New Age Islam
Fri May 16 2025, 08:25 PM

Urdu Section ( 3 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Two Events, Two Faces... ...دو واقعات‘ دو چہرے

ودود ساجد

1 ستمبر 2024

ایک  تکلیف دہ واقعہ 9 اگست کوہوا۔لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ایک اورواقعہ 30جولائی کو ہوچکا تھا۔جو و اقعہ 11دن بعدہوا اس پر پورا ملک آج تک تڑپ رہا ہے۔لیکن جو واقعہ 11دن پہلے ہوا تھااس پرسڑک سے لے کر عدالت تک آج تک خاموشی ہے۔9اگست کے واقعہ پرکلکتہ ہائی کورٹ کے بعدسپریم کورٹ تک نے از خود نوٹس لے لیا۔مغربی بنگال کے گورنرنے بھی کہہ دیا کہ یہ (ممتا حکومت کے)خاتمہ کی ابتدا ہے۔وزیر اعظم نے بھی اپنی 15اگست کی تقریر میں اس کا ذکرکیا۔یہاںتک کہ صدر جمہوریہ تک نے بھی ایک انٹرویومیںغیر معمولی طورپراپنی تکلیف اور اپنے دردکا اظہار’ فرما‘دیا۔جو واقعہ دہلی سے ڈیڑھ ہزارکلومیٹرکے فاصلہ پر ہوا اس پر کولکاتہ سے لے کر دہلی تک ہلچل مچ گئی۔لیکن جو واقعہ محض 310کلومیٹر کے فاصلہ پر ہوااس نے کوئی ہلچل نہیں مچائی۔نہ اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون میں اور نہ ملک کی راجدھانی دہلی میں۔بیٹی تو بیٹی ہے‘خواہ وہ مغربی بنگال کی ہو یا اتراکھنڈ کی۔عصمت دری اور قتل کا واقعہ کولکاتہ میں ہو یا نینی تال میں‘ہر حال میں قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔لیکن اگر ایک واقعہ پر پورا ملک‘ آسمان سر پر اٹھالے اور دوسرے واقعہ پر زمین پر کوئی جنبش نہ ہو تو کیا نتیجہ اخذکیا جائے؟

20اگست کو پورا ملک جھلس رہا تھا اور مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتہ میں ’آگ‘ لگی ہوئی تھی۔ایک ٹرینی ڈاکٹرکی عصمت ریزی اورقتل کے خلاف ڈاکٹروں نے پورے ملک میں ہڑتال کر رکھی تھی۔پورے ملک کے ہسپتالوں  میں    لاکھوںمریضوں کا براحال تھا۔کولکاتہ میں ناراض لوگ غصہ میں ہر قدم اٹھانے کو آمادہ تھے۔کلکتہ ہائی کورٹ ریاستی حکومت کی سرزنش کرنے کے بعد خاتون ڈاکٹر (ٹرینی) کے قتل کے واقعہ کی تحقیقات مقامی پولیس سے چھین کرسی بی آئی کو سونپ چکی تھی۔ خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کراس کی سماعت شروع کردی تھی۔لیکن اتراکھنڈ کی نرس کی عصمت ریزی اور قتل کے واقعہ پر ہر طرف خاموشی تھی۔انگریزی کےچند ایک اخبارات اور پورٹل میں بس ایک معمول کی خبر شائع ہوگئی تھی۔اردو والےتو اب تک تسلیم جہاں کے واقعہ سے بے خبر تھے۔ 20اگست کی اشاعت میں آپ کے روزنامہ انقلاب نے صفحہ اول پراپنے نیشنل بیوروچیف احمد اللہ صدیقی کی ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ اس کا عنوان یہ تھا: ’کولکاتہ جیسا واقعہ اتراکھنڈ میں بھی ہوامگر ہر طرف خاموشی‘۔اس رپورٹ میں انقلاب نے مقتولہ کے بھائی رفیع احمد کا ردعمل بھی شائع کیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ کام ختم کرکے ہسپتال سے گھر لوٹتے ہوئےتسلیم جہاں کی نہ صرف اجتماعی عصمت دری کی گئی بلکہ اس کے سر کے بال کاٹ کر اس کے سبھی اعضا بھی نکال لئے گئے تھے۔ شناخت مٹانے کیلئے اس کے چہرہ پر کیمیکل ڈال کر پتھر سے بھی کچل دیا گیا تھا۔ اس کے پاس موجود رقم اور اس کا موبائل فون بھی لوٹ لیا گیا تھا۔ کئی دنوں کے بعدپولیس نے نشہ اور چوری کے عادی یوپی کےایک مزدور کو راجستھان سے گرفتارکرکے دعوی کیا کہ اس نے اصل ملزم کو پکڑلیا ہے۔کیا مذکورہ وقت طلب اورخوفناک عمل نشہ اور چوری کا عادی کوئی مزدور تنہا انجام دے سکتا ہے؟واقعہ کے21دنوں کے بعداورانقلاب میں خبر شائع ہونے کے 48گھنٹے کے اندر اندر اتراکھنڈ پولیس نے تحقیقات کیلئے ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کردی۔لیکن مقتولہ کے اہل خانہ اس سے مطمئن نہیں تھے بلکہ وہ سی بی آئی سے تحقیقات کرانا چاہتے تھے۔

اب دوسری طرف دیکھئے:

20اگست کو ہی سپریم کورٹ میں تین رکنی بنچ نے کولکاتہ کے واقعہ کی سماعت شروع کی تو یہی محسوس ہوا کہ ہر سیاسی محاذپر گھرجانے کے بعد ریاستی حکومت اب عدالت کے تیز وتندسوالات کے تلے بھی دب گئی ہے۔مغربی بنگال حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل کپل سبل سےچیف جسٹس نے بھی سخت سوالات کئے۔عام طورپربنچ میں خاموش رہنے والے جج‘جسٹس جے بی پاردی والا نے بھی ممتاحکومت سے سخت بازپرس کی۔ ہمیں امید تھی کہ چونکہ ہم نے اتراکھنڈ کی نرس تسلیم جہاں کا واقعہ اسی صبح نمایاںطورپرشائع کیا تھا‘توچیف جسٹس کی بنچ کے سامنے کوئی وکیل اور خاص طورپر کوئی مسلم وکیل اس کا بھی ذکر کرے گا۔درجنوں وکلاء کی بھیڑ میں سےکئی وکلاء نے مہاراشٹراور گجرات کے اسی طرح کے واقعات کا ذکر کیا لیکن اتراکھنڈ کے اس سب سے بھیانک واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ عدالت پورے ملک کی ہرخاتون ڈاکٹر کے تئیں فکر مند تھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ کوئی وکیل اتراکھنڈکے واقعہ کا محض ذکر ہی کردیتا تو بات ریکارڈ پر آجاتی۔لیکن ملی جماعتوں کے مقدمات لڑنے والے کئی ’ملی وکلاء‘کو تو اس واقعہ کا علم ہی نہیں تھا۔ہمارے خیال میں اس واقعہ کو’ مینشن‘ کیا جاسکتا تھا اور اس میں’پروسیجر‘کی کوئی دشواری نہیں تھی۔

21اگست کوجمعیت علماء ہندکی ٹیم نے متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے بھرپورقانونی مددفراہم کرنے کا اعلان کیا۔مولانا ارشدمدنی نے تسلیم جہاں کیلئے آواز اٹھانے پرانقلاب کی بھی ستائش کی اورکولکاتہ کے واقعہ پر پورے ملک میں احتجاج اور اتراکھنڈ کے واقعہ پر خاموشی کو دوہرا معیار قرار دیا۔انقلاب کی رپورٹ کے بعد مسلم حلقوں اور دانشوروں نے سخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے اتراکھنڈ کے واقعہ کوکولکاتہ کے واقعہ سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا۔ کانگریس کے لیڈرراہل گاندھی نے ٹویٹ کرکے مغربی بنگال اور مہاراشٹرکے واقعات پر اپنے دکھ کا اظہار کیا لیکن اتراکھنڈ کے واقعہ پر انہوں نے بھی ایک لفظ نہیں لکھا۔پرینکا گاندھی نے بھی ٹویٹ کیا لیکن اتراکھنڈ غائب تھا۔وزیر اعظم نے بھی خواتین کے تحفظ کیلئے دوبارہ سخت بیان جاری کیا لیکن اتراکھنڈ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے بھی بیان جاری کیا لیکن اتراکھنڈ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 20اگست کی ’طولانی‘سماعت کے بعد 22اگست کو بھی سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت ہونی تھی۔لہذا انقلاب نے21 اگست کی اشاعت میں پھر ایک رپورٹ شائع کی۔کانگریس کے لیڈر م-افضل نے کہا کہ اب بھی دیر نہیں ہوئی اور 22اگست کی سماعت میں سپریم کورٹ کے سامنے اس معاملہ کو اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ 22اگست کی انتہائی طویل سماعت میں بھی اتراکھنڈ کے واقعہ کا کوئی ذکر نہیں آیا۔

27اگست کی اشاعت میں انقلاب نے کچھ نئے انکشافات پر مبنی پھر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔اس میں بتایا گیا تھاکہ تسلیم جہاں کی عصمت ریزی اور قتل کے سلسلہ میں نئی فوٹیج سامنے آئی ہے جس میں تسلیم جہاں دونوجوانوں      کے پاوں پکڑ کرمنت سماجت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن چند مقامی قسم کے احتجاجات کے سوا اس اتنے بڑے واقعہ پر کوئی بڑا احتجاج تک نہیں ہوا۔کیا یہ خبریں سیاسی جماعتوں تک نہیں پہنچیں؟کیا ان خبروں کی گونج ان سیاسی جماعتوں کے اقلیتی شعبوں کے ذمہ داروں کے کانوںتک نہیں پہنچی؟کیا کانگریس‘سماجوادی پارٹی اور خود ترنمول کانگریس کے مسلم لیڈروں تک بھی یہ خبریں نہیں پہنچیں؟رپورٹوں کے مطابق ملک میں   ہر روز عصمت دری کےبعدقتل کے 12واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ کولکاتہ کا واقعہ اس لئے سب سے بڑا واقعہ بن گیا کہ مرکز میں برسراقتدار ایک سیاسی جماعت مغربی بنگال میں برسراقتداردوسری سیاسی جماعت کو گھیر نا چاہتی ہے۔اگر محض اس نقطہ نظر سے ہی دیکھا جائے تب بھی کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن اس موقع کو استعمال کرنے میں ناکام رہی۔اگر اب ہر واقعہ کا نوٹس سیاسی نفع نقصان کو ہی سامنے رکھ کر لیا جانا ہے تو کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن جماعتیں اس میں بھی بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔کیا مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی ممتا حکومت کو گھیرنے کے جواب میں اتراکھنڈ میں بی جے پی کی دھامی حکومت کو نہیں گھیرا جاسکتا تھا؟کیا اپوزیشن اتنی فراخ دل ہوگئی ہے کہ وہ بی جے پی کو گھیرنے کااتنا بڑا موقع استعمال نہیں کرناچاہتی؟اگراپوزیشن نے ایسا موقع گنوادیا تو اس کا بس اس کے سوا اور کیا سبب رہ جاتا ہے کہ اتراکھنڈ کی نرس کا نام کولکاتہ کی ڈاکٹر کے نام جیسا نہیں تھا؟

گزشتہ تین ہفتوں میں کیا نہیں ہوا۔اتراکھنڈ میں ہی ایک مسلم نوجوان کو مبینہ طورپر پولیس نےمارکر تالاب میں پھینک دیا۔ایک بدزبان سادھو نےاللہ کے رسول کی شان میں ناقابل بیان گستاخی کی‘اس کے خلاف مسلمانوں نے شکایت درج کرنی چاہی تو شکایت درج نہیں کی گئی‘احتجاج کیا تو مدھیہ پردیش میں احتجاجیوں کے مکانات کو مسمار کردیا گیا۔ خود کانگریس کے ایک مسلم لیڈرکے شاندار بنگلہ کو بلڈوزرسےبرباد کردیا گیا۔ پھر انہی کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتار کرلیا گیا۔اس واقعہ کا بھی اردو والوں کو کوئی علم نہیں ہوسکا۔24اگست کی اشاعت میں انقلاب نے اس سلسلہ میں سب سے پہلے خصوصی رپورٹ صفحہ اول پر شائع کی تب کہیں جاکر کانگریس بیدار ہوئی۔ کھڑگے اور پرینکا گاندھی نے بیانات جاری کئے۔ آسام کے وزیر اعلی نے تو مسلم مخالف بیانات اور اقدامات میں ایک نئی تاریخ لکھ دی۔انہوں نے تو یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک کو پیچھے چھوڑدیا۔بلڈوزر سے لوگوں کو برباد کرنے کی جو روایت یوپی نے ڈالی تھی وہ اب تقریباً بی جے پی اقتدار والی ہر ریاست میں پہنچ گئی ہے۔اس سلسلہ میں عدلیہ کے رویہ نے بھی مایوس کیا ہے۔ نیشنل ہیرالڈ کے صحافی کاشف کاکوی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مدھیہ پردیش کی ہی مختلف عدالتوں میں بلڈوزر کی غیر قانونی کارروائی کے خلاف ایک ہزار سے زائد شکایتیں التوا میں ہیں۔خود سپریم کورٹ میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف عدالتوں میں مسلم جماعتوں اور خاص طورپر جمعیت علماء کی اپیلیں  دائر ہیں۔کئی سیکولر لیڈروں اور تنظیموں نے بھی عرضیاں دائر کر رکھی ہیں۔آئندہ 2ستمبر کواس سلسلہ کی مختلف پٹیشنز پرسماعت ہونی ہے۔

آج ایک بات اپنوں سے بھی عرض کرنی ہے:جہلاء کا تو کہنا ہی کیا اچھے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی علماء اورمسلم جماعتوں پر ہر روز سوالات اٹھاتے ہیں۔سوشل میڈیاپران سے اس طرح باز پرس کرتے ہیں جیسے ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے جمع ہوکر انہیں اربوں کھربوں کا فنڈ دیا تھا اور یہ ذمہ داری دی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی ہوگاتمہیں اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا‘ان کے مقدمات لڑنے ہوں   گے اور ظالموں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں انجام تک پہنچانا ہوگا۔میں انفرادی طورپر بھی ایسے لوگوں سے کہتا رہا ہوںاور یہاں بھی عرض کر رہا ہوں کہ ان کی ’پرسش‘کا جواب تو انہی جماعتوں کو دینا چاہئے لیکن اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ملی جماعتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ آسان نہیں ہے۔ مولانا ارشد مدنی‘مولانا محمود مدنی اور سعادت اللہ حسینی سمیت مختلف زعماء کی قیادت میں ان کی جماعتیں بہت کچھ کر رہی ہیں۔ملک بھر میں مقامی طورپر بھی مسلم تنظیمیں کچھ نہ کچھ کر ہی رہی ہیں۔اس ’کرنے‘ میں پیسہ تو خرچ ہوتا ہی ہے وقت اور توانائی بھی لگتی ہے۔اس کے علاوہ کس کس محاذ پر انہیں روکاوٹوں‘دھمکیوںاور دباو کا سامناکرنا ہوتا ہے اس کا علم انہی کو ہوگا۔

میں اپنے آپ کو بھی شامل کرکے بلا تکلف سوال کرتا ہوں کہ جو لوگ علماء اور ملی جماعتوں پرسوالات اٹھاتے ہیںخود انکا ’کنٹری بیوشن‘کیا ہے؟۔ ان تنظیموں کی طرف سے لڑے جانے والے مقدمات میں جب کچھ کامیابی کی خبریں آتی ہیں تو جن ملی وکلاء کا نام نمایاںطورپرشائع ہوتا ہے وہ بھی ’فی سبیل اللہ‘ کچھ نہیں کرتے۔مجھے چند روز قبل دہلی کی ایک مقامی عدالت میں پریکٹس کرنے والے ایک دردمندوکیل صاحب نے اپنا واقعہ سنایا۔وہ اکثر مسلم اشوز پر تڑپتے رہتے ہیں۔انہوں نے ایک ’ملی وکیل‘صاحب سے درخواست کی کہ وہ ایک اہم مسلم اشو پران کی طرف سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کردیں۔لیکن ان ملی وکیل صاحب نے صاف طورپر پیغام لکھ کر بھیج دیا کہ پہلے فیس ادا کروتب ہی میں آگے بڑھوں گا۔ان سے کہا گیا کہ آپ رٹ تو تیا رکریں میں ’بھیک‘مانگ کر آپ کی فیس ادا کردوں گا لیکن اس پر بھی وہ تیار نہیں ہوئے۔ایک صاحب نے بتایا کہ بحث تو سینئر وکلاء کرتے ہیں اور ان کی فیس بھی لاکھوں میں ہوتی ہے لیکن تیاری اور دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ’ملی وکلاء‘ بھی کم فیس نہیں لیتے۔یہاں تک کہ جس روز تاریخ کے باوجود بحث نہ ہو اس روز بھی اپنی فیس وصول کرلیتے ہیں۔ایسے میں اتراکھنڈ کے واقعہ کا ذکر چیف جسٹس کے سامنے کون کرتا؟

1 ستمبر 2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/two-events-two-faces/d/133111

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..