New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 11:15 PM

Urdu Section ( 17 Jul 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Travesty of Urdu Councils and Forums اردو کونسلوں اور فورموں کی حالت زار

  مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 10 جولائی 2023

 آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی۔ یہ اب بھی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے، جو کشمیری زبان کے ساتھ ساتھ ہائی اسکول تک وادی کشمیر کے تمام طلباء کو ایک مقامی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اس سے پہلے جموں و کشمیر جس کو تقسیم کرکے ایک یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا، اردو زبان نے جموں، کشمیر اور لداخ کے ہر تین الگ الگ خطوں کو ایک ساتھ باندھے رکھا تھا۔ اب اس تبدیل شدہ منظر نامے میں ہر خطہ اپنی اپنی علاقائی زبان مثلاً ڈوگری، کشمیری، ہندی، لداخی اور یہاں تک کہ پنجابی پر زور دے رہا ہے۔ زبان کی یہ جنگ جاری رہے گی۔ لیکن بلاشبہ دوسری زبانوں کو شامل کرکے اردو زبان کو بطور سرکاری زبان کے ختم کرنے سے اس کی رسائی میں رکاوٹ تو ضرور پڑی، لیکن اس سے اس کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑا جو پہلے ہی رک چکی تھی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں کہ اردو کیوں پسماندہ ہے، اور حکومت کی جانب سے غفلت کا رویہ اس کا ایک معمولی پہلو ہے، اردو ان لوگوں کی بے وفائی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہے جو اس کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے مفادات نے اردو کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے اس کا استحصال کرتے ہوئے اسے اپنی خواہشات کا یرغمال بنا لیا ہے۔ زبان کو مذہب کی طرح ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر اپنی ذاتی ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 چند سال قبل، چند اساتذہ، سماجی کارکن، زبان کے کارکن اور ایک اردو پبلشر نے مل کر کشمیر میں ایک اردو کونسل بنائی۔ میں بطور ایک نوجوان کے، جو پہلے سے ہی ایک اسلامی ٹرسٹ کے ساتھ رضاکارانہ خدمات انجام دے رہا تھا، جہاں میں نے اپنی زندگی کی ایک دہائی ضائع کردی اور میرا استحصال کر کے ایک فرضی ایڈووکیٹ نے اپنے اپنی جیب بھاری کیا، مجھے 2014 کے سیلاب زدگان کے لیے مالی امداد حاصل ہوئی۔ کشمیر میں اس کے دفتر میں ہی اردو کونسل کا قیام عمل میں آیا اور میں بھی اس کا رکن بن گیا، ہر ماہ کچھ مالی امداد دیتا رہا۔ مجھے کافی دیر سے معلوم ہوا کہ زبان کے نام نہاد کارکن اور پبلشر پہلے ہی اردو فاؤنڈیشن سے انانیت اور تصادم کی وجہ سے الگ ہو چکے ہیں جیسا کہ اکثر مسلم تنظیموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان ناراض اراکین نے اب اردو کونسل کے نام اور عنوان سے ایک نئی دکان کھول لی۔ میں اس کی میٹنگوں میں باضابطہ شریک ہوتا رہا، لیکن اردو کے لیے کوئی عملی اور قابل عمل اقدامات نہیں کیے گئے، سوائے اس کمیٹی کی تشکیل کے جس نے نوکر شاہوں، ریاست کے دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی اور ان سے اردو کی حفاظت اور اس کے تحفظ کے لیے التجا کی۔

 بنیادی طور پر اردو کو اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ ذاتی تعلق اور رابطہ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بعض اوقات اس کے لیے مقامی شعراء کی کچھ شعری نشستوں کا اہتمام کیا جاتا۔ میں شاعری سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں کیونکہ شاعر سب سے زیادہ مثالی اور ناقابل عمل لوگ ہوتے ہیں، اگرچہ میں کبھی کبھی شاعری کرتا ہوں لیکن یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے، جس میں توانائی صرف کی جائے۔ شاعروں نے صرف جھوٹی امیدیں دی ہیں، خیالی دنیا بنائی ہے، مسلمانوں کو جذباتی بنایا ہے، جس کی وجہ سے آج مسلمان غلط ترجیحات اور ناکامیوں سے گھیرے ہوئے ہیں۔ اس لیے میں نے کبھی بھی کونسل کی طرف سے منعقدہ کسی مشاعرے میں شرکت نہیں کی۔ پبلشر نے اپنی کتابوں کو سرکاری دوروں کے ذریعے آگے بڑھایا، لہٰذا اس کا ہمیشہ سے ایک ذاتی مفاد تھا جس نے اسے کونسل سے جوڑے رکھا۔

 بعد میں میں نے نام نہاد اسلامی ٹرسٹ کو چھوڑ دیا جہاں ناکام وکیل زکوٰۃ کی رقم کو ہڑپ رہا تھا جو غریبوں کے لیے ہوتی ہے اور اسے اپنا قد بڑھانے اور اپنی تشہیر کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ لہٰذا میں نے یہ پایا کہ کسی استحصالی گٹھ جوڑ کا حصہ بننا اپنا وقت، پیسہ اور آخرت کو تباہ کرنا ہے۔ میں نے رضاکارانہ طور پر اپنا وقت اور پیسہ غریبوں، یتیموں اور بیواؤں پر صرف کیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ناکام وکیل لوگوں سے جمع کیے گئے ان فنڈز کو اپنے ذاتی اخراجات کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس کا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ میں خاموشی سے چلا گیا کیونکہ اگر میں اسے عام کر دیتا تو لوگوں کا اعتماد اسلامی نام کے ٹرسٹوں اور این جی او وغیرہ سے ٹوٹ جاتا۔ یہ ناکام وکیل بھی اس اردو کونسل کا ٹرسٹی تھا، اس لیے اس کا ممبر بننا اس مجرم کو پھر سے تسلیم کرنا اور اسے جائز سمجھنے کے مترادف تھا۔ میں نے کونسل کو بھی چھوڑ دیا اور انہوں نے بھی مجھے واپس بلانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور نہ ہی مجھے دوبارہ ان میں شامل ہونے کی درخواست کی۔ درحقیقت وہ خوش تھے، کیونکہ اب وہ آمرانہ انداز میں اپنے معاملات چلا سکتے تھے کیونکہ وہ جمہوریت سے نفرت کرتے تھے۔ مجھ جیسا شخص جو ہمیشہ احتساب کا مطالبہ کرتا ہے خاص طور پر جمع شدہ اور استعمال شدہ رقم کا احتساب ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو کسی بھی وجہ سے زبان یا مذہب کا جھوٹا جھنڈا اٹھا کر اسے حاصل کرتے ہیں۔ میں چلا گیا اور وہ شعری نشستوں کے ذریعے اردو کا مزاق اڑاتے رہے۔ ان میں کچھ سبک دوش نوکر شاہ بھی شامل تھے جنہوں نے اقتدار میں رہ کر اردو کو بہت نقصان پہنچایا، لیکن اب بھی عوام کی یادوں سے مٹنا نہیں چاہتے اور خبروں میں رہنے کے لیے ایسے فورموں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے اردو کے لیے زمینی سطح پر کچھ نہیں کیا ہے، لیکن وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود کو اس کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر کے اپنا دبدبہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت میں نے انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ کونسل اتنے زیادہ ممبران اور آمدنی کے باوجود اتنے سالوں جو کام نہیں کر سکی، میں نے ذاتی سطح پر کچھ کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرکے، انگریزی ویب سائٹسوں اور جرائد کے لیے اردو کتابوں کا مطالعہ اور تجزیہ کر کے، اس سے زیادہ کام کر کے دکھایا ہے، میں نے ہر ماہ ہزاروں روپے وقف کر رکھے ہیں اردو کتابیں خریدنے کے لیے۔

 اور یہی حال مجھ جیسے بے شمار مصنفین اور محققین کا ہے جو اپنی انفرادی حیثیت کے مطابق خاموشی کے ساتھ اردو زبان کی خدمت کر رہے ہیں، جب کہ یہ کونسلیں اور فورم ان چند افراد کی ذاتی جاگیر بنے ہوئے ہیں جو اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کی آڑ میں اس کا استحصال کرتے ہیں۔ زیادہ تر تحریکیں، کونسلیں اور انجمنیں جن کی قیادت مسلمان کرتے ہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کے ارادے خالص نہیں ہوتے۔ اس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ احیاء پسند تحریکوں سے وابستہ افراد کے علاوہ زیادہ تر مسلمان یہ نہیں جانتے کہ ایک ٹیم کے طور پر کیسے کام کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر اجتماعیت، عصبیت اور برادری کے طور پر ہمدردی کا احساس (امت پنہ) موجود نہیں ہے۔ پس جب انانیت، مادی مفادات، اقتدار کی ہوس اور شہرت کی بھوک سب اکٹھے ہو جائیں، تو یقیناً کوئی بھی اجتماعی فورم ادارہ نہیں بن سکے گا بلکہ دھڑوں میں بٹ جائے گا۔ اس کے بعد یہ دھڑے کسی اجتماعی مقصد کے لیے کام نہیں کر سکتے، بلکہ شخصی فرقوں اور جاگیرداروں کے میدان جنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کا بہت سارا پیسہ، وقت اور وسائل ایک شخص کے ہاتھوں تباہ اور اغواء کر لیے جاتے ہیں اور چند افراد پوری قوم کی قیمت پر مادی، مالیاتی اور اجتماعی طور پر ترقی کرتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر ملنے والے فنڈ اور وقت کسی ایک شخص کو امیر بنانے میں لگ جائے گا جب کہ قوم تاریکی میں ڈوبی ہوئی رہے گی۔ لہٰذا، مسلمانوں کو کسی فورم یا کونسل، اس کے ٹرسٹیوں اور ممبران کو وقت اور رقم کا عطیہ دینے سے پہلے ان کی معتبریت کو اچھی طرح جانچ پرکھ لینا چاہیے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غائب ہو جائیں اور اتحاد کی ساری امیدیں خاک میں مل جائیں۔ فورموں، کونسلوں اور ان جیسے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے قوم کو تاریکی میں رکھنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ وہ مسلم نوجوانوں میں مایوسی کا باعث بنتے ہیں اور انہیں دھوکہ دہی اور جرائم کے ارتکاب کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے ایسے برے رول ماڈل ہیں، جو امید کی ہر کرن کو سبوتاژ کرتے ہیں۔

English Article: The Travesty of Urdu Councils and Forums

URL: https://newageislam.com/urdu-section/travesty-urdu-councils-forums/d/130230

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..