غلام غوث صدیقی
20 اپریل 2024
امریکی ویٹو کے بعد اقوام
متحدہ میں فلسطینی مندوب اپنی تقریر کے دوران رو پڑے! اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران
فلسطینی مندوب کے آنسو بھرے اظہار نے فلسطینی عوام کے مصائب کی طرف توجہ دلائی جو اقوام
متحدہ کی مکمل رکنیت کی امید کھو چکے ہیں۔ اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکہ نے
اقوام متحدہ کے ارکان کی اکثریت کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ دوستانہ
تعلقات کو برقرار رکھنے کا انتخاب کیوں کیا؟
۔۔۔۔
اقوام متحدہ کے قیام کی وجہ
کیا ہے؟ اس کا بنیادی مقصد پوری دنیا میں امن و سلامتی لانا تھا لیکن یہ کوشش کتنی
کامیاب رہی؟ اس کے کل 193 ممبران ہیں۔ جب بھی
کسی قوم کو جنگ کا سامنا ہوتا ہے، چاہے وہ ریاستی سطح پر ہو یا غیر ریاستی دہشت گردی
کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے ارکان کی بھاری اکثریت نے بلا شبہ ہمیشہ امن و سلامتی کی
حمایت کی ہے۔ ارکان کی اکثریت غزہ، فلسطین
میں امن و سلامتی ، اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کے پرامن حل کی مسلسل حمایت کی ہے۔ سوال
یہ ہے کہ یہ کارآمد ہے یا نہیں۔ اسرائیل جب چاہے، غزہ کے لوگوں کا قتل عام شروع کر
دیتا ہے، ان کے مکانات، کاروبار، اسکول اور ہسپتال مسمار کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اقوام
متحدہ کے اہلکاروں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کے ارکان کی اکثریت کی خواہشات کو نظر انداز کرتا
ہے۔ اس کی طاقت کے گھمنڈ کو ہمیشہ اس کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو خود کو دنیا کی غالب
طاقت سمجھتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ پر حکمرانی کرتا ہے اور
اس کی پالیسیاں عموما فلسطین کے خلاف ہو تی
ہیں۔ یہ کسی بھی وقت اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتا ہے جب کوئی منصوبہ اس کے
اپنے مفادات کو پورا نہیں کرتا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی اکثریت کی مرضی کا بھی احترام
نہیں کرتا۔
ایسے حالات میں، امریکہ کے
نزدیک فلسطینی مندوب کا اقوام متحدہ کے مکمل
رکن کی حیثیت سے منظوری نہ ملنے پر جذباتی ہو کر اقوام متحدہ کے سامنے آنسو بہانا کس
قدر قابل احترام ہو سکتا ہے۔ امریکہ جو انسانی
حقوق کی دہائی دیتا ہے مگر فلسطینی عوام کی مظلومیت کا احساس نہیں رکھتا ، امریکہ
جو جو انسانی درد محسوس نہیں کرتا، جو اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو اپنا ذاتی مفاد سمجھتا ہے، جسے غزہ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں یا کمزوروں
کی زندگیوں کی کوئی فکر نہیں ہے، جس کے اندر انسانی ہمدردی کا مکمل فقدان ہے — وہ امریکہ
آخر اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندے کے دکھ کو کیسے محسوس کر سکتا ہے ؟
عام طور پر، جب آپ اپنی محبوب
چیز کھو دیتے ہیں تو آپ کا درد چھلکتا ہے
۔ فلسطینی مندوب کا غالباً خیال تھا کہ اگر فلسطین کو مکمل رکنیت دی جاتی تو وہ سلامتی
کونسل میں امن و سلامتی سے متعلق مسائل پر بات کر سکتا تھا۔ اسے یہ امید تھی کہ فلسطین امن و استحکام میں اضافہ کر لیتا اور اس طرح اقوام متحدہ کے مزید ارکان کی حمایت
حاصل کر ہو جاتی ۔ لیکن اس کی تمام توقعات پر پانی پھر گیا۔ امریکہ نے اپنے ویٹو پاور
کا استعمال کرکے فلسطینی عوام کی امیدوں کو کچل دیا۔ اقوام متحدہ کے بیشتر ارکان اس
بات پر گہری تشویش میں مبتلا تھے کہ امریکا کیوں نہیں چاہتا کہ فلسطین اقوام متحدہ میں مکمل رکن کے طور پر شامل ہو۔
اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس
کی تمام تصویروں میں، فلسطینی نمائندے کا دل شکستہ اظہار ایک حقیقی، فطری انسانی جذبہ
کی تصویر تھی۔ لیکن انسانی آنسو بہت قیمتی ہوتے ہیں اور اسے ایک بے معنی، عارضی، فانی
اور متکبر اتھارٹی کے سامنے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے جو انسانی امیدوں کو چکنا چور
کرنے اور اکثریت کی مرضی کو نظر انداز کرنے کے لیے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتی
ہے۔
فلسطین کی اقوام متحدہ میں
مکمل رکنیت کا پس منظر
غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے
درمیان الجزائر نے فلسطینیوں کے لیے عرب ممالک کی حمایت سے سلامتی کونسل میں ریاست
فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے کی قرارداد پیش کی تھی ۔اس قرارداد میں
لکھا گیا تھا کہ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی رکنیت کی ریاست فلسطین کی درخواست کا
جائزہ لینے کے بعد جنرل اسمبلی کو سفارش کرتی ہے کہ وہ اسے منظور کرے۔ قرارداد پیش
کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل مندوب عمار بن جامع کا کہنا تھا کہ فلسطین
کو مستقل رکنیت دینے سے طویل ناانصافی کا خاتمہ ہوگا اور اس سے یہ واضح پیغام جائے
گا کہ عالمی برادری فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن امریکہ نے اپنے ویٹو کے ذریعے فلسطین
کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
کسی بھی قرارداد کی منظوری
کے لیے 15 رکنی سلامتی کونسل میں لیے کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ
یہ بھی شرط ہے کہ پانچ مستقل ارکان امریکہ، روس، برطانیہ، چین، اور فرانس میں سے کسی
ایک کی بھی مخالفت (ویٹو) کا سامنا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی
حیثیت فی الوقت 'مستقل مشاہدہ کار ریاست' کی ہے اور ادارے کے تمام اجلاسوں میں شرکت
تو کر سکتا ہے مگر اسے کسی قرارداد پر ووٹ کرنے کا حق نہیں ۔ اس کے علاوہ اسے سلامتی
کونسل، جنرل اسمبلی اور اس کی چھ مرکزی کمیٹیوں میں فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا بھی
حق نہیں ہے۔
فلسطین نے 2 اپریل 2024 کو
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط لکھا جس میں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے
۲۰۱۱ میں
جمع کرائی گئی اپنی درخواست پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی تھی۔ قرارداد میں تجویز
کی گئی تھی کہ 193 رکنی جنرل اسمبلی متفق ہو کہ فلسطین اقوام متحدہ کا 194 واں رکن
بنے۔رواں مہینے خط موصول ہونے کے بعد، سیکرٹری جنرل نے اسے سلامتی کونسل کو بھیج دیا،
جس نے 8 اپریل کو کھلے اجلاس میں اس پر گفتگو کی۔ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 12 ارکان
نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، امریکہ نے اس کی مخالفت کی جبکہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ
نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔قرارداد کے حق میں روس، چین، فرانس، الجزائر، مالٹا،
موزمبیق، گیانا، ایکواڈور، جاپان، جنوبی کوریا، سری لیون، اور سلوینیا نے ووٹ دیا۔اس
قرارداد کو اقوام متحدہ میں زبردست حمایت حاصل ہوئی اور اس کے باوجود اسے امریکی ویٹو
کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔
ریاست فلسطین کی باقاعدہ رکنیت
کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں امریکی نائب مستقل
مندوب رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد ویٹو کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ فلسطینی
ریاست کے خلاف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اقوام متحدہ میں نہیں
بلکہ فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے ۔
خیال رہے کہ ۱۴۰ ممالک
فلسطین کو پہلے ہی قبول کر چکے ہیں ۔ فلسطینیوں کو ملنے والی بھرپور حمایت نہ صرف ان
ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد کی عکاسی کرتی ہے جو ان کی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں بلکہ
ساتویں مہینے میں داخل ہو چکی غزہ جنگ کی وجہ سے تقریباً یقینی طور پر فلسطینیوں کے
لیے عالمی حمایت کو بھی اجاگر کررہی ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل
نمائندہ ویزلے نبینزیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ کے موجودہ بحران کے دوران یہ پانچواں
موقع ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
آج کا ویٹو ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں فلسطینوں کو علیحدہ ریاست کا حق نہیں
ملنا چاہیے۔ روسی سفیر کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی غالب اکثریت فلسطینی ریاست اور
اس کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ رکنیت کے حق میں ہے اور امریکہ اس حوالے سے تنہائی کا
شکار ہے۔
چین کے سفیر فو کانگ نے اپنے
خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کا فلسطینی خواب آج پھر چکناچور ہوگیا
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں فلسطینی علاقوں پر جاری قبضوں کی وجہ سے
صورتحال بدل چکی ہے اور ایسے میں فلسطینیوں کی عملدآری پر سوال اٹھانا قابل قبول نہیں۔
چینی سفیر نے کہا کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت دینے سے مسئلے کے دو ریاستی
حل کے لیے اسرائیل سے مزاکرات کرنے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر
ریاض منصور نے ووٹنگ کے بعد کونسل کو بتایا کہ بعض اوقات ان کی آواز کو دبا دیا جاتا
ہے۔ انھوں نے کہا کہ، "حقیقت یہ ہے کہ یہ قرارداد منظور نہیں ہوئی، اس سے ہمارے
حوصلے پست نہیں ہوں گے اور یہ ہمارے عزم کو شکست نہیں دے گی۔" انہوں نے کہا کہ
ہم اپنی کوششوں سے باز نہیں آئیں گے۔ "فلسطین کی ریاست ناگزیر ہے، یہ حقیقی ہے،
شاید وہ اسے دور دیکھتے ہیں، لیکن ہم اسے قریب سے دیکھتے ہیں۔"
فلسطینی ایوان صدر نے بھی
امریکی ویٹو کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے ایک بیان میں زور دے کر کہا کہ
"امریکی ویٹو غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ ہے، اور بین الاقوامی برادری کی مرضی
کے خلاف ہے، جو اقوام متحدہ میں فلسطین کی ریاست کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی بھرپور
حمایت کرتی ہے۔"
ایران نے امریکی ویٹو کو
"غیر ذمہ دارانہ" قرار دیا ۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی
نے کہا، "واشنگٹن کے اقدام نے امریکی خارجہ پالیسی کی دھوکہ دہی اور اس کی الگ
تھلگ پوزیشن کو بے نقاب کر دیا۔"
قطرکی وزارت خارجہ نے قرارداد
کو منظور کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی "ناکامی" پر "گہرے
افسوس" کا اظہار کیا اور کہا کہ "اسے انصاف کے لیے ایک افسوسناک دن اور خطے
میں امن قائم کرنے کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ۔اس نے کہا کہ اس سے کونسل
کی "بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے فریم ورک کے اندر اپنی ذمہ
داریوں اور کردار کو انجام دینے میں ناکامی کا پتہ چلتا ہے، خاص طور پر غزہ کی پٹی
پر وحشیانہ جنگ کی روشنی میں ، جو بدترین انسانی تباہی کا باعث بنی۔’’
مصر کی وزارت خارجہ نے اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد منظور کرنے میں ناکامی پر "گہرے افسوس"
کا اظہار کیا اور کہا کہ فلسطین کی اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کی کوشش کی منظوری
ایک اہم قدم اور "فلسطینی عوام کا موروثی حق" ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان
نے کہا کہ ’’جبکہ سب فلسطین کے ساتھ ہیں، بدقسمتی سے امریکہ نے اسرائیل کے شانہ بشانہ
کھڑے ہوکر اپنا موقف ایک بار پھر پیش کیا۔ہم نے ویسے بھی کچھ مختلف کی توقع نہیں کی
تھی ۔"
سعودی عرب کے بیان میں کہا
گیا کہ سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو منظور نہ کرنے پر افسوس
کا اظہار کیا۔
ان کے علاوہ ناروے ، ملیشیا
، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک نے بھی امریکی ویٹو پر افسوس کا اظہار کیا۔
پھر ایسے میں سوال یہ ہے کہ
اقوام متحدہ کے قیام کی وجہ کیا ہے؟ اس کا بنیادی مقصد پوری دنیا میں امن و سلامتی
لانا تھا لیکن یہ کوشش کتنی کامیاب رہی؟ اس کے
کل 193 ممبران ہیں۔ جب بھی کسی قوم کو جنگ کا سامنا ہوتا ہے، چاہے وہ ریاستی
سطح پر ہو یا غیر ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے، اقوام متحدہ کے ارکان کی بھاری اکثریت
نے بلا شبہ ہمیشہ امن و سلامتی کی حمایت کی ہے۔ ارکان کی اکثریت نے غزہ، فلسطین میں امن و سلامتی ، اور فلسطین اسرائیل
تنازعہ کے پرامن حل کی مسلسل حمایت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کارآمد ہے یا نہیں۔ اسرائیل
جب چاہے، غزہ کے لوگوں کا قتل عام شروع کر دیتا ہے، ان کے مکانات، کاروبار، اسکول اور
ہسپتال مسمار کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔
اسرائیل اقوام متحدہ کے ارکان کی اکثریت کی
خواہشات کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کی طاقت کے گھمنڈ کو ایک متکبر ریاست کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت
ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ پر حکمرانی کرتا ہے اور اس کی پالیسیاں عموما فلسطین کے خلاف
ہو تی ہیں۔ یہ کسی بھی وقت اپنے ویٹو پاور
کا استعمال کرتا ہے جب کوئی منصوبہ اس کے اپنے مفادات کو پورا نہیں کرتا ہے۔ یہ اقوام
متحدہ کی اکثریت کی مرضی کا بھی احترام نہیں کرتا۔
ایسے حالات میں، امریکہ کے
نزدیک فلسطینی مندوب کا اقوام متحدہ کے مکمل
رکن کی حیثیت سے منظوری نہ ملنے پر جذباتی ہو کر اقوام متحدہ کے سامنے آنسو بہانا کس
قدر قابل احترام ہو سکتا ہے۔ امریکہ جو انسانی
حقوق کی دہائی دیتا ہے مگر فلسطینی عوام کی مظلومیت کا احساس نہیں رکھتا ، امریکہ
جو جو انسانی درد محسوس نہیں کرتا، جو اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت کے باوجود اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو اپنا ذاتی مفاد سمجھتا ہے، جسے غزہ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں یا کمزوروں
کی زندگیوں کی کوئی فکر نہیں ہے، جس کے اندر انسانی ہمدردی کا مکمل فقدان ہے — وہ امریکہ
آخر اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندے کے دکھ کو کیسے محسوس کر سکتا ہے ؟
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism