مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
31 جنوری 2023
سب سے بڑی لعنت جو ان
علمائے سوء نے پیدا کی ہے وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تفرقہ ہے۔ لہٰذا وہ
اسلام کی اس طرح تشریح کرتے ہیں جیسا کہ ان کے بزرگوں (اکابرین) نے بیان کیا ہے نہ
کہ اس طرح جس طرح نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے بیان کیا ہے۔
-----
امام علی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب انسانوں پر ایک ایسا
زمانہ آئے گا جب قرآن کی عبارت کے سوا اس کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ان کی مسجدیں
خوبصورت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے سائبان کے نیچے
بدترین (مخلوق) ہوں گے۔ ان سے فتنہ نکلے گا اور فتنہ ان کی طرف لوٹ آئے گا۔
(بیہقی) لہٰذا، یہ علمائے سوء ہیں کون؟ مولانا، ملا اور علمائے کرام اس موضوع پر
بحث نہیں کریں گے کیونکہ ان میں سے اکثر اسی زمرے میں آتے ہیں، کیونکہ موجودہ فتنے
انہیں سے ابھر رہے ہیں اور انہیں کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اس
حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے اکثر علماء اسلام کے علمبردار نہیں ہیں
بلکہ اسلام کے اندر کسی طبقے یا فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لہذا، علماء بھی
دیوبندی، بریلوی، سلفی اور صوفی میں بٹے ہوئے ہیں۔ جب اسلام کی تشریح اور تعبیر کی
بات آتی ہے تو یہ سب اسلام سے زیادہ اپنے اپنے فرقوں کے دفاع میں ا جاتے ہیں۔
انہوں نے عملی وجوہات کی بنا پر اتحاد کے جھنڈے تلے چند فورمز اور مشترکہ منصوبے
بنائے ہیں۔ لیکن یہ ان کی اپنی شبیہ کو بچانے کے لیے محض ایک چھلاوا ہے، ورنہ ہر
فرقے کا ہر عالم دوسرے کو منحرف، حتیٰ کہ کافر بھی سمجھتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے
فورم صرف اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں اسلام کے لیے نہیں۔ لیکن جب بھی وہ
اکٹھے ہو کر اسلام کے خطرے میں پڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو بنیادی طور پر ان کے
ذاتی مفادات خطرے میں ہوتے ہیں اور وہ امت مسلمہ پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے
ہیں اور خود کو اسلام کے نمائندے منوانے کی خواہش رکھتے ہیں، اس لیے اسلام خطرے
میں پڑنے کا شور مچاتے پھرتے ہیں۔
سب سے بڑی لعنت جو ان
علمائے سوء نے پیدا کی ہے وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تفرقہ ہے۔ لہٰذا وہ
اسلام کی اس طرح تشریح کرتے ہیں جیسا کہ ان کے بزرگوں (اکابرین) نے بیان کیا ہے نہ
کہ اس طرح جس طرح نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے بیان کیا ہے۔ اس
لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بجائے اپنے بزرگوں کو
فوقیت دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے علمائے کرام کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے زیادہ بلند کرکے شرک میں مبتلا ہیں۔ وہ کھلم کھلا ایسا نہیں کریں گے بلکہ قرآن
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال کو ترک کر دینا اور اپنے علماء کی
باتوں کو ماننا (خفی) شرک کی بدترین صورت ہے۔
پھر وہ اپنی وجوہات کی بنا
پر عوام میں فرقہ واریت کو تقویت دینے کے لیے جو منبر انہیں بآسانی دستیاب ہے اس
کا استعمال کریں گے۔ وہ ایک دوسرے کو شیطان اور اسلام دشمن قوتوں کا ایجنٹ قرار
دیتے ہیں، اس طرح لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے علماء لوگ آپس
میں جھگڑوں، لڑائیوں اور یہاں تک کہ رشتے توڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کر رہے ہیں، جب
کہ یہی علمائے سوء اتحاد کانفرنسوں کے اسٹیجز پر نظر آتے ہیں، اس طرح مسلمانوں کو
مصنوعی اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور نام و نمود کماتے ہیں۔ اپنے ہی فرقوں کا فرقہ
وارانہ دفاع اسلام کے جھنڈے تلے ہو رہا ہے۔ علمائے سوء سمجھتے ہیں کہ وہ فرقہ
واریت کو تقویت پہنچا کر اسلام کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ
فتنے کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ لہٰذا جو بھی ملا فرقہ واریت کے ذریعے فتنے کی آگ بھڑکا
رہا ہے اسے علمائے سوء سے سمجھنا چاہیے۔
نیز ان میں سے زیادہ تر
فرقہ پرست ملا اسلام میں دیمک کی طرح لگے ہوئے ہیں۔ چند ہزار روپے کے لیے وہ کسی
بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے دیے گئے زکوٰۃ کی رقم کو بھی ہضم کر
جاتے ہیں۔ اس صدقہ کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور زکوٰۃ کی
تقسیم جو قرآن مجید میں مختلف مقاصد کے تحت بیان کی گئی ہے، فرقہ پرست ملاؤں کی
وضاحت کے خلاف ہے۔ علمائے کرام کو زکوٰۃ، صدقات کسی بھی مقصد کے تحت نہیں دی جا
سکتی کیونکہ انہیں خود اپنی روزی کمانا اور مالی طور پر خود مختار بننا چاہیے۔ اس
معاملے میں وہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، شافعی یا احمد بن حنبل یا امام تیمیہ کی
تقلید نہیں کرتے۔ چنانچہ اسلام کو ذاتی مفادات کے تابع کرنا علمائے سوء کی ایک اور
روشن مثال ہے۔ معاشی اور شہرت کے مفادات کے لیے مذہب کا غلط استعمال اور اس کا
استحصال علمائے سوء کی ایک واضح خصوصیت ہے۔
نیز وہ خفیہ طور پر اپنے
فرقوں کی سرکاری پالیسی سے ہدایات لیتے، جو دیوبند، بریلی، سعودی یا ایران میں ہے۔
ان کی سرکاری پالیسی جو حکم دیتی ہے وہ اسے اسلام بتا کر لوگوں کے درمیان بیان
کرنے میں زیادہ خوش ہوں گے، حالانکہ بسا اوقات یہ اسلام کے خلاف ہوتا ہے۔ ان کے
لیے اسلام لوگوں کو اپنی اندھی تقلید کروانے کا ایک آلہ ہے، نہ کہ خدا اور نبی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروانے کا۔ لہٰذا اسلام کو اپنے نامعلوم دشمنوں
سے بچانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ علمائے سوء اپنی ابتدا سے ہی اسلام کے سب سے
بڑے دشمن ہیں، اور علمائے حق بن کر اسلام کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ ہمیں علمائے
کرام کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا، جن سے ہم اسلام کو سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
اگر یہ علمائے سوء کا ایک گروپ ہے تو ہمیں ان کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے کیونکہ
وہ ہمارے درمیان دوسرے مسلمانوں اور زندگی کی تمام اچھی چیزوں کے لیے نفرت پیدا کر
دیں گے۔ اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور اس پر کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہمیں ان فرقہ
پرستوں کو اپنے اوپر حاوی ہونے اور فرقہ واریت اور تکفیریت پر یقین دلانے کی اجازت
نہیں دینی چاہیے۔ وہ علمائے سوء کے بارے میں اس حدیث نبوی کو رد کر سکتے ہیں، لیکن
ہمیں جو کہ اس پر یقین رکھتے ہیں اس کا پرچار کرنا چاہیے۔
اس حقیقت کو بھی ذہن میں
رکھنا چاہیے کہ اسلام علماء کے نظام اور لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کی علم پر اجارہ
داری کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس نے ہمیشہ اپنے اندر لوگوں کے اور علم کے لیے وسعت
پیدا کی ہے۔ لہٰذا جس کو بھی دین کا ضروری علم حاصل ہو وہ نماز کی امامت کر سکتا
ہے، اسلام کی تشریح کر سکتا ہے اور اسلام کے بارے میں اپنے نقطہ نظر/رائے کو بیان
کر سکتا ہے۔ جو اختیارات علمائے سؤ کے پاس چلے گئے ہیں، انہیں ان حقیقی علماء کی
طرف لوٹانے کی ضرورت ہے جنہیں وہ آئے دن اور دشمنان اسلام کے ایجنٹ اور لبرل کا
لیبل لگاتے رہتے ہیں۔ اب یہ تمام لیبل ان کے اوپر چسپاں کیے جائیں جو علمائے سو
ہیں، جو حقیقی اسلامی اصلاح اور احیاء کے اصلی دشمن ہیں۔
English
Article: Ulema e Suu (Charlatan Religious Scholars)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism