سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن میں بت پرستی کا ذکر کرتے ہوئے کئی مقامات پر لفظ صنم اور وثن کا استعمال ہواہے۔ قرآن کے اردو مترجمین نے ان کا معنی بت یعنی (دیوی دیوتاؤں کی) مورتی بیان کیاہے۔ اس لئے دونوں الفاظ میں معنی کا فرق ترجمے کی مدد سے سمجھ میں نہیں آتا۔ جب کہ دونوں الفاظ کا معنی اور اس کے تناظر کی وضاحت ضروری ہے۔ قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بت پرستی کے ذیل میں لفظ صنم اور وثن کا ذکر آیاہے۔ ہم یہاں ان آیتوں کو پیش کرتے ہیں جہاں لفظ صنم آیاہے:
”اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے تو کیامانتاہے بتوں (اصنام) کو خدا۔ (الانعام: 74)
’جب کہا اپنے باپ کو اور اس کی قوم کو تم کس کو پوجتے ہو وہ بولے ہم پوجتے ہیں مورتوں کو پھرسارے دن انہی کے پاس لگے بیٹھے (عاکف) رہتے ہیں۔ (الشعراء: 71)
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار اتارا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں (اصنام) کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے۔“ (7:138)
”اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اس شہر کو امن کی جگہ بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں (اصنام) کو پوجنے لگیں بچائے رکھ۔“ (ابراہیم: 35)
اب ہم ان آیتوں کو پیش کرتے ہیں جہاں لفظ وثن آیاہے:
”اور تم خدا کو چھوڑ کر بتوں (اوثان) کو پوجتے ہو اور قصے بناتے ہو۔“ (العنکبوت: 17)
”اور ابراہیم نے کہا تم نے اللہ کے سوائے اوثان (وثن کی جمع)کی محبت کو دنیا کی زندگی میں اپنایاہے ۔“ (العنکبوت: 25)
ان آیتوں میں صنم اور وثن میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی پتھر، لکڑی یا دھات سے ایسے پیکرمراد لیتے ہیں جن کو بت پرست لوگ اپنے دیوی دیوتا کی تمثیل سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ تہذیب کے ابتدائی دور میں جب انسان بتوں کو فنکاری سے بنانے کا ہنر نہیں جانتا تھا تو وہ پتھر یا مٹی کا ستون بنالیتااور ان کو اپنے دیوی یا دیوتا سمجھ کر پوجتاتھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بت پرستو ں نے ود، یعوق، ود، سواع، نصرنام کے دیوتاؤ ں کو پوجتے تھے۔ ان پانچ دیوتاؤن کی مورتی نہیں تھی بلک صرف علامتی ستون تھے جن کو وہ پوجتے تھے۔ بعد میں جب انہیں کچھ ہنر آیا تو انہوں نے پتھر یا لکڑی کی تختیوں پر آنکھ ناک اور منہ بنادیا کرتے تھے۔ ایسے پیکروں کو قرآن میں وثن کہاگیاہے۔آج کے دور میں کاغذ پر بنی ہوئی دیوی دیوتاؤں کی رنگین تصویریں بھی وثن کہلائیں گی۔کیونکہ وہ مورتیں نہیں ہیں بلکہ کاغذ پر دیوی دیوتاؤں کی تصویریں ابھاری گئی ہیں۔
بعد میں انسانی تہذیب ترقی کرگئی اور انسانوں نے مٹی، دھات، پتھر یا لکڑی سے ہوبنہو انسانی پیکر بنانا شروع کردیا تو اس پیکر کو مورت یا مورتی کہا جانے لگا۔ فارسی میں مورت کو بت کہاجانے لگا۔ جاپان میں بدھ مذہب کو فروغ ہوا تو وہاں کی زبان میں بدھ کو بتس کہاگیا۔ یہی بتس فارسی میں بت بن گیا۔اور پتھر، دھات یا لکڑی سے بنے دیوی دیوتاؤں کی انسانی شبیہ کو عربی میں صنم اور فارسی میں بت کہاگیا۔ما قبل اسلام دور میں عربوں کے یہاں جو لات، منات اور عزی نام کی دیویاں پوجی جاتی تھیں ان کی شییہ ہندوستان کی دیویوں سے بہت حد تک مماثل تھی۔
قرآن میں کچھ مقامات پر لفظ تمثال کا بھی ذکر ہواہے۔تمثال دو موقعوں پر دو مختلف معنوں میں استعمال ہواہے۔ سورہ الانبیاء میں لفظ تمثال بت یا مورتی کے معنوں میں استعمال ہواہے۔
”جب کہا اس نے اپنے باپ کو اور اپنی قوم کو یہ کیسی مورتیں (تماثیل) ہیں جن پر تم مجاور (عاکف) بنے بیٹھے ہو۔“ (الانبیاء: 51)
یہاں تماثیل (تمثال کی جمع) بتوں کے معنوں میں استعمال ہواہے۔ غالباً آزر کی قوم صنم اور وثن دونوں طرح کے پیکر استعمال کرتے تھے اس لئے قرآن نے دونوں کو مجموعی طور پر تماثیل کہا ہے۔یعنی وہ پتھروں پر علامتی پیکر بھی استعمال کرتے ہونگے اور مورتیاں بھی استعمال کرتے ہونگے۔
لیکن سورۃ سبا میں لفظ تماثیل بالکل مختلف معنوں میں استعمال ہواہے۔ چونکہ ہمارے مترجمین نے لفظ تمثال کا معنی صرف بت لیا ہے (سورہ الانبیاء: 51) اس لئے یہاں مترجمین اور مفسرین تذبذب میں پڑجاتے ہیں۔ کیونکہ سورہ سبا میں کہا گیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر جنات تماثیل بناتے تھے۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جو ایک پیغمبر بھی تھے مورتیاں بنواتے۔ یہ آیت یوں ہے:
”’اور بہادیا ہم نے اس (سلیمان) کے واسطے چشمہ پکھلے ہوئے تابنے کا اور جنوں میں کتنے لوگ تھے جو محنت کرتے اس کے سامنے اس کے رب کے حکم سے اور جو کوئی پھرے ان میں سے ہمارے حکم سے چکھائیں ہم اس کو آگ کا عذاب بناتے اس کے واسطے جو کچھ چاہتا قلعے (محاریب) اور تصویریں (تماثیل) اور لگن جیسے تالاب اور دیگیں چولہوں پر جمی ہوئی۔“ (سبا:13)
مولانا فتح محمد جالندھری تماثیل کا ترجمہ مجسمے کیاہے۔
فارسی مترجم نے تمثال کا ترجمہ تمثال ہی کردیاہے۔ محراب کا ترجمہ فارسی مترجم نے معبد یعنی عبادت خانہ کیاہے۔ جبکہ انگریزی میں محراب کو synagogues اور کہیں chambersکہاگیاہے۔ تمثال سے دراصل مراد Cherub ہے جو بائبل میں ان فرشتوں کوکہاگیاہے جو خدا کے عرش کے پایوں کو تھامے ہوئے ہیں، ان کے چار پنکھ ہیں۔ Cherubکو kerub بھی کہاجاتاہے جو عربی لفظ قریب سے مماثل ہے۔ وہ فرشتے جو قرآن کے مطابق خدا کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں مقربون (الملائکتہ المقربون) کہلاتے ہیں۔ لہذا، یہ فرشتے خدا سے بہت ہی قریب ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں محلوں کے دروازوں پر Cherub کا مجسمہ بنانے کا رواج تھا۔ لہذا، قرآن میں تمثال سے مراد یہی Cherub ہیں جو محل کے دروازے پر دو عدد بنائے گئے تھے۔ تمثال سے مراد وہ مجسمے یا جاندرا یا بے جان چیزوں کے پیکر ہیں جو محض سجاوٹ کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔ لہذا، جاندار یا بے جان چیزوں کی وہ شبیہ یا پیکر جسے عبادت کے لئے استعمال کیاجائے اسے صنم یا وثن کہاجائیگا اور وہ پیکر جن کا استعمال سجاوٹ یا تفریح کے لئے کیاجائے وہ تمثال کہلائیگا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اس طرح کے تمثالوں یا مجسموں کا محلوں یا عمارتوں میں نصب کرنا خلاف شرع نہیں تھا اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل میں ان مجسموں کو لگایا۔جنہیں بائبل کی اصطلاح میں Cherub کہتے ہیں۔اس آیت کا ترجمہ یا تفسیر کرتے وقت بائبل اور تورۃ کی روایتوں کوبھی نظر میں رکھا جائے تو پورا تناظر واضح ہوجاتاہے اور قرآن کا قاری تذبذب میں نہیں پڑتا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/understanding-words-sanam-wathan-tamsal/d/122180
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism