ڈاکٹر خواجہ افتحار احمد
17نومبر،2023
کائنات کا نظام مشیت
الہٰی کے تابع ہے،جب کہ دنیا ومافیہا کے نظام کو اس نے انسان کے تابع کردیاہے۔ جب
آپ نظام فطرت او رکائنات میں پھیلے جواہر پاروں پر غور کرینگے تو وہاں ہر شئے اپنے
مزاج کے مطابق مدار میں گشت کرتی نظر آئے گی۔نظام شمسی، خلا، فضا، بحر وبر پر قطعی
اقتدار اعلیٰ اس رب جلیل کا ہے، جو اس کائنات کا تنہا خالق و مالک ہے۔ اس کے برعکس
وہ نظم جو انسانی تحقیق اور ادراک عمل کے نتیجے کے وجود میں آتاہے اس میں پرفیکشن
ہزاروں سال سے ہدف ہی چلا آرہاہے۔ یہ عمل انسان کے اس کرہئ ارض پر آنے او رمہذب
معاشرے کی تشکیل سے قائم وجاری ہے۔ انسانی تحقیقات اس سلیٹ کی طرح ہیں جس پر بچہ
لکھتا ہے، مٹاتا ہے، اور پھر لکھتاہے اسی تناظر میں نشیب وفراز کا آنا جانا ایک
فطری عمل ہے۔ عروج کسی زعم کا باعث نہ ہو او رزوال کسی بے چینی او رمایوسی کا! بس
قوموں کے امتحان زمین یہاں ہے۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی
بات کو اس کی منطقی نہج کی طرف لے جاؤں، پہلے نشیب وفراز پر کچھ غور کرلیا جائے او
رپھر تھوڑی گفتگو حوصلے پر کی جائے۔ میرا یہ پختہ مانناہے کہ دنیا کی تمام قومیں
دنیا کو حاصل و ماحاصل سمجھ کر اپنی منصوبہ بندی کرتی ہیں، جو انہیں مبارک ہو۔
میرا اس پر اس سے زیادہ کچھ کہنا بھی نہیں، مگر قوم مسلم جواب دنیا کی چوتھائی
آبادی پر مشتمل ہے جس کی مشترکہ جی ڈی پی 27 فیصد ہے۔ 57 خود مختارریاستیں ہیں،
تمام عالمی بری، بحری،فضائی راستوں کے بنیادی وکلیدی لنک ان اکائیوں سے ناقابل
تسخیر انداز میں جغرافیائی طور پر مربوط ہیں۔ تمام تر عالمی معاشی سرگرمی کی یہی
گزر گاہ ہے او رآگے بھی ایسی ہی منصوبہ بندی سامنے آرہی ہے۔ چین او رامریکہ کے
اپنے معاونین کے ساتھ معاشی راہداری کے عالمی منصوبے اس کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
اینرجی کا بڑا حصہ خلیجی، مرکزی ایشیائی وافریقی مسلم ریاستوں میں پایا جاتاہے، جس
سے تمام ریاستوں کی معیشت کے خدوخال براہ راست وابستہ ہیں۔
وطن عزیز بھارت کی معیشت
میں خلیجی ممالک سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ہمارے کل زرمبادلہ کا 27فیصد ہے۔ ایک
کروڑ ہندوستانی وہاں ملازمت او رکاروبار کررہے ہیں، بڑے عزت وقار کے ساتھ وہاں
آباد ہیں۔ کسی قسم کی فرقہ واریت کا وہاں شائبہ بھی نہیں،وزیر اعظم مودی کئی مرتبہ
وہاں کے سب سے بڑے فٹ بال اسٹیڈیم میں بھارتیوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ تمام مسلم
ممالک سے ہمارے خوشگوار سفارتی،ثقافتی، سیاسی، اقتصادی تعلقات او راشتراک ہے۔
ہماری عالمی سفارتکاری کے فروغ میں بھی یہ ممالک بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔
کھربوں ڈالر کے ہمارے پروجیکٹ پر ان ممالک کی سرمایہ کاری سے کام ہورہا ہے۔ جس سے
ہماری معیشت فروغ پارہی ہے۔ یہ کردار مسلم دنیا وطن عزیز کی ترقی میں ادا کررہی
ہے۔
وطن عزیز بھارت کئی سو
برس مسلم حکمرانی میں رہا۔ اس میں فرقہ واریت یا اس بنیاد پر کوئی تقسیم یا فساد
کی کوئی تاریخ موجود نہیں، درحقیقت مغل دور تو راجپوت۔مغل دور اقتدار ہے، جس میں
تجارت، صنعت و حرفت، علم وادب، بنکاری او رمالیات پر ہمارے برادران وطن کو واضح
برتری حاصل رہی ہے۔ جو چند معرکے ہیں ان میں مسلم شراکت وحصے داری اتنی واضح رہی
ہے کہ اس کو ہندو مسلم کے زمرے میں قید کیا
ہی نہیں جاسکتا۔ انگریز سے بنیادی
مقابلہ ہندومسلم اتحاد واشتراک کی زندہ مثال ہے۔جھانسی کی رانی، شیواجی،بیگم حضرت
محل، ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کے نام اس حوالے سے سرفہرست ہیں۔ 1857 ء کی
پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس وقت تک کہیں کوئی احیائے
سناتن کا تصور ہی نہیں۔ 1914 ء میں ہندو مہا سبھا بنی، 1920ء میں نظریہ ہندوتو ویر
ساورکر نے دیا، 1925ء میں آر ایس ایس بنی۔ ہندو مہا سبھا کا قیام احیائے سناتن کی
بنیاد ہے۔ ادھر 1920 ء میں خلافت تحریک کے وجود میں آنے سے اس نظر یے کو تقویت ملی
تقسیم وطن اور قیام پاکستان کی تحریک نے اس مزاج اور زمین کو وہ غذا دی جس میں بعد
کی سیاسی غلطیاں اس کے فروغ کی براہ راست ذمہ دار بنیں۔آج یہ نظریہ بھارتیہ نظریہ
بن کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ چکا ہے۔
سیاست بالخصوص جمہوریت
میں ہر نظریے کو مواقع میسر آتے ہیں۔ہم اگر اپنے جمہوری سفر پر غور کریں تو اس میں
ہرنظریے کو پوری پوری زمین ملی ہے۔ اسی تسلسل میں آج یہ موقع بھارتیہ جنتا پارٹی
اور آر ایس ایس کو حاصل ہے، اس میں معیو ب کچھ نہیں۔ یہ دور ہے او راس کا آنا جانا
ایک فطری عمل ہے۔ اس کو اس سے کم یا اس سے زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ کسی بھی تبدیلی
کے تعلق سے انتہا پسندانہ فکر یا طرز عمل منطق وروادی کی زمین کھو دیتاہے۔اس سے
احتراز کرنا علمی وعقلی جواز رکھتا ہے۔
اس سفرمیں نوفیصد مسلم
حمایت او رووٹروں کا بھی حصہ ہے۔ یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ سیاست کوئی عقیدہ نہیں!
اس میں جنون،جذباتیت، انتہا پسندی، بیجا حمایت ومخالفت او رسب سے بڑھ کر براہ راست
دشمنی کے لئے کوئی زمین نہیں۔ ہم قومی وحدت کے تعلق سے یکطرفہ مزاج کے حامل رہے
ہیں، جس کے نقصانات سے سب واقف ہوچکے ہیں۔
اگر نتائج آپ کے مطابق
نہیں آرہے ہیں تو کیا یہ غور کرنا ضروری نہیں کہ کسی تصحیح یا تبدیلی کی طرف
بڑھاجائے؟ میں کسی سیاسی جماعت کا نہ مستقل حامی ہوں او رنہ مخالف! سب ہمارے ہیں
او رہم سب کے ہیں۔ یہاں دوستی سب پر لاگو ہے، پر دشمنی کسی پر نہیں۔ اگراس زاویے
سے چلیں گے تو بہت سی پیچیدگیوں پر قابو پانا آسان ہوگا۔ کسی کو بنا معاملہ فہمی
کے جتانا محض کسی کو ہرانے کے لئے حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے یہ بھی کرکے دیکھ
لیا، نتائج آپ کے سامنے ہیں اور وہ آپ کو عقل سے فارغ بتارہے ہیں۔آپ گھر وں میں
اپنے ہاتھ مل رہے ہیں او رنفسیاتی کرب میں مبتلا ہیں۔ میں تو ہرگز نہیں!
لنچنگ،گرفتاریاں،بلڈوزر
گردی، بیجا مسلم ٹارگیٹنگ،بے لگام زبان درازی او رہر صورتحال کو فرقے واریت کا
جامہ! ایسے ہی کئی سوال سوچنے کی صلاحیت کو سلب کئے ہوئے ہیں۔ مجھے بتائیں آپ نے
فسادات او رفرقہ واریت کے فروغ میں سیکولر سیاست کے براہ راست ملوث ہونے کی بنیاد
پر کب او رکس سے ناطہ ورابطہ توڑا۔ تمام زیادتیوں کے باوجود ان ہی سے چپکے رہے۔ وہ
جنہوں نے نہ آپ کی مسجدیں چھوڑیں، نہ وقف املاک، نہ آثار قدیمہ کی مساجد، مقابر
وخانقاہیں، نہ کسی فساد کی رپورٹ عام کی،نہ کبھی کوئی سزائیں او رمعاوضے ہی سامنے
آئے۔ بابری مسجد کی شہادت تک کو زمین کس نے دی او رآگے کے خطرات کو غذا وہوا کہاں
سے ملی؟
مہذب معاشرے ماضی سے سبق
سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں، عقل و بصیرت کا استعمال کرتے ہیں، ماضی کا اچھا بچا کر رکھتے
ہیں او رآگے کے لئے کچھ نیا کرنے پر غور وفکر کرتے ہیں۔نشیب وفراز زندگی او راس کے
معمول کا حصہ ہیں،! کوئی بھی اونچ نیچ مستقل نہیں ہوتی! اہم ہوتاہے عزم جواں، آہنی
ارادہ او ربلند حوصلہ! اس پر آنچ نہ آئے سب سے بہتر حکمت عملی ہوتی ہے۔
وہ رشتے جن پر زنگ لگ چکاہے
ان کو دوبارہ تروتازہ کریں، آگے بڑھ کر ماحول میں آئی گرمی کو کم کریں، سب اپنے
ہیں کوئی پرایا نہیں! جس نفرت او رمنافرت نہ ہمارے رشتوں میں کڑواہٹ گھولی ہے، میں
اگلی چند تحریروں میں کچھ مشورے آپ کے سامنے رکھوں گا جو قابل عمل ہیں۔
آخر میں کہنا چاہتا ہوں
نہ گھبرانے کی ضرورت ہے او رنہ پریشان ہونے کی، بس جذباتیت پر قابو رکھیں، کسی کے
اکساوے میں نہ آئیں،کبھی کبھی خاموشی، صرف
نظر، برداشت او ررواداری سے کام لینا وہ نتائج دے دیتاہے جو بڑے بڑے مذاکراتی عمل
دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ بس اپنے
گردونواح کے میدان سیاست میں جو لوگ، عناصر، شخصیات، جماعتیں و تحرکیں سرگرم عمل
ہیں سارا انتشار وہاں ہے۔ عوام کل بھی متحد تھے اور الحمداللہ آج بھی ہیں۔ جو سب
سے زیادہ اتحاد کی بات کرتے ہیں انہوں نے ہی آپ کو منتشر وبے وقعت کیا ہوا ہے؟
مقصد ومنزل ایک، کرب،
وکراہیئت ایک، دعا او رتمنا ایک،مگر ان گنت آل انڈیا تنظیمیں او رکوئی بھی آل
انڈیا نہیں، ہر گلی میں قومی قیادت موجود، مگر قومی قائد ایک بھی نہیں! نفسیات کو
درست کیجئے،فکر کو سمت دیجئے، زمین کو پڑھیے او رتبدیلی کو شعار بنائیے۔اب دوسروں
کے دماغ،کندھے، بازو اور حوصلے اپنی افادیت کھو بیٹھے! کیا آپ خود کسی قابل نہیں
یقینا ہیں!
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی
زرخیز ہے ساقی۔
17 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism