سید منصورآغا
16 مارچ، 2017
گزشتہ ڈیرھ دوماہ سے ہمارے اکثر صحافتی کالموں کا موضوع یوپی کاچناؤ رہا۔ ہماری اپنے محترم صحافی دوستوں سے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ زرا ٹھہرئے اورجو نتائج آئے ہیں ان کی روشنی میں اپنی سوچ اوررسائی کا احتساب کیجئے کہ کہاں غلطی ہوئی کہ نتائج گمان سے بھی متضاد ہیں۔اجازت ہوتواپنے تجزیہ کا نتیجہ عرض کردوں ۔وہ یہ کہ اردو کالم نویسی الا ماشاء اللہ زمینی حقائق کے بجائے فکری ترنگ، ذاتی خواہشات اور توقعات پر چلتی ہے۔ہم نے تخیل کی پرواز سے کام لیااور صحافت کو بھی شاعری بنا دیا۔ ہم سب کا حال کم وبیش یہی ہے۔
راقم نے انتخابی گہماگہمی کے باوجود کچھ دوسرے موضوعات کو ترجیح دی توبعض محترم قارئین نے شکایت کی کہ انتخابی دورمیں بھی تعلیمی تحریک، مسلکی اختلافات کے بطن سے نکلنے والے تشددداورکامن سول کوڈ پرملی مہمات پرلکھ رہاہوں۔ لیکن یہ ترجیح اتفاقی نہیں تھی۔سیاست اگرنظام ملکی میں بااختیاری اور حصہ داری کا نام ہے تو ہماری حکمت عملی میں سرفہرست فروغ تعلیم، اخلاق وکردار کی اصلاح اوربلاامتیاز مذہب و مسلک خدمت خلق کا مزاج پیدا کرنے کی مہم ہونی چاہئے۔کبھی یادو، کبھی مایاوتی اورکبھی کسی اور کو مسند اقتدارتک پہچانے کے گورکھ دھندے میں اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو پڑھانے، اشراف وارزال، اونچ نیچ کواور عقائدواعمال میں شدت پسندی کو مٹانے، آپس میں ہرکسی کا احترام اوراختلاف کی صورت میں رواداری کو فروغ دینے کی فکرکریں۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے۔ مگرحیف کہ ہم خود سوخانوں میں بٹ گئے۔ پھرشکوہ ہے کہ ہمیں کنارے لگادیا گیا۔
یوپی کے نتائج
یوپی کے نتائج سے لوگ بھونچکا رہ گئے ، حالانکہ یہ اس سیاسی، سماجی، فکری عمل کا نتیجہ ہے جومدت سے جاری ہے،جس کو تحریک آزادی کے دوران اوراس کے بعد مزید پر لگ گئے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ہندو اکثریت فطرتاًفرقہ پرست نہیں۔ مگرگزشتہ تقریباً سو،سواسوسال کی سیاست نے اورکچھ ہماری غلط روش نے ان کے دلوں میں کچھ وسوسے بیشک پیدا کردئے۔ ہندوقوم فرقہ پرست ہوتی تو تعویذ گنڈہ کا دھندہ کرنے والوں کے حجروں میں ہندو خواتین کی بھیڑ نظرنہ آتی۔ ان کی عقیدت مندی کا عالم یہ ہے جس احترام سے اپنے دیوی دیوتا کے سامنے سرجھکاتے ہیں، اسی احترام سے مسلم صوفیاء کے مزارات پر بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ان کی پوری زندگیوں کا جائزہ لیجئے، ہررسم ورواج اورطورطریقہ عقیدتمندانہ مزاج اورتوہم پرستی کو ظاہرکرتا ہے۔اس مزاج کا ایک پہلو یہ ہے کہ سیاسی ترجیحات کے تعین میں بھی سڑک ، بجلی، پانی، روٹی ،کپڑا اورمکان،اسپتال اوراسکول پیچھے رہ جاتے ہیں، مندر، مسجد ، شمشان، قبرستان، ہندواورمسلمان کے نعرے اورمذہبی چولے کام کرجاتے ہیں۔
شاید قومی مزاج کی اس قدیم کمزوری کو بھانپ کرہی بیرسٹر موہن داس کرم چند گاندھی نے ٹائی اور سوٹ اتار کرکھونٹی پر ٹانگ دیا۔ دھوتی پہنی، چادراوڑھی اورلٹھیا ہاتھ میں لے کر فقیروں کا سا روپ اختیار کرلیا۔ اجنبی چیز تھی، عوام کا دھیان کھینچا۔سیاسی سمجھ کے ساتھ بیرون کی مہاتمائی خوب رنگ لائی۔ ہمارے ہی کسی قائد نے ان کو مہاتما کا خطاب دے کر کام اورآسان کر دیا۔ جواباً انہوں نے محمد علی جناح کو قائد اعظم قرار دیدیا اورپھر کیا تھا، تحریک آزادی کا محور ’ہندستانیوں‘ کے بجائے ہندوؤں اورمسلمانوں کے حقوق اور اختیارات کی جنگ میں بدل گیا۔
اس کمزوری سے محفوط ہم بھی نہیں ہیں۔ گاندھی جی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو تاڑا اور ان کے جذبات کا رخ سات سمندرپار کے ایک ایسے مسئلے کی طرف موڑ کر ہمدردی حاصل کرلی جس کا تاریخ کے کسی بھی دورمیں ہندستان سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ تحریک خلافت میں شریک ہمارے بزرگوں کو یہ احساس ہو کہ نہ ہو کہ یہاں کی سڑکوں پرجلسہ جلوس سے خلافت عثمانیہ کے خلاف یورپی یلغاررک نہیں جائے گی، مگر یہ سمجھنا محال ہے کہ گاندھی جی کو بھی اس کا احساس نہیں تھا۔ان کی سیاسی زیرکی کا کیا کہنا؟ وہ ایسے قومی رہنما بن گئے کہ کانگریس کی چارآنے کی ممبری بھی نہیں، مگرکیا مجال کہ کوئی فیصلہ ان کے بغیر ہوجائے۔ملک کی تقسیم کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا اوریقیناًاس سے ہندومرکوزاور مسلمان منشرہوگیااور فرقہ ورانہ ماحول مزیدخراب ہوگیا۔جوآگ بھڑکی اس میں ہزاروں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ اس دور کی قومی سیاسی قیادت ایسی بھولی تو نہ تھی کہ اس کو پہلے سے اس کا اندازہ نہ رہا ہو۔
تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ مختصراً یہ کہ ہم جب آزاد ہوئے توآزادی انگریز حکمران سے تو ملی، اس سیاسی اور سماجی منظراورپس منظر سے نہیں ملی جس نے ہندستانی قوم کو دوپھاڑ کردیا تھا۔ ملک تقسیم ہوا، فرقہ پرستی کے شعلے بھڑکے اور ہزار ہا انسانوں کا خون پی کر بھی شانت نہیں ہوئے۔ ہرچند کہ وعدہ ہم اہل ہند سے سیکولر حکومت اورسب کے ساتھ یکساں سلوک اورانصاف کا کیا گیا تھا مگر افسوس کہ آزادی کے بعد جن افراد نے عنان حکومت سنبھالی، ان کے مزاجوں میں مذہبی منافرت اور موافقت کے شجرہائے خاردار جڑیں جمائے رہے۔ اس کی پہلی شہادت 23-22 دسمبر 1949کی درمیانی شب اجودھیا میں نمودار ہوئی جب ایک تاریخی مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں ۔وزیراعظم نے خط بھی لکھا مگر ریاست کے وزیراعلا گووندبلبھ پنت کو ، جوکانگریس کے سرکردہ لیڈرتھے، مورتی ہٹوانے پر آمادہ نہیں کرسکے۔ مرکزی وزیرداخلہ سردار پٹیل کی پنت کو تائید ملی۔ ماحول ایسا بنا کہ نہروبھی خاموش ہوگئے۔
پھر جب 1952میں پہلا پارلیمانی چناؤ ہوا تو کانگریس کے سامنے چند ٹوٹی پھڑکی پارٹیاں ضرورتھیں، مگرعوام میں اس کا رسوخ اوراحترام کم نہ تھا۔اس کے باوجودامیدوار کے حلقے کا تعین ذات ، برادری اور مذہب کی بنیاد ہوا۔ یہ اعتراف اس بات کا ہے کہ یہ تعصبات اس دورمیں بھی تھے جب قوم انگریزی استبداد کے خلاف فتحیاب ہوکر نکلی تھی۔بیشک آئین سازاسمبلی نے ایک مثالی آئین ہمیں دیا جو روشن خیالی اور انسانی حقوق کی پاسداری کا عظیم مرقع ہے۔ مگر جنا ب اس کو کیا کیاجائے کہ اس آئین کا حلف لے کر جن قائدین نے اقتدارسنبھالا ،وہ ہندو جانب داری کا جواز بھی نکالتے رہے۔ غیر ہندو ایس سی ؍ایس ٹی کو ریزرویشن سے انکار اس کی بڑی افسوسناک مثال ہے۔ غربت اور ناخواندگی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر کانگریس کی سرکار نے اس کو بھی مذہبی رنگ دے دیا۔
اب زارآگے بڑھئے۔ سنہ 1970کی دہائی میں جب کانگریس ٹوٹی اور اندرا گاندھی نے اپنی پارٹی کے لئے ’’گائے اوربچھڑے ‘‘کا انتخابی نشان چنا تو یہ کیا تھا؟ کس طرح کی ذہنیت سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی فکر تھی؟ ان کے جانشین راجیو گاندھی نے ان سے بھی لمبی چھلانگ لگائی ۔ ایک طرف شاہ بانو معاملے میں اقلیت سے ہمدری جتائی ، دوسری طرف اجودھیامسجد کے تالے کھلوائے، باضابطہ شیلانیاس کرایا اوراس کے بعد ہاشم پورہ اورملیانہ میں اقلیت کے ساتھ ظلم وزیادتی کس طرح کی سیاسی حکمت کا کارنامہ ہے؟ بھونڈی، بھاگل پور، نیلی (آسام)،مرادآباد اور 6دسمبر1992کو بھی یاد کیجئے۔ غرض ایک کے بعد ایک آنے والا حکمراں یوپی میں ہندوفرقہ پرستی کو ہوادیتا رہا۔ جو بیج بھاجپا کے عروج سے قبل بویا گیا،یہ انتخابی نتیجہ اسی کا پھل ہے۔
لیکن مسلمان اس سلوک سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ یاد کریں آپریشن بلواسٹار (جون 1984) کو۔ اس کے بعد اندرا گاندھی کے قتل اور 1984کے سکھ کش فساد کو ۔ مقدس دربارصاحب پر فوج کشی اور سکھوں کی نسل کشی ناقابل فراموش جرائم ہیں۔ اگراس ملک میں سکھ اقلیت محفوظ نہیں، جس کی سب سے بڑی تعداد افواج میں ہماری سرحدوں کی نگرانی کرتی ہے تو پھرمسلم اقلیت کس قطاروشمار میں ہے؟اطلاع یہ ہے کہ پنجاب میں شورش کے دورکے بہت سے سکھ آج بھی گرفتاربلا ہیں اوران کا پرسان حال کوئی نہیں۔
ان جستہ جستہ واقعات کا تذکرہ اس لئے کردیا کہ جو اصحاب یوپی چناؤ2017کے نتائج سے ششدر ہیں ان کو یاد آجائے کہ یہ کامیابی صرف بھاجپا اورمودی کا کارنامہ نہیں، اس کی بساط بچھانے میں سابق حکمرانوں کا بڑا کردار ہے۔مودی نے صرف فصل کاٹی ہے۔ بوئی کسی اورنے تھی جو سیکولر ہونے کادعوا کرتے رہے ہیں۔
لیکن اس سوال کا جواب رہ جاتا ہے کہ برادران وطن کے تعلق سے ہمارااپنا کردار کیا ہے اوراس کا اس نتیجہ پر کتنا اثر ہے؟چھوڑ دیجئے اس بات کو اگر اویسی میدان میں نہ اترتے تو کتنے اورمسلم امیدوار جیت جاتے ؟ غورکیجئے کہ خود ہم نے اپنے اسلامی کردار و اخلاق کے کتنے نقوش اپنے پڑوسیوں پر چھوڑے ہیں؟ مسلمانوں کی بڑی آبادیوں والے خطوں، مظفرنگر، شاملی، سہارنپور، بجنور وغیرہ میں بھاجپا کا پرچم کیوں لہرایا؟کیوں مقامی باشندے کثیرمسلم آبادی سے مطمئن نہیں؟
یہ بھی غورکیجئے کہ یہ جو ہمارے دین کے قلعے ہیں انہوں نے اپنے گردوپیش پراسلامی اقدار، اطوار وکردار کے کیا اثرات قائم کئے ہیں؟ دارالعلوم کیلئے مشہوردیوبند میں کیا ماحول ہے؟ وہاں سے کون جیتا؟ ندوہ کے مرکز لکھنؤ میں جھنڈا کس کا لہرایا؟ بنارس جہاں اہل حدیث کا بہت بڑامدرسہ ہے وہاں کیا ہوا؟بریلی شریف پر کیوں بھاجپا کا نام لکھا گیا؟ اب اگران بستیوں کا نام گنوائیں جو علماء اورمشائخ کے اسمائے گرامی سے منور ہیں، جن کے یہاں غیرمسلم بھی بڑی تعداد میں حاضررہتے ہیں مگر معاشرے پر ان کا اثراوراعتمادنہیں، یہ بیان کرنے کوایک دفترچاہئے۔کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ بڑی مسلم آبادی والے حلقوں میں بھاجپا بازی مارلے جاتی ہے؟ سوال علماء اورمسلم اداروں کے سیاسی اثررسوخ کا نہیں ، ان کے اسلامی کرداراوردینی شعور کا ہے ۔آخر اسلامی علوم کی تعلیم وتعلم کے باوجودوابستگا ن مدارس اپنے کرداروعمل سے برادرا ن وطن کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیوں نہیں کرپاتے، کیوں ان کے توسط سے عام رائے اہل اسلام کے بارے میں خوش کن نہیں ہوتی؟ کہیں کچھ توخامی ہے کہ ہم صاحب قرآن اورداعی ایمان ہونے کے باوجو یوں خوارپھرتے ہیں؟ بیرونی حالات کا تجزیہ ضرورکیجئے ، مگرکچھ نظراپنے داخل پر بھی ڈالنی چاہئے۔
معذرت
میری ان غیرروائتی معروضات سے اگرکسی کو تکلیف پہنچے توعرض ہے کہ مقصدتنقید و تنقیص نہیں، توجہ خوداحتسابی اور درست راہ عمل کے انتخاب پردلانا ہے۔ان سطور میں صورتحال کے ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ پہلو اوربھی بہت ہیں جن پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔یہ نتائج بظاہر بھاجپا یا مودی کی جیت دکھاتے ہیں۔ لیکن اصلاًسماجی طور پر ہمارے اسلامی کردار میں خامیوں کی بدولت اور سیاسی طورپر اس فراڈی نظریہ کی شکست ہے جس نے سیکولرزم کا جاپ توکیا مگرقدم قدم پر سیکولرزم کے بنیادی تقاضے ، ’سب کے ساتھ انصاف سے‘ دغا کیا۔ آج اگروہ اقتدار سے باہر ہوگئے ہیں کو ہم کہیں گے خودکردہ راعلاج نیست۔
آخری بات
آخری بات یہ ہے کہ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں جب ملت فکری اورعملی اعتبار سے سخت مخالف نظریہ کے نرغے میں ہے ۔ یہ1258عیسوی میں ہلاکو کی فتح اورخلیفہ معتصم باللہ کی شکست اور سقوط بغداد کے سقوط سے بدتر نہیں ۔یہ 1857سے بھی بدترنہیں جب ہندستان سے مسلم حکمرانی کی بساط الٹی اورانگریزوں نے ان کی لاشوں کے پشتارے لگادئے ۔ کابل اورعراق پر بش کی فتح سے بھی بدترنہیں۔ ہم نے ہزاروں آفات کا مقابلہ کیا ہے۔اگرہوشمندی سے کام لیا گیا اورقرآن کی طرف عملاً رجوع کیا گیا تو انشاء اللہ حالات بدلیں گے اورملک وملت کے لئے بہتری کے درکھلیں گے۔
16 مارچ، 2017 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/up-elections-sowed-someone-else,/d/110421
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism