اے رحمان ، نیو ایج اسلام
31دسمبر،2017
اب جب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ’ تحفظ شریعت‘ کے دعوے پر مبنی اپنے وجود کا جواز کلی طور پر کھو دیا ہے،پر خلوص مسلم تنظیموں اور دانشور حضرات پر دوگنی ذمّہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ معاملات کی باگ ڈور سنبھال کر ملّت کی سیاسی او رمعاشرتی صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ اب حلالہ اور تعدّدِ ازدواج کے مسائل پر سپریم کورٹ کو حرکت میں لایا جائے گا کیونکہ وہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پورے طور پر زندہ ہے اور سپریم کورٹ نے حلالہ اور تعدّد ازواج پر بحث کو یہ کہہ کر موخّر کردیا تھا کہ ’’ ان معاملات کوبعد میں زیر سماعت لایا جائے گا‘‘۔
اس قانون کے سلسلے میں حکومت ،سپریم کورٹ ، مسلم تنظیمیں اور خصوصاً مسلم پرسنل لا بورڈ سبھی یکساں طور پر قصوروار ہیں۔
سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے معاملے کی بنیاد ایسے پڑی تھی کہ ہندوقانون وراثت کے معاملے میں زیر غورایک اپیل (پرکاش وغیرہ بنام پھول وتی وغیرہ) کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی ایک دو رکنی بنچ نے صنفی بنیادوں پر امتیاز یعنی gender discriminationکی مذمت کرتے ہوئے مسلم عورتوں کو خصوصی طور پر اس ظلم کاشکاربتایا او رحکم جاری کیا کہ ’’ مسلم خواتین کی جستجو ئے مساوات ‘‘ کے عنوان سے ایک از خود (suo motu) پٹیشن مفاد عامہ کے ذیل میں درج کر کے حکومت سے بذریعہ نوٹس جواب طلب کیا جائے ۔ یہ پٹیشن فوراً درج کردی گئی اور بعد کو درج شدہ شاعرہ بانو اور دیگر خواتین نیز نسائی اور سیاسی تنظیموں کی عرضداشتیں اسی میں ضم کردی گئیں۔ لیکن نہایت حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ نہ تو سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ میں صنفی انصاف پر بات ہوئی او راس معاملے میں کسی قسم کی ہدایات جاری کیں او رنہ ہی حکومت یا اس کے کسی ادارے نے اس موضوع کو آگے بڑھایا۔ معاملہ طلاق ثلاثہ پر شور و غوغا تک ہی محدودرہا ۔ اوریہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ صنفی امتیاز کاشکار صرف مسلم عورتیں ہی نہیں ہیں بلکہ صنفی انصاف کا تصور بلاتخصیص مذہب اور قوم تمام خواتین کے انسانی و شہری حقوق کا احاطہ کرتا ہے۔ اس موضوع پر کسی قسم کے اقدامات تو کیا قومی سطح پر کوئی سنجیدہ بحث تک نہیں کی گئی ۔ اورجب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس میں صنفی انصاف کا ذکر تک نہیں کیا۔
طلاق ثلاثہ یقیناًایک معاشرتی برائی او رایک قابل نفرت رواج ہے۔ اسے طلاق بدعت سے موسوم کرنا بذات خود اس کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل ہے ۔ اور اس سلسلے میں نسائی اور دیگر تنظیموں نیز حکومت وقت نے جو واویلا مچایا تھا اس کا بظاہر مقصد یہی تھا کہ اس برائی کو معاشرے سے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے ۔ لیکن زیر بحث قانون اگرایوان بالا سے بھی پاس ہوجاتا ہے جس کے (کانگریس کی حمایت کی بناپر) تمام تر امکانات موجود ہیں تو نہ صرف طلاق ثلاثہ جیسی برائی کو مٹانے میں ناکام ہوگا بلکہ نئے جرائم کی ابتداء کا سبب بنے گا۔ اس بل کامسودہ بنانے میں نہ صرف یہ کہ غیر ضروری عجلت سے کام لیا گیا ہے بلکہ اس کے بارے میں حکومت کی بدنیتی اور سیاسی مقاصد بھی اظہر من الشمس ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہوسکتا تھا۔ مسلم تنظیموں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو تقریباً دو سا ل اس غور و فکر کے لئے مہیا تھے کہ وہ کوئی تجویز لے کر حکومت کے پاس جائیں اور طلاق ثلاثہ کے تدارک کے اقدامات یا قانون بنانے کا ایسا مشورہ دیں جو شریعت کی حدود میں ہو۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اور تو اور مجوزہ بل کا اعلان ہوجانے کے بعد بھی اس مسئلے پر ’’غور و خوض‘‘ ہی کیا جاتارہا۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے کے سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے جوابی حلف نامے میں پرسنل لا بورڈ نے خود کہا تھا کہ معاملہ کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور صرف پارلیمنٹ کو اس قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ دوسرے الفاظ میں بورڈ نے طلاق ثلاثہ پر قانون بنانے کا عندیہ دے دیا تھا۔
کسی بھی مجوزہ قانون یعنی بل کے مسودے میں اہم ترین چیز ہوتی ہے وہ ’’ مقاصد اور وجوہات‘‘ ( Objects and reasons) جو اس قانون کاجواز ہیں ۔ زیر بحث قانون کے مقاصدو وجوہات میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ نے یہ ذمہ داری (یعنی اس مسئلے پر قانون سازی) حکومت پر ڈال دی تھی ۔ وجوہات کے بیان میں یہ بھی درج ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ اس قسم کی ہدایات جاری کی جائیں گی کہ طلاق ثلاثہ کا سدّباب ہومگر اس کے باوجود طلاق ثلاثہ کے معاملات سامنے آتے رہے۔ بآلفاظ دیگر بل کی وجوہات کے بیان سے یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ نے خود توکچھ کیا اورجب حکومت نے قانون بنا دیا تو شریعت میں مداخلت کاشورمچا رہے ہیں ۔ بات ہے بھی درست۔ جہاں تک حکومت کاتعلق ہے تو طلاق ثلاثہ کی بنچ کنی کے تحت اگر کوئی پر خلوص کوشش کی جاتی یا کوشش کی نیت ہوتی تو ضرور اس سلسلے میں مزاحمتی (preventive) قانون کامنصوبہ بنا گیا ہوتا ۔ کئی مسلم ممالک میں نکاح او رطلاق کے ایسے قوانین او رمیکینزم موجود ہیں جو پوری طر ح اسلامی شریعت کے دائرے میں ہیں لیکن ان کی موجودگی میں طلاق ثلاثہ جیسے عمل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ مراقش کے ایسے ہی قانون یعنی ’’مدوّنہ‘‘ کی مثال خود مرکزی حکومت کے جوابی حلف نامے میں دی بھی گئی تھی لیکن پرسنل لابورڈ یا اس کے فاضل و کلانے اس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی ۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ان تمام مسلم ممالک کی مثالیں پیش کی گئی تھیں جہاں کے قوانین ایک نشست طلاق ثلاثہ کی اجازت نہیں دیتے لیکن بورڈ کے وکلا نے ان دلائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور کھلی عدالت میں کئی تنظیموں نیز عرضی گزاروں کے مسلم اور غیر مسلم وکلا کی طرف سے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ آخر ایسی کون سی شریعت ہے جو صرف ہندوستانی مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ اب بھی قانون کے خلاف ’’تحریک‘‘ چلانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ پاس ہو جانے کی صورت میں اسے آئین ہند کی کئی شقوں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے او رکامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امّت مسلمہ اورخصوصاً ہمارے علما عقل و دانش کے بجائے جذبات کے استعمال کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔
یہ بات کہ بل پر رائے شماری کے دوران بیشتر مسلم ارکان نے اس کی مخالفت نہیں کی امّت کے بے قائدو بے قائد ہ ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قانون کی مذمت کرنے والے ’’ علماء‘‘ اور تنظیموں نے بھی بل کے (objects and reasons) مقاصد و وجوہات کا مطالعہ نہیں کیا ۔ وجوہات کے بیان میں پیرا گراف نمبر 2میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے ’’ آئینی اخلاقیات ‘‘ پر مبنی موقف کو تسلیم کیا ہے۔
محض اس ایک نکتے پر اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ ’’آئینی اخلاقیات‘‘ فلسفہ و اصول آئین (constitutional jurisprudence) کا ایک بے حد پیچیدہ موضوع ہے جس کا ذکر نہ تو آئین ہند میں ہے او رنہ اس پر مبنی سپریم کورٹ کی کوئی نظیر موجود ہے۔ وجوہات کے ذیل میں صنفی انصاف کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے جو قابل اطلاق فیصلہ دیا ہے اس کے سلسلے میں شریعت اور آئین میں موجود مذہبی آزادی کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے۔ او راگر صنفی انصاف کے تصور کو ہی قانون کی بنیاد سمجھا جائے تو اس انصاف کا اطلاق صرف مسلم خواتین پر ہی کیوں کیا گیا او روہ بھی ایک تعزیری قانون کے ذریعے ۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کی پوری گنجائش موجود ہے کہ اگر اس بل کے مقاصد ووجوہات سپریم کورٹ کے سامنے رکھ کر پوچھا جائے کہ کیا یہ قانون ان دی گئی وجوہات پر مبنی ہے او ران مندرج مقاصد کی تکمیل کرتا نظر آرہا ہے تو مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا جواب نفی میں ہوگا اور حکومت کو جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔ یہ بھی طے بات ہے کہ ہمارے یہاں مروّج و مستعمل برطانوی فلسفہ قانون ( jurisprudence) کی رو سے ایک سول معاہدے کی خلاف ورزی کے معاملے میں اس قسم کاتعزیری قانون نہیں بنایا جاسکتا جیسا کہ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں بنا دیا گیا ہے۔ یہ کافی تفصیل طلب موضوع ہے او راس پر آئندہ بھی اظہار رائے کروں گا۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism