New Age Islam
Wed May 31 2023, 06:01 AM

Urdu Section ( 12 Jan 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Upbringing of the Soul روح کی نشو نما

نیلو فر احمد   (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو یاج اسلام ڈاٹ کام)

زندگی اور موت کے راز کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس تفہیم کے ساتھ واضح کیا جا سکتا ہے کہ روح جسم کو زندگی دیتی ہے اور جیسے ہی روح جسم سے نکلتی ہے جسم مردہ ہو جاتا ہے۔حیاتیاتی طور پر  زندہ ہونے کے باوجود  مادر شکم میں موجود جنین تبھی زندہ چیز میں تبدیل ہوتا ہے جب اس میں روح پھونکی جاتی ہے (32:9)۔

نفس، روح کو شائستہ جسم کہا جاتا ہے  اور اسے بھی جسم کی ہی طرح غذا اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ روح آسمانی مادّہ سے سے بنی ہوتی ہے اور یہ جسمانی ضروریات سے نجات پانے کے لئےالگ دنیا میں رہنا چاہتی ہے۔صوفی اکثر جسم کو ایک پنجڑے کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں روح قید ہے۔ یہ لوگ اس وقت کے لئے بے قرارہوتے ہیں جب روح آزاد ہو گی، جسم فانی ہے جبکہ روح لافانی ہے۔

چونکہ ترقی کے تین وسیع مراحل ہیں جن میں جسم اور روح ساتھ ساتھ نشو نما پاتے ہیں۔پہلاانسان کا ‘ترقی پذیر روح’ ہے۔قرآن میں ان مراحل کو نفس امارہ بالسوء (12:53) یا ادنی یا بنیادی روح کہا ہے جو خود غرض ہے۔اسے چھوٹے بچوں کے عمل میں دیکھا جا سکتا ہے جن کی دلچسپی اپنے ذاتی مفاد میں ہوتی ہے، جب تک کہ انہیں بدلنے کی تر بیت نہ دی جائے۔اگر تربیت نہ دی جائے تو یہ برائی بن سکتی ہے۔دوسرے نفس لوامہ (75:2)  یعنی سخت ملامت کرنے والا یا ضمیر ہے۔ اور تیسرا نفس مطمئنہ (89:27:30)  یہ  پاک صاف اور حالت سکون و اطمینان کی اعلی منزل ہے۔

خود پر مرکوز پہلی حالت نفس امارہ بالسوء جسمانی  وجود کے لئے ضروری ہے،  فعل فطرت عطا کر یہ باقی رہنے میں مدد کرتا ہے، خود کے دفاع،  صلاحیتوں کو بہتر کرنے میں مدد کرتا ہے۔یہاں روح کی بنیادی ضرورت جسم کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، جسمانی دولت کو جمع کرنا اور اپنے فروغ کی خواہش ہے۔یہ سبھی روحانی طور پر اسے نیچے لاتے رہتے ہیں۔

چونکہ پیچیدہ انسانی دماغ کو آزادانہ خواہش کا تحفہ دیا گیا ہے۔ انسان جسم کی بنیادی ضرورتوں کو بہتر و پیچیدہ ثانوی  ضرورتوں میں  تبدیل کرتا ہے مثال کے طور پر دنیاوی چیزوں جیسے بہترین کھانااور شاندار لباس وغیرہ۔

اس عمل میں مقابلہ کرنے کی ہوس، سب سے بہتر ہونے کی خواہش، آرام آسائش اور تفریح کی ہوس اور شہرت حاصل کرنے کی  خواہش  پیدا ہوتی ہے۔ان سب کو حاصل کرنے کے لئے انسان حاسد، جارح، دھوکے باز اور ظالم ہو سکتا ہے۔

لیکن لالچ اور زیادہ لالچ کو پیدا کرتی ہے،جس کو جتنا ملتا ہے وہ اور زیادہ کی خواہش کرتا ہے جب تک کہ وہ اس دنیا کی  نہ ختم ہونے والی خواہشات کے بونڈر میں پھنس جاتا ہے۔

نفس امارہ بالسوء  میں طاقتور توانائی ہے اور اس کا موازنہ غیر تربیت یافتہ ، جنگلی گھوڑے سے کی گئی ہے جس کی خوبیوں کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔اگر گھڑسوار نے گھوڑےکو قابو میں کرنا نہیں سیکھا ہے ، تو جنگلی گھوڑا بھاگ نکلے گا۔ جب ابتدائی وقت میں مناسب تربیت دی جائے اور بعد میں جب  انسان ایمانداری اور رحم جیسے اقدار کو  حاصل کرنے کی کوشش کرے اور متوازن اور درمیانی راستہ اختیارکرے تو نفس دوسرے  مرحلے میں پہنچ جاتی ہے جسے نفس لوامہ  (75:2) یا  ملامت کرنے والی روح کہتے ہیں۔

نفس لوامہ  اب خدا کو جوابدہی کے شعور کے ساتھ اپنی آزاد خواہش کا استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے اور تمام غلطیوں کے لئے اپنے کوملامت کرتا ہے۔ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کسی  باہری کنٹرول کی ضرورت نہیں ہے۔چونکہ ضمیر اور بلندی کے لئے بے قرار کرنے والی نشو نما کو  پا چکا ہے اس لئے مقصود نظر آخرت ہوتا ہے  نہ کہ یہ دنیا ہوتی ہے۔حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود غرضی کم ہوتی جاتی ہے اور ایثار میں اضافہ ہوتا ہے  اور  لینے اور جمع کرنے کے مقابلے دینا اورتقسیم کرنا زیادہ اطمنان بخش ہو  جاتا ہے۔

اب تمام فطری آرزوئوں  کو مطمئن کیا جا سکتا ہے لیکن  متوازن طریقے سےجیسا کی خدا نے طے کیا ہے۔سب سے بر تر ہونے کی خواہش اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اور بھی بہتر ہونے کی کوشش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اونچے منصب کو عوام کی بھلائی کےایک موقع کے طور پر لیا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ خواہشات پر قابو حاصل ہونے لگتا ہے اور نفس امارہ کے  پر تشدد اور نقصان دہ جنگلی جانور کے بجائے انسان ایک مددگار ساتھی بن جاتا ہے ۔ ایساشخص نفس کے ایک نئے مرحلے پر پہنچنے کے لئے تیار ہوتا ہے: سب سے اعلیٰ روحانی مرحلہ، نفس مطمئنہ۔

نفس مطمئنہ  اطمینان یا خوشی کے اس مرحلے پر پوری زندگی مسلسل تربیت، پرہیز گاری، روزہ اور ذکر کے ذریعہ پہنچا جا سکتا ہے (13:38)۔ ایساشخص  برتائواور عبادت کے مقررہ قائدوں   پر عمل کر مزید بلندی پر پہنچ جاتا ہے اور رضاکارانہ طور پر عبادت، بیداری اور قربانی کے ذریعہ اس مرحلے تک پہنچ جاتا ہے جہاں تمام دنیاوی نقصان اور ساتھ ہی ساتھ  دنیا کا جادو  ختم ہونے لگتا ہے۔

مطمئن نفس خدا کے مخلوق کی ہنمائی رحم  وکرم کے ساتھ کرتی ہے، دوسروں کے ساتھ رحم کا برتائو کرتے ہیں اور اپنی ہدایت اور نجات کے لئے دعا کرتے ہیں۔ان کی نظر میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ ہے اللہ کی قربت حاصل کرنا،اس کی اطاعت کرنا، خدا سے پیار کرنا اور اس کی شفقت کو حاصل کرنا۔

خدا اور اس کی صفات سے مطمئن نفس خدا پر مکمل انحصار، خشوع، اس کی حمد و ثناء و عبادت اور اسے راضی کرنے اور اس کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے اور صر ف اسی سے فضل  اور کرم کی دعا کرتی ہے۔روح کی سب سے بڑی خواہش خدا کی قربت حاصل کرنا ہے اس کے علم پر غور و فکر کرناہے اور اپنی تما م تر کوتاہیوںکو چھوڑ کر خدا کے کمالات پر غور و فکر کرنا ہے۔

ایک اچھی روح کے لئے سب سے بڑا اجر یہی ہو سکتا ہے جس کا وہ انتظار کرتی ہے اور جس کے لئے وہ عمل کرتی ہے وہ ہے اپنے خالق کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور قربت، جب نفس مطمئنہ کو خودخدا قیامت کے دن اپنی موجودگی میں  جنت میں  ان الفاظ کے ساتھ (89:27-30) خیر مقدم کرے گا:

‘اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری بہشت میں داخل ہو جا۔’

مصنفہ اسلامی اسکالر ہیں اور عصر حاضر کے مسائل پر لکھتی رہتی ہیں۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/development-of-the-soul/d/6215

URL: https://newageislam.com/urdu-section/upbringing-soul-/d/6360

Loading..

Loading..