؤ ہندو سبھاؤ نہیں ہے بلکہ یہ ہندو + مسلم سبھاؤ ہے۔ اردو ادیب کو اپنی ہندوستانی کا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فارسی کے ’’سبک ہندی‘‘ کی شاعری میں (جسے ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر ایجاد کیا تھا) جو ذہن کارفرما تھا وہ اتنا واضح طور پر ہندوستانی ہے کہ ایران کے لوگ فارسی کی اس شاعری کو اپنا ادب ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اردو ادب کا براہ راست سلسلہ فارسی  کی سبک ہندی روایت سے ملا ہوا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اردو کا سب سے بڑا شاعر غالب، جس کی شاعری وسط ماضی اور جدید حال کے درمیان خط ِ امتیاز کھینچتی ہے، ہندوستانی انداز کی فارسی کا بھی بہت بڑا شاعر تھا۔

معاصر اردو ادب جدید شعور و احساس سے بھرا ہوا ہے۔ تجربہ پسندی اور بین الاقوامیت کی تیز ہوا جو پہلے پہل ۱۸۹۰ء کے آس پاس محسوس ہوئی تھی، اب ہر طرف بہہ رہی ہے۔ آج اردو ادب میں فکر کی بہت سی لہریں ایک ساتھ جاری و ساری ہیں۔ رولاں بارت نے جس چیز کو ’’اقتدار کا کلام‘‘ کہا ہے (یعنی ایسا کلام جو قطعیت کا حامل ہو اور جو ’’ہمت اور قصور‘‘ کو وجود میں لاتاہے) اب اس کا چلن کم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ادبیت پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ آج کے اردو ادب میں دردمندی، شعور ذات اور سچائی کو ذاتی حوالوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی خواہش زیادہ نظر آتی ہے۔  A Alvarez کہتا ہے کہ ایسا صرف غیرممالک کے مقبوضہ علاقوں یا یک جماعتی ملکوں میں  ہوتا ہے جہاں ادب پر ’’وہ  بوجھ لادے جاتے ہیں جو عام طور پر ریاست کواٹھانے چاہئیں۔‘‘ خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان یک جماعتی قوم نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا مقبوضہ علاقہ ہے اور اس کے ایسا ہونے کا امکان بھی نہیں ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے مستحکم جمہوری کردار کا ممنون ہوناچاہئے۔ لہٰذا معاصر اردو ادیب زیادہ سروکار اس سے رکھتا ہے کہ  وہ خود اپنے تجربات کے ذریعے قوم  کے شعور و فکر کی چھان بین کرے۔

(۱۹۸۷ء میں کرناٹک ساہتیہ اکادیمی کے سیمینار میں پڑھا گیا خطبہ)

4 جولائی 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/urdu-language-civilizational-accord/d/125067

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..