سعید نقوی
28جنوری، 2025
صد ر ڈونالڈ ٹرمپ اس سے زیادہ سیدھی بات نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میری میراث ایک امن ساز او ر متحدکرنے والی ہو۔”انہو ں نے کی لاگ لپیٹ کے بغیر صاف طور پر کہا: ”میں یوکرین میں جنگ اور مشرق وسطیٰ میں افراتفری کو ختم کروں گا“۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑ ی فوجی طاقت ہوگا”جنگیں جیتنے کے لیے نہیں“ بلکہ جنگو ں کو ختم کرنے کے لئے۔ ہم نئی جنگوں میں حصہ نہیں لیں گے۔
طاقت کو تنازعات میں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک ایسا اثاثہ ہے جو تنازعات کو ختم کرتاہے او رامن کو برقرار رکھتاہے۔ چونکہ امریکہ کی فوج صرف ”امریکہ کے دشمنوں“ کو شکست دینے کے لئے تھی، اس لیے اسرائیل جیسے ممالک کے لیے اشارے واضح ہونے چاہئیں،جب تک کہ اسرائیلی لابی کچھ اور وضاحتیں نہیں نکالتی۔امریکہ فوجی طاقت کامقصد دوسرے لوگوں کی جنگیں لڑنانہیں تھا۔ پچھلے 40سالوں میں کم از کم امریکی خارجہ پالیسی اسرائیل یا اسرائیلی مفادات کے ذریعے چلتی رہے ہے۔ اگر واشنگٹن نے اپنا احتساب کرنا شروع کردیا تو پتہ چل جائے گا کہ اسرائیل اس کیلئے ایک نقصان پہنچانے والا جانور ثابت ہوا ہے۔تاہم، سامراج کو اس کی قدیم ترین شکل میں برقرار رکھا گیا ہے۔ پناما نہر پر اسی طرح قبضہ کرو جیسا کہ صدر بش سینئر نے پناما کے طاقتور مینوئل نوریگا کو اٹھا لیا تھا کیونکہ امریکہ کے پاس اس کی وجہ تھی۔یہ ”مسلمہ“منرونظریے کو مسلط کرتے ہیں تو یقینا خلیج میکسیکو کانام بدل کر خلیج امریکہ رکھا جاسکتاہے۔ٹرمپ کے پہلے دور میں وزیر خارجہ کے طور پر اپنے مختصر دور کے دوران ریکس ٹلرسن نے پوری طاقت سے کہا تھا کہ ”منروکانظریہ بہت زیادہ زندہ ہے“۔
ایک روز افزوں خیال یہ ہے کہ مغربی ایشیا اوریوکرین میں لڑتے لڑتے مغرب کی پشت دیوار سے لگ گئی ہے۔لہٰذا اب مغرب چاہتاہے کہ ان تھیٹروں میں فتوحات حاصل نہ کی جائیں بلکہ اب تو مغربی تسلط کو بچانے کے لئے لڑائی لڑی جائے۔ ٹرمپ نے امریکہ کو بالادستی کے تصور کے مطابق کوئی اعتبار نہیں بخشا۔ وہ بیرون ملک”زوال“ کے نعرے سے ناراض دکھائی دیتے تھے لیکن وہ اس تصور کو جنگوں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے روکیں گے یہ ایک پیشگی نتیجہ ہے کہ مغرب یوکرین میں شکست کھا چکاہے، جب تک امن قائم کرنے کے لئے حتمی معاہدہ نہ ہوجائے۔یہیں پر ٹرمپ کو اپناہاتھ دکھانا پڑے گا۔یورپ کے دل میں یوکرین کا تقریباً الٹ جانامغرب کے لیے برا تھا، لیکن ٹرمپ نے مغربی سوچ کو اس قدر تقسیم کردیا ہے کہ یورپ میں حالیہ انتخابی فیصلے ان کی پسند کے مطابق ہوسکتے ہیں۔ یہ بھاری دل کے ساتھ ہوگا، دی اکانومسٹ کے ایڈیٹر نے اپنے 11جنوری 2025 کے شمارے کی شہ رخی اس طرح لگائی۔”وسطیٰ یورپ کا پوتینا ئزیشن“۔ اسٹیبلشمنٹ کی بے چینی سے ٹرمپ خوش ہوں گے؟ اخبار کا اداریہ ”آسٹریا کی سخت دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کے رہنما برٹ، ککل کے عروج“ پربہت زیادہ آنسو بہاتاہے۔آسٹریا صرف نوملین لوگوں کا ملک ہے۔لیکن فروری میں جرمنی کے انتخابات ہوں گے۔ یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں انتہائی دائیں بازو کے ’الٹر نیٹیو فارجرمنی‘ کے اقتدار میں آنے کی توقع ہے، حالانکہ کرسچن ڈیموکریٹس کو شکست دینامشکل ہوگا۔
ہنگری کے وکٹر اوربان جیسے رہنما کافی موثر آواز رکھتے ہیں۔انہوں نے نعرہ لگایا تھا”ٹرمپ کوواپس لاؤ“۔اور بن جیسے لوگوں میں سے دوسرے، سلوواکیہ کے رابرٹ فیکو، اورآندر یزبابیس ہیں جن کے جمہوریہ چیک میں جیتنے کاامکان ہے۔ یہی سب کچھ نہیں ہے۔ پرانے مغرب سے محروم جارجیا، مالڈووا، رومانیہ اور مزید ملک بھی ساتھ آنے والے ہیں۔فرانس کے ایمانوئل میکرون،دائیں بازو کے فاشسٹ مارین لی پین او ربائیں بازو کے ایک طاقتور کمیونسٹ۔سوشلسٹ اتحاد سے خوف زدہ، کب تک ایک دوسرے کے خلاف کھیلتے رہیں گے۔ یورپ میں روس کا موجودہ اسکور اچھا ہے لیکن وہ شام میں واضح طور پر بیک فٹ پر ہیں حالانکہ وہ شکست نہیں کھاسکے ہیں۔ لطاکیہ اور طرطوس میں ان کے اڈے برقرار ہیں۔ ایک تھکے ہوئے بشارالاسد اب ماسکو میں اپنی اہلیہ کے کینسر کے مرض کایکسوئی کے ساتھ علاج کراسکتے ہیں۔ مزید برآں،یہ وہم پیداکرکے کہ اسد کو ٹرافی کے طورپر ان کے حوالے کردیا گیا ہے،امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد نے امن کی طرف اپنی تحریک میں نرمی دیکھی ہوگی۔بلا شبہ 7کتوبر کو 1200 افراد کا قتل، 200کو یرغما ل بنانا ایک بہت بڑا اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ یقینا یحییٰ سنور او ران کے ہم وطنوں نے یہ حساب توہرگز نہیں لگایا تھا کہ 7اکتوبر انہیں فتح دلائے گا، جو کہ ایک فلسطینی ریاست کی شکل میں ہوگی۔ لیکن یہ ایک دعوت تھی تاکہ اسرائیل۔امریکہ اپنے آپ کو نسل کشی کے قاتلوں کے طور پر بے نقاب کرسکیں، کم از کم ان میں سے ایک، اسرائیل نے تو خود کو نسل کش کے طور پر بے نقاب کرہی لیا۔ اس کی نسل کشی بین الاقوامی عدالت انصاف سے تصدیق شدہ ہے۔
جب لیڈی میکبتھ ڈنکن کے قتل کے بعد اپنے ہاتھ دھونے سے باز نہیں آئیں، تو شیکسپیئر نے ایک اور عورت کو کھڑا کردیا، وہ ناخنوں کی طرح سخت تھی لیکن پھر بھی اتنی انسان توتھی جو جرم کیساتھ ٹوٹ جائے۔ لیکن بنجامننتن یاہو او ران کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھی، مختلف قسم کے ہیں۔ اب جب کہ امن آگیاہے،خواہ عارضی طور پر ہی سہی،لوگ پوچھیں گے:کون جیتا؟ مغربی بیانیہ پہلے ہی زور وشور سے جاری ہے: یہی کہ حماس اور حزب اللہ مکمل طور پر ”ذلت آمیز“ ہوچکے ہیں۔ دوسرا بیانیہ اس طرز فکر کو مغربی پروپیگنڈے کے طور پردیکھتا ہے۔ آخر کار نتن یاہو کے غزہ کی نسل کشی کو اتنے عرصے تک جاری رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے جنگی مقاصد پورے نہیں ہوئے تھے۔ آج بھی نہ تو حماس تباہ ہوئی ہے اورنہ ہی سب یرغمالیوں کی واپسی ہوئی ہے۔جتنے یرغمالی واپس گئے ہیں وہ نہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت ہی گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کہیں بھی شکست کے قریب نہیں ہے۔ اسرائیلی عوام شمالی اسرائیل میں اپنے گھروں کو واپس فرار ہونے والے اسرائیلوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔غور کیجئے کہ کتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے؟ جنگ کرنے والو ں کے لیے امن اچھا وقت نہیں ہے جسے سچ کو چھپانا پڑا ہے۔ جنگ بندی کی پہلی نشانی پرغزہ کے فلسطینی ملبے او رٹوٹے ہوئے اسٹیل پر خوشی سے رقص کرتے ہوئے لوگ باہر نکل آئے جو کبھی ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔ان کے پاس سرچھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ان کا المیہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔اسرائیل میں سیاسی موڈ اداس ہے۔ اگر واقعی امن کا نزول ہوجائے تو کنکال شیلفوں اور الماریوں سے ہلچل مچاتے ہوئے نکلیں گے۔عوام امن چاہتے ہیں لیکن کیا لیڈر بھی چاہتے ہیں؟ کیا ٹرمپ کی تقریر نے ان کی اداسی میں اضافہ کیاہے؟
28 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/two-wars-challenge-trump/d/134461
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism