New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 10:07 AM

Urdu Section ( 11 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Understanding Syncretic Islam of Kerala from a historical perspective تاریخی نقطہ نظر سے کیرالہ کے ہم آہنگ اسلام کی تفہیم

مبشر وٹاپرمبن، نیو ایج اسلام

4 فروری 2022

·        مذہبی فرقہ پرستی میں تھوڑی رعایت بھی پورے کیرالہ میں بے شمار تباہی مچا دے گی

·        کیرالہ میں اسلام نے اس کی معاشی اور سماجی تاریخ کی تشکیل میں انمٹ کردار ادا کیا ہے۔

·        کیرالہ میں اسلام کی تاریخ داخلی طور پر مذہبی ہم آہنگی اور ہم آہنگ ثقافت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔

·        کیرالہ کی بہت سی مساجد ہندو حکمرانوں کی مالی مدد سے تعمیر کی گئی ہیں۔

·        کاؤنٹر ریڈیکلائزیشن ریاست میں مسلمانوں پر اپنا اثر ڈال رہی  ہے۔

 ….

جنوبی ہندوستانی اسلام شمالی ہندوستانی اسلام سے معمولات و معتقدات کے اعتبار سے ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ صوفیاء کرام کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ اور اسلام کی آمد کے بعد سے اجتماعی نوعیت کے سماجی تبدیلیوں نے جنوبی ہندوستانی اسلام کو اسلام کے شمالی ہندوستانی تجربات سے الگ رہنے کا موقع فراہم کیا جس پر کچھ سیاسی رنگ نظر آتا ہے۔ شمالی ہندوستان کو تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی آبادیاتی اور مذہبی تبدیلیوں کے باعث تشدد اور خونریزی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ خوش قسمتی سے جنوبی ہندوستان اس تباہ کن صورتحال سے محفوظ تھا۔

کیرالہ میں اسلام نے اس کی معاشی اور سماجی تاریخ کی تشکیل میں انمٹ کردار ادا کیا ہے۔ کیرالہ میں اسلام جغرافیائی طور پر دو حصوں میں واقع ہے۔ مالابار کے علاقے میں ہائبرڈ مسلم عرب آبادیاں ہیں جبکہ جنوب میں وہ مزدور مہاجر مسلمان ہیں جو پرتگالی افواج کی طرف سے سامراجی استعماریت کا افتتاح کرنے کے بعد اپنی غیر مستحکم حالت کو بہتر بنانے کیلئے آباد ہوئے۔ لیکن، جیسا کہ فرانسس رابنسن نے لکھا ہے، ریاست میں مسلمانوں کے دونوں طبقات معمولی علاقائی تبدیلیوں کے ساتھ ایک ہی جیسی تاریخ اور معمولات کا اشتراک کرتے ہیں۔

کیرولین اوسیلا کے مطابق کیرالہ کا اسلام 'گلوکلائزڈ اسلام' ہے، جس میں مقدس آفاقی مذہبی رسومات معاشرے کے سماجی معمولات کے ساتھ ضم ہیں اور اس طرح ایک نیا مذہب دوسری برادریوں کے ردعمل کا سامنا کیے بغیر تسلسل کا کام کرتا ہے۔ یہ ثقافتی انضمام باہمی برادری کی نازک ہم آہنگی کو بحال ۴کھتا ہے۔ ایسے ماحول میں مذہب تبدیل کرنا ثقافتی اور سماجی شناختوں میں کم سے کم تبدیلیوں کے ساتھ ممکن ہوتا ہے اور اس وجہ سے معاشرتی تبدیلیوں میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔

شمالی ہندوستان میں اسلام کم و بیش حکمرانوں کے سیاسی رجحانات کے تابع رہا ہے۔ مذہب کا سیاسی استعمال اکثر معاشرے میں دراڑ کا باعث بنتا ہے، جس سے لوگوں میں گہری دشمنی پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو جدید ہندوستان میں نظر انداز کیا  گیا ہے کہ مذہب قرون وسطیٰ کے حکمرانوں کے لیے بغیر کسی ذاتی وفاداری کے، ایک ڈھال رہا ہے۔ جب حال میں بیٹھ کر ماضی کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں، تو اکثر نتائج غلط برآمد ہوتے ہیں۔

لیکن کیرالہ میں اسلام کا سیاست سے کم ہی تعلق رہا ہے۔ کیرالہ کی مسلم تاریخ میں صرف ایک بڑی مسلم سلطنت حکومت کر سکی۔ اور واحد مسلم خاندان خود مسلمان ہونے والوں کا جانشین تھا۔ اپنی پوری تاریخ میں اراکل خاندان نے مادری نظام کی پیروی کی، جو کہ مروجہ اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام ہندو حکمرانوں کے تحت ترقی کی منازل طے کرتا رہا اور کیرالہ میں ایک بھرپور متحرک عنصر بنتا رہا۔

کیرالہ میں، اسلام کی تاریخ داخلی طور پر مذہبی ہم آہنگی اور ہم آہنگ ثقافت کے ساتھ گھل مل گئی ہے۔ ہندو آبادی نے پوری گرمجوشی سے مذہب کے مساوی اصولوں کا استقبال کیا۔ تجارتی تعلقات نے اسلام کے ہم آہنگ فروغ کو عروج بخشا۔ میپیلا کمیونٹی کے بارے میں تاریخی افسانے کے مصنف مجیب جائیہون لکھتے ہیں، "کیرالہ میں اسلام کی ترقی اس وقت کی روادار آبادی کی مرہون منت ہے۔"

ایک مسافر اور مورخ کے طور پر مجیب جائیہون نے مذہبی رواداری کی پُرجوش مثالوں کو دستاویزی شکل دی ہے جس نے کیرالہ میں اسلام پھولنے پھیلنے میں مدد کی۔ ان کی کتاب 'The Cool Breeze From Hind' باہمی تعاملات کا ایک ناقابل انکار دستاویز ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جہاں اسلام ایک سامراجی طاقت کے طور پر شمالی ہندوستان میں خوف زدہ تھا، وہیں کیرالہ میں مقامی ہندو حکمرانوں نے اپنی رعایا کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ کوزی کوڈ کے زمورین نے ساحل پر رہنے والے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا تاکہ پرتگالی وحشیوں سے لڑنے والے بحری بیڑے کے لیے انسانی وسائل کی فراہمی ممکن ہو سکے۔

کیرالہ کی کئی مساجد ہندو حکمرانوں کے مالی تعاون سے تعمیر کی گئیں۔ جب ملک دینار جماعت کے مبلغین نے کیرالہ میں قدم رکھا تو چیرا کے حکمرانوں نے مساجد کے لیے زمین اور ٹیکس فری جائیدادیں عطیہ کیں۔ کیرالہ کی پہلی دس مساجد میں سے کم از کم چھ مسجدیں ہندو حکمرانوں کے مالی تعاون سے تعمیر کی گئیں۔ مجیب جیہون فخر سے کہتے ہیں، "یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں شمالی ہندوستان کی سیاست مسلمانوں کے مندروں کی بے حرمتی جیسے ایجنڈے میںڈوبی ہوئی ہے جبکہ کیرالہ کو مندروں کی سیاست سے استثنیٰ حاصل ہے"۔ اس کے باوجود، وہ ریاست میں فرقہ وارانہ وبا کے تیزی کے ساتھ پھیلنے کے بارے میں فکر مند ہے۔

اس کے علاوہ، مصنف اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان ہیرو ہندوؤں کی نظر میں قابل احترام ہیں۔ شہید کنچالی مراکراند، کیرالہ رابن ہڈ کیامکلم کوچونی کو سبھی لوگ بہت عزت دیتے ہیں۔ پھر بھی، ہندو عقیدت مند سبریمالا جانے سے پہلے، وہ صدر دیوتا ایاپن کے مسلمان معتمد واوارو سوامی کے در پر حاضر ہوتے ہیں۔ درگاہوں پر بے شمار مذاہب کے لوگ وقتی سکوں کی تلاش میں بھرے رہتے ہیں۔ مصنف نے ثقافتی انضمام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نیرچاس (عرس) کی کثیر ثقافتی نوعیت پر روشنی ڈالی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں، "لیکن یہ مشہور مذہبی ہم آہنگی ہندو اور مسلم دونوں فرقہ وارانہ طاقتوں کی وجہ سے اب خطرے میں ہے۔ ریاست میں مذہبی ہم آہنگی کی خوبصورتی کو شدید نقصان اور بے اعتمادی کا سامنا ہو سکتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ریاست تخریبی قوتوں کو پسپا کرنے میں ناکام نہ ہو جائے"۔

کاؤنٹر ریڈیکلائزیشن ریاست میں مسلمانوں کو خطرناک حد تک اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ ثقافتی وابستگیوں کو مذہب میں غیر قانونی اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ایسے عناصر کو فوری طور پر ختم کرنے اور سلفیت کی تبلیغ کردہ کٹر اور یک سنگی اسلام کی طرف لوٹنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ثقافتی تبادلے کی ماضی کی وراثت کا احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جس طرح کبھی ہندو مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے، اسی طرح آج اس نازک مذہبی تکثیریت کو برقرار رکھنا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی فرقہ پرستی کو معمولی سے معمولی رعایت بھی ریاست بھر میں بے شمار تباہی مچا دے گی۔

Understanding Syncretic Islam of Kerala from a historical perspective

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/understanding-islam-kerala-historical/d/126346

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..