ودود ساجد
23 مارچ 2025
دوسریجنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعدغزہ پراسرائیل کی یکطرفہ ظالمانہ بمباری جاری ہے۔18مارچ سے اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ان میںایک سال سے لے کر ایک مہینہ تک کے 300 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کا دعوی ہے کہ اس کی فورسز غزہ میں حماس کے بندوق برداروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ کیا یہ 300 معصوم بچے بھی حماس کے ’دہشت گرد‘ تھے؟یہ سوال تو نتن یاہو سے خود امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو پوچھنا چاہئے تھا جنہوں نے اسرائیل کونہ صرف پہلے سے زیادہ خطرناک ہتھیار دیدئے ہیںبلکہ دوبارہ بمباری کیلئے بھی ہری جھنڈی دی ہے۔
ٹرمپ نےانتخابی مہم کے دوران پوری دنیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ نہ تو کوئی جنگ ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کی جنگ میں شریک ہوںگے۔ انہوں نے یوروپ اور مشرق وسطی میں جاری جنگوں کو فوری طورپر رکوانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔کسی حد تک انہوں نے یہ کوشش کی بھی اور 20جنوری کوان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ‘ان کی دھمکی اور وعدہ کے مطابق‘ نتن یاہو نے حماس کے ساتھ سہ سطحی معاہدہ پراتفاق کرتے ہوئے 19جنوری کو جنگ بندی کے پہلے مرحلہ پر عمل بھی شروع کردیا تھا۔ اس 42روزہ مرحلہ میں حماس کی گرفت میں موجود اسرائیل کے 100میں 33شہریوں کی رہائی اور4افرادکی لاشوںکی حوالگی ہونی تھی جس کے عوض اسرائیل کو بھی تین ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ آخری کھیپ کے طورپر جیسے ہی حماس نے اسرائیلی شہریوں کو بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس کے حوالہ کیا اور جیسے ہی یہ اسرائیلی شہری اپنے گھر پہنچے اسرائیل نے ان 600فلسطینی قیدیوں کی بسوں کو روک لیا جنہیں معاہدہ کے مطابق رہا کیا جانا تھا۔ اسرائیل نے حماس کے سامنے ایک نئی شرط رکھ دی۔اس نے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس معاہدہ کے مطابق جو فی الواقع سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے آخری ایام صدارت میںہی طے ہوگیا تھاان چار لاشوں کی حوالگی شامل نہیں تھی۔بلکہ ان کی حوالگی پر دوسرے مرحلہ میںگفتگو ہونی تھی۔ اسرائیل نے بھی اس معاہدہ پر اتفاق کیا تھا لیکن اسرائیل کی طاغوتی حکومت نے پوری دنیا اور خاص طورپر اپنے ثالث ملکوں کو ذلیل کیا اور حماس کو مجبور کیا کہ اگر اسے ان 600فلسطینی قیدیوں کی رہائی مطلوب ہے‘ جن کے عوض چھ اسرائیلی یرغمال پہلے ہی اسرائیل کے حوالہ کئے جاچکے ہیں تو اسے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں بھی حوالہ کرنی ہوں گی۔ بہر حال حماس نے مزید چار یرغمالوں کی لاشیں حوالہ کیں اور اس طرح 600فلسطینیوں کی رہائی عمل میں آئی۔
جو بائیڈن کی وساطت سے جو تین سطحی معاہدہ ہوا تھا اس میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42دن کا طے ہوا تھا۔اس میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ اسرائیلی فورسزغزہ سے ایک کلو میٹر پیچھے چلی جائیں گی اور ہر روز امدادی سامان لے کر آنے والے 600ٹرکوں کو داخل ہونے دیاجائے گا۔اسی میں یہ تجویز رکھی گئی تھی کہ جنگ بندی کے اس پہلے مرحلہ کے 16ویں دن دوسرے مرحلہ کی تفصیلات پر گفتگو شروع ہوجائے گی تاکہ جیسے ہی 42روز پورے ہوجائیںاگلا مرحلہ بھی شروع ہوجائے۔لیکن نتن یاہو نے ثالث ملکوں کے اصرارکے باوجود دوسرے مرحلہ کیلئے گفتگو شروع نہیں کی اور امدادی ٹرکوں کا داخلہ بھی روک دیا۔ حالانکہ اس دوران خود اسرائیل میں ہی ہزاروں لاکھوں لوگوں نے بار بار دوسرے مرحلہ کی گفتگو شروع کرنے کیلئے حکومت سے مطالبہ کیا۔ میںنےانہی کالموں میںاس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ جس قاتل وجابر کانام نتن یاہوہے وہ دوسرے مرحلہ کی گفتگو سے منحرف ہوسکتا ہے۔ دوسرے مرحلہ کی جنگ بندی کا مطلب غزہ سے اسرائیلی فورسزکو پورے طورپر نکل جانا تھا۔میرے اس اندیشہ کے ساتھ مزید کئی اور اندیشے بھی تھے۔یہ کہ جس طرح یرغمالوں کی رہائی کے ہر موقع کوحماس نے ’ایوینٹ‘میں تبدیل کیااور جس طرح اپنی عسکری اور افرادی قوت کا مظاہرہ کیا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاسرائیل کہیں اس کا سراغ نہ لگالے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں حماس کے بندوق بردار کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔اسرائیل جیسے جابر ومکار کیلئے یہ مشکل بھی نہیں ہے۔اس نے ایران کی راجدھانی تہران میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا‘ لبنان میں حزب اللہ کے صدر حسن نصراللہ کے ساتھ کئی بڑے قائدین کا خاتمہ کیا اور غزہ میں حماس کے سربراہ یحیی سنوار کو بھی شہید کردیا۔اس کیلئے ایسے میں کہ جب حماس کے سینکڑوں بندوق بردار درجنوں گاڑیوں سے ایک سے زائد بار نمودار ہوئے ہوں اور گھنٹوں تک حوالگی کی تقریبات چلی ہوں‘یہ پتہ لگانا کہ وہ کہاں جاکر چھپ جاتے ہیں کوئی ناممکن کام نہیں۔اب گزشتہ پانچ روز سے جاری وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے کئی اہم کمانڈروں کو مارا جاچکا ہے۔سرایا القدس کے ترجمان ابوحمزہ کی شہادت کی تصدیق تو خود سرایا القدس نے ہی کردی ہے۔
اس وقت پوری دنیا اور خاص طورپر پوری عرب دنیا محض ایک جابر وغاصب کے سامنے بے بس بنی ہوئی ہے اور مظلوم روزہ دارفلسطینیوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔عربوں کی اس ناکامی اور بے بسی کا کوئی ایک سبب نہیں ہے۔اس کے مختلف اسباب ہیں ۔ ان سب کا جائزہ لیاجانا ضروری ہے لیکن یہ ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ کے بعد اسرائیل کی طرف سے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر کئےجانے والے یہ حملے دراصل عربوں پر کئے جانے والے حملے ہیں۔ مشرق وسطی کے نامور تجزیہ نگار مروان بشارہ نے تو واضح طورپر کہا ہے کہ یہ حملہ براہ راست عربوں اور ان کی موجودہ قیادت پر ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبہ کے جواب میں عربوں نے ہی دوسرا منصوبہ پیش کیا تھا۔اگر اس کے باوجود اسرائیل کا وزیر اعظم معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل عام کر رہا ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اسے ان عربوں تک کا بھی کوئی خیال نہیں ہے جو حالات معمول پر آنے کے بعد اس سے سفارتی اور تجارتی مراسم استوار کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
یہ سوال بار بار کیا جائے گااور کیا ہی جانا چاہئے کہ آخر حماس نے سات اکتوبر 2023کا حملہ کرکے کیا کوئی بہت بڑی غلطی نہیں کردی؟اگر ایران نے یا کسی اور نادیدہ طاقت نے اس کی عسکری قوت کو اس حد تک پہنچایا تھا کہ وہ اسرائیل کے شمال میں گھس کر 1200اسرائیلیوں کو ہلاک کردے اور ڈھائی سو اسرائیلیوں کو یرغمال بناکر بہ حفاظت غزہ کے ان ٹھکانوں پر لے آئے جہاں اب تک اسرائیل نہیں پہنچ سکا ہے تو اس سے آگے کے منصوبوں پر بھی ایران نے یا کسی اور نادیدہ طاقت نے غور ضرور کیا ہوگا۔ممکن ہے کہ اس پر کوئی غور نہ ہوا ہو کہ معاملہ اس حد تک آگے بڑھ جائے گا۔لیکن بہر حال یہ امر قابل لحاظ ہے کہ ایک انتہائی غیر متوازن جنگ میں حماس کے بندوق بردار اور اس کی سیاسی قیادت سخت مشکل حالات کے باوجود اسرائیل کا مقابلہ کر رہی ہے۔ تمام مسلم ممالک‘ تمام عرب ممالک‘یوروپ‘امریکہ‘افریقہ اور برطانیہ یہاں تک کہ پوری اقوام متحدہ اسرائیل کو قتل عام سے باز رکھنے کیلئے چیخ وپکار کر رہے ہیںلیکن اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم پر خود اپنے لاکھوں شہریوں کی اپیلوں اور مطالبوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ایسے میں اگر حماس اپنی جگہ ثابت قدم ہے اور اسرائیل کا جتنا بھی ممکن ہے مقابلہ کر رہی ہے تو یہ کوئی کم بات نہیں ہے۔
سات اکتوبر2023سے اب تک فلسطین کے قضیہ کے مختلف ماہرین نے مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کے اس سوال کا بار بار جواب دیا ہے کہ سات اکتوبر2023کا حملہ کیا ہی کیوں گیا؟ماہرین کہتے ہیں کہ اس نوعیت کا حملہ پہلی بار ہوسکتا ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت پچھلے 70-75سالوں سے مسلسل جاری ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل کے مسلسل مظالم کا ہی نتیجہ تھا۔اسرائیل نے کبھی کسی بھی عالمی قانون یا ہدایت کو تسلیم نہیں کیا۔یہاں تک کہ اس نے ان معاہدوں تک کی بار بار خلاف ورزی کی جن پر خود اس نے دستخط کر رکھے ہیں۔وہ 1967کےاس قبضہ سے بھی دستبردار نہیں ہوا ہے جسے اقوام متحدہ نے اور بعد میں عالمی عدالت نےناجائز قرا دیدیا تھا۔وہ فلسطین کے کئی ٹکڑے کرکے ان کے درمیان تو گھس ہی گیا ہے اس کے علاوہ فلسطین کو چاروں طرف سے مسلسل گھیرتا جارہا ہے۔اس نے پوری دنیا سے جن شرپسند یہودیوں کو فلسطین کے اندر اور اس کے چاروں طرف لاکر مسلح کرکےآباد کیا تھاوہ بھی نہتے فلسطینیوں پر مسلسل ظلم وزیادتی کرتے رہتے ہیں۔غزہ کے اجڑے ہوئے شہری قاسم ولید نے الجزیرہ کو تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح پچھلی دو دہائیوں میں اسرائیل نے درجنوں بار بڑی کارروائیاں کرکے لاکھوں لوگوں کو اجاڑا ہے اور ہزاروں کو شہید اور گرفتارکیا ہے۔
فلسطینیوں کا پچھلے 75سالوں سے یہی مقدر ہے۔اس وقت ان کا جو قتل عام ہورہا ہے وہ دراصل نقطہ عروج ہے۔امتحان تو ہمیشہ مومنوں کا ہی ہوتا ہے۔اہل فلسطین اور خاص طورپر اہل غزہ نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ وہ فی الواقع پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ایمان پر ثابت قدم ہیں۔لیکن اسرائیل میں جو ہمہ جہت تباہی آئی ہے اس کی روشنی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلسطین کو کرہ ارض سے مٹانے کے بعد بھی وہ سکون سے رہ سکے گا۔اسرائیل کا صدر مسلسل نتن یاہوحکومت کے خلاف بول رہا ہے۔اپوزیشن جماعتیں نتن یاہو کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔بدعنوانی کے مختلف مقدمات میںعدالتوں میں نتن یاہو گھر گیا ہے۔اسرائیل کے لاکھوں شہری مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔اسرائیل کی 200بڑی کمپنیوں کی یونین نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کی اقتصادیات کو ٹھپ کرنے جارہی ہیں۔یمن سے حوثی جماعت بھی میزائل داغ رہی ہے۔یہ خیال رکھنا چاہئے کہ یمن اسرائیل سے دوہزار کلو میٹر دور ہے۔اتنی دور سے کوئی موثر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن پچھلے ایک ہفتہ سے اس کے حملوں کے سبب اسرائیل کے سارے ایرپورٹ اور اس کی فضائی سروس متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ پورے ہفتہ میںلاکھوں اسرائیلی سو نہیں سکے ہیں اور بار بار انہیں سائرن بجنے کے بعد زیر زمین بنکروں میں بھاگ کر چھپنا پڑتا ہے۔اس عمل میں بیسیوں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔تازہ اطلاع یہ ہے کہ تین مہینہ کی خاموشی کے بعد حزب اللہ نے بھی جنوبی اسرائیل میں حملے شروع کردئے ہیںاور لوگوں کو وہاں سے نکالا جارہا ہے۔وہاں سے بھاگے ہوئے 70 ہزار اسرائیلی شہری ابھی تک واپس اپنے گھروں کو نہیں جاسکے ہیں۔اللہ کیلئے کیا مشکل ہے۔کیا عجب کہ اسرائیل کا زوال شروع ہوگیا ہو۔
23 مارچ 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/tyrant-gaza-israel-palestine/d/134978
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism