New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 07:46 PM

Urdu Section ( 21 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Unendng Debate on Taraweeh رمضان میں تراویح کے جواز پر بحث

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

21 مارچ 2025

رمضان کے مہینے میں روزوں کے ساتھ جو عبادت خصوصیت کے ساتھ اہمیت اور فضیلت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ہے نماز تراویح جو عشاء کی نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ تراویح کی۔نماز بیس رکعت پڑھی جاتی ہے۔ علماء اس نماز کو سنت بتاتے ہیں ۔

تراویح کی نماز کے ساتھ ایک اور بات مخصوص کرلی گئی ہے اور وہ ہے تیس دنوں میں امام کا پورے قرآن کا پڑھنا اور مقتدی کے لئے پورے قرآن کا سننا۔ تراویح کی نماز کو کاروباری لوگوں کی سہولت کے لئے تین دن کی تراویح ، دس دنوں کی تراویح، پندرہ دنوں کی تراویح ، بیس دنوں کی تراویح اور ستائیس دنوں کی تراویح۔ تراویح کی مدت جتنی کم۔رکھی جاتی ہے  قرآن پڑھنے کی رفتار اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ دس دنوں یا بیس دنوں میں قرآن مکمل پڑھنا ہوتا ہے۔اس مقصد کے تحت زیادہ تر مساجد میں رمضان میں تراویح کی نماز پڑھانے کے لئے الگ سےحافظ قرآن رکھے جاتے ہیں جو کسی دوسرے شہر سے آتے ہیں اور انہیںجلد سے جلد تراویح ختم کرکےاور نذرانے کی موٹی رقم  لے کر گھر پر عید کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ چونکہ مسجدوں میں عموماًستائیس روز کیتراویح ہوتی ہے اس لئے دس دن یا پندرہ دن کی تراویحکا اہتمام کاروباریوں کے ذریعہ کسی نجی مکان میں کرلیا جاتا ہے۔

 تراویح کی نمازوں میں قرآن اتنی رفتار سے پڑھا جاتا ہے کہ ایک بھی لفظ مقتدی کے پلےنہیں پڑتا۔ اسے صرف آیت کا آخری لفظ ہی سنائی دیتا ہے ۔ جبکہ قرآن کو نماز میں ترتیل کے ساتھ پڑھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سورہ المزل۔میں کہا گیا ہے

و رتل القرآن ترتیلا

اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو اس طرح پڑھو کہ ہر لفظ صاف صاف سمجھ میں آئے اور خوش الحانی کے ساتھ قراءت کرو۔ تراویح کی نمازمیں قرآن کی اس ہدایت پر عمل نہیں ہوتا۔ مقتدی کو جب قرآن کے الفاظ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتے تو نماز میں اس کی رغبت بھی نہیں رہتی۔وہ صرف نماز مکمل کرنے کے مقصد سے نماز میں شامل ہوتا ہے۔

گزشتہ چندبرسوں میں تراویح کی نماز کے جواز پر ہی سوال اٹھنے لگے ہیں اور یوٹیوب کی۔مقبولیت کی وجہ سے اس بحث میں شدت آگئی ہے۔ یوٹیوب اور انٹرنیٹ کے دور سے قبل قرآن اور حدیث کا علم علماء اور محدثین و مفسرین تک ہی محدود تھا اور عام مسلمان  ان کی آرا کو ہی حرف آخر سمجھتا تھا۔ لیکن یوٹیوب کی مقبولیت اور عالمگیریت کی وجہ سے اب دینی امور اور قرآن اور حدیث کا علم بھی عام لوگں تک پہنچ رہا ہے اس لئے اب عام۔مسلمان اب دینی امور واحکام پر یوٹیوب پر دستیاب علم کی مدد سے اپنی رائے خود قائم۔کرنے لگے ہیں اور کئی۔معاملوں میں سوال بی اٹھانے لگے ہیں۔ نناز تراویح پر بھی اب مسلمانوں کا ایک طبقہ سوال اٹھانے لگا ہے۔ کئی معتبر علماء کے ساتھ ساتھ کچھ مجتہد علماء بھی تراویح کے جواز پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ان کے مطابق قرآن اور حدیث میں تراویح کی اصطلاح کا,ذکر نہیں ہے اور نہ ہی نماز ، روزے ، حج اور زکوة کی طرح تراویح پر واضح احکام ہیں۔ مولانا اسرار احمد ، جاوید احمد غامدی ، مولانا سلمان حسنی ندوی اور انجینئر محمد علی مرزا کی رائے میں تراویح کی نماز کا حکم قرآن اور حدیث میں ہے ہی نہیں۔ مولانا سلمان حسنی ندوی کہتے ہیں کہ نماز تراویح نہ رسول اللہ نے خود پڑھی اور نہ پڑھنے کی تلقین کی۔ نماز تراویح سرے سے کوئی نماز ہی نہیں ہے۔ قرآن میں قیام۔الیل کا ذکر ہے جس کا معنی تہجد کی نماز ہے اور تہجد کی نماز حضور پاک ہر رات کو  اپنے حجرے میں  پڑھتے تھے۔ ایک سال آپنے رمضان میںمسجد میں اعتکاف فرمایا ۔ جہاں انہوں نے اعتکاف فرمایا اس جگہ کوچادر سے گھیر دیا گیا تھا۔ ایک رات جب حضور پاک تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو کچھ مسلمان بھی ان کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ دوسری رات کوبھی ایسا ہوا اور تیسری رات کو بھی۔چوتھی رات کو مسجد میں کافی لوگ یہ سمجھ کر آگئے کہ حضور پاک کوئی خصوصی نماز پڑھارہے ہیں لہذا، آپ نے اس رات نماز نہیں پڑھائی اور مقتدیوں سے فرمایا کہ جاؤاپنے گھروں میں نماز پڑھو ۔ وہ بھی ایسا صرف ایک رمضان میں ہوا۔ لہذا ، یہ کہنا کہ حضور نے تراویح کی نماز پڑھائی اور پڑھنے کی ہدایت دی یہ غلط ہے۔انہوں نے قیام اللیل کیا۔

ایک اور عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد بھی کہتے ہیں کہ تراویح نہ دور نبوت میں پڑھی گئی نہ دور ابو بکر ؓ میں اور نہ دورعمرؓ کے ابتدائی دور میں۔ تراویح کا سلسلہ حضرت عمر ؓ کے دور میں شروع ہوا ۔ انہوں نے ایک رات مسجد میں مسلمانوں کو ٹولیوں میں  نفل نماز پڑھتے دیکھا تو انہیں انتشار پسند نہیں آیا۔ انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو یہ ذمہ داری دی کہ ایک امام کے پیچھے لوگ نماز پڑھ لیں اور ہر چار رکعت میں بیٹھ کر تھوڑا آرام۔کرلیں۔ چار رکعت کے بعد بیٹھ کر آرام کرنے کو عربی میں  ترویحہ کہتے ہیں۔ اور ترویحہ کی جمع تراویح ہے۔ ان علما کا کہنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے انتظامی نقطہء نظر سے ایک مشورہ دیا تھا جسے مسلمانوں نے قبول کرلیا۔انہوں نے کوئی شرعی حکم جاری نہیں کیا۔بلکہ وہ خود بھی تراویح نہیں پڑھتے تھے۔ انہوں نے مسجدمیں نماز پڑھنے والوں کو ایک امام کی اقتدا میں کھڑا کیا اور پھر چلے گئے۔ اور تراویح کی نماز ہوتی تو وہ خود اس میں شریک ہوتے بلکہ اس کی امامت کرتے۔کیونکہ وہ خلیفہ تھے اور خلیفہ امامت بھی کرتے تھے جنگوں کی قیادت بھی کرتے تھے اور سیاسی فیصلے بھی لیتے تھے۔

جدید اسلامی مفکر جاوید,احمد غامدی بھی کہتے ہیں کہ نماز تراویح کوئی نماز نہیں ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد جو وتر پڑھی جاتی ہے وہ دراصل تہجد کی نماز ہے جو مسلمان سہولت کے لئے عشاء کے بعد پڑھ لیتے ہںں۔

تراویح کے بارے میں سب سے زیادہ شدت کے داتھ جس جدید عالم۔دین نے بحث کی ہے وہ ہیں پاکستان کے عالم دین انجینئر محمد علی مرزا۔ انہوں نے قرآن اور حدیث کے حوالے کے ساتھ یہ واضح کیا کہ تراوہح کا حکم قرآن اور حدیث میں نہیں ہے اور حضورپاک نے تراویح نہیں پڑھائی۔ مسجد بنوی میں رمضان میں تین رات آپ کی اقتدا میں مسلمانوں نے نماز پڑھ لی اور جب چوتھی رات آپ کو اندازہ ہوا کہ مسلمان رمضان کی کوئی خصوصی نماز سمجھ کر ان کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیں تو چوتھی رات کو آپ نےنماز نہیں پڑھائی اور نمازیوں سے فرمایا کہ جاؤ اپنے گروں میں نماز پڑھو۔

اس سلسلے میں بخاری شریف میں ایک حدیث ہوں ہے:

ابوسلمہ بن عبدالحمن نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا آنحضرت رمضان میں  رات کو کتنی رکعتیں پڑھتے ۔ انہوں نے کہا کہ آنحضرت رمضان میں اور غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعتیں ۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں۔آپ نے فرمایاعائشہ میری آنکھیں ظاہر میں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔

لہذا، روایتی اور جدید مجتہد علماء دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح کا سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوا۔ یہ قیام۔اللیل ہے جو حضور پاک پر فرض تھا اور مسلمانوں کے لئے نفل نماز ہے۔اور نفل نماز میں رکعتوں کی کوئی قید نہیں ہے کوئی 8 رکعت پڑھے کوئی اس سے زیادہ پڑھے یہ اس کے شوق اور استطاعت پر منحصر ہے۔مولانا سلمان حسنی ندوی کہتے ہیں کہ ویام۔اللیل یا تہجد میں رکعت کی اہمیت نہیں بلکہ خشوع وخضوع کی تاکید ہے۔ حضور پاک قیام۔اللیل میں اتنی دیر قیام۔کرتے کہ ان پائے مبارک۔میں ورم آجاتا اور آپ لمبی آیتیں قراءت کرتے۔ اس طرح علماء کا ایک طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ نماز تراویح قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں ہے اور یہ قیام۔اللیلسے الگ کوئی نماز نہیں ہے۔اس لئے یہ بحث بے نعنی ہے کہ تراویح بیس رکعت ہے یا آٹھ رکعت۔مولانا تقی عثمانی اگرچہ یہ تسلیم۔کرتے ہیں کہ حضور پاکنے تراویح نہیں پڑھائی لیکن یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ جب صحابہ نے اس عمل کو اختیار کیا تو اس اپنانے یا جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/unendng-debate-taraweeh/d/134936

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..